”سب اچھا نہیں ہے“

ہفتہ 20 فروری 2016

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

دو باتوں سے آج کے کالم کاآغاز کریں گے ‘پہلی بات یہ کہ پاکستان میں برسراقتدار جماعت کی کرپشن ثابت کرنا محال‘ دوئم اگر کوئی معجزہ ہونے پر کرپشن ثابت ہوجائے تو سزا نہیں دی جاسکتی‘ دونوں باتوں کا نچوڑ یہ بھی سمجھ لیں کہ کرپشن حکومت جانے کے بعد ثابت ہوتی ہے مگر سزا نہیں مل پاتی ‘وجہ؟ صاف ظاہر ہے کہ سزا دینے والوں نے اگلی بار اقتدار سنبھالنا ہوتا ہے اورپھر دو سے پانچ سال بعد جب ان کی رخصتی ہوتی ہے توپھر ”کرپشن کی لامحدود داستانیں“ ان کے دامن کو داغدار کررہی ہوتی ہیں۔


یہ تو خیرابتدائیہ تھا آگے چلئے‘ میاں نوازشریف نے داستان چھیڑ دی ورنہ تو ہمارے جیسے کروڑوں بھولے بھالے عوام سمجھ رہے تھے کہ ”فرینڈلی کرپشن ادارہ“ نیب تو مخالفین کے خلاف ہی متحرک ہے‘ یقین کریں کہ ابھی تک ہم یقین نہیں کرپائے کہ میاں جی نے آخر نیب کو ”وارننگ “ دی ہی کیوں انہیں شاید خدشہ تھاکہ ”دشمنان ن لیگ“ کہیں انکے برادر خورد کو شکنجے میں نہ جکڑڈالیں۔

(جاری ہے)

خیر انہوں نے تو اشارتاً ہی بات کہی مگرپنجاب کے لاڈلے ‘مہامنتری جونیئر یعنی رانا ثنا اللہ نے جذبات میں آکر بات کچھ زیادہ ہی کھول ڈالی ”فرمانے لگے کہ کسی کوخوش یا گنتی پوری کرنے کیلئے نیب کو پنجاب میں کاروائی نہیں کرنے دیں گے‘ موصوف پھرفرماتے ہیں کہ نندی پور‘ میٹرو وغیرہ تمام منصوبے شفاف ہیں اگر کسی میں انجینئرنگ کی خرابی ہے تو پھر شہبازشریف کا کیا قصور؟ یعنی انہوں نے کل ملا کر دو باتیں کہیں ایک تو نیب کیلئے وارننگ دوسری شہبازشریف کادفاع ‘دونوں باتوں کی ایک ہی بات کہ انہیں بھی وہی خطرہ ہے جس سے ان کے قائد میاں نوازشریف آگاہ ہوچکے ہیں
اب تک ہم یہ نہیں جان پائے کہ نیب نے بالآخر کس کی دم پرپاؤں رکھ دیا ہے کہ ہرسو انتقام انتقام کی سزا ئیں بلند ہورہی ہیں اورکوئی اس ”انتقام“ کو گنتی پوری کرنے کا نام دے رہاہے اور کوئی اسے کسی کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی۔

دم سے یاد آیا کہ اپنے شیخ جی بھی اس موقع پر برجستہ جملہ بازی سے باز نہیں فرماتے ہیں کہ ”قوم سمجھ گئی ہے کہ شیر کی دم پرگینڈے کاپاؤں آگیا ہے“ پتہ نہیں شیخ جی کہاں کہاں سے ڈھونڈڈھونڈ کر سیاسی لطیفے پھلجھڑیوں کی صورت قوم کے کانوں میں انڈیلتے رہتے ہیں ‘خیر نیب کا ذکر جاری ہے اور پھر میاں جی کے خدشات کا ذکر بھی سامنے آجاتاہے‘ میاں جی نے ابھی کچھ ہی دنوں قبل فرمایاتھا کہ ہم اقتدار میں آتے ہیں پانچ سال کیلئے اورپھر پتہ نہیں چلتا کہ ٹائم گزر جاتا ہے(یعنی اس میں بھی قصور قوم کا ہی کہ جو ہرسال انہیں جگاکر بتانہیں پاتی کہ حضور ایک اورسال بیت گیا )میاں صاحب ابھی دو ہی دن قبل فرمارہے تھے کہ اقتدار کے حوالے سے نوے کا دور بہتر تھا کہ آزادانہ طورپر ہم کام کرسکتے تھے مگر اب راستے میں رکاوٹیں ہیں‘ گو کہ انہوں نے رکاوٹوں کاذکر نہیں کیامگر سمجھنے والے سمجھ گئے ہیں کہ موصوف کن رکاوٹوں کاذکر کررہے ہیں۔

میاں جی کی فطرت کے حوالے سے ایک شعر خاصی مماثلت رکھتا ہے
گلیاں ہوجانڑ سنجیاں ‘وچ مرزا یار پھرے
یعنی کوئی روک ٹوک نہ ہو ‘مرزے کی جو مرضی آئے کرتا پھرے ‘کوئی قانون یا قانون والا روکنے کی جرات نہ کرسکے‘عموماً ایسا ہونا محال ہے مگر یاران محفل عشق کے بعد اب یاران سیاست بھی اقتدار میں آتے ہی ایسی طاقت کے خواہشمند ہوتے ہیں جو بے لگام ہونے کے علاوہ ہرقسم کی مانیٹرنگ سے پاک ہو۔

دنیا کاہمیں نہیں پتہ اورنہ ہی ہم کوئی مثال دینے کی پوزیشن میں ہیں صرف اتنا عرض کرناچاہتے ہیں کہ آج تک دنیا کی تاریخ میں کوئی بھی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ سستے تندور ‘ سستے دسترخوان جیسے کوئی منصوبہ سامنے نہیں آیا ۔ یہ ہمارے جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں بھی نہیں ہوتا اس کی واحد نظیر صرف ہمارے ہاں ہی ملتی ہے۔ اب اگر ان منصوبوں کا جائزہ لیاجائے تو سامنے آئیگا کہ ان کامقصد ہی کرپشن کے سوا کچھ نہیں۔

سستے تندور اور سستے دستر خوان کی آڑ میں کم ازکم غریبوں کابھلا سامنے نہیں آیا ‘یعنی قوم کے کروڑوں روپے تندو ر میں جلادئیے گئے اورکوئی حساب کتاب نہیں‘ اگر کوئی ”قرض اتار و‘ملک سنوارو “ مہم کی بابت سوال کرے تو ہمارے ماتھے کی لکیریں اورگہری ہوجاتی ہیں‘ کوئی بینظیرانکم سپورٹ کی مد میں اربوں روپے کے گھٹالے کاذکر کرے اورپوچھنے کی جرات کربیٹھے کہ”حضور ! اربوں روپے کس کس حقیقی مستحق تک پہنچے“ تو ہمارے ماتھے کی گہری ہوتی لکیریں اور زیادہ گہری ہوجاتی ہیں۔

بھلا بتائیے کہ اسے شاہانہ مزاج تصور نہ کیاجائے تو کیا سمجھاجائے؟
جمہوری ممالک میں حکمرانوں کو ہرقدم پر عوام کا جوابدہ ہوناپڑتاہے۔ لیکن ہمارے ہاں حکمران عوام کے جوابدہ ہونے کی بجائے ہر دفعہ نئی مجبوریاں بتاکر ”قربانی“ کادرس دیتے ہیں۔قوم بھی آج تک قربانیاں دیتے دیتے تنگ آنے کے باوجود پھر نئی ”قربانی“ کیلئے اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔

ستم ظریفی یہ بھی ملاحظہ ہو کہ ہم نے ایسے ایسے مہا پرش پال رکھے ہیں جن کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ اس کی ایک مثال اسحاق ڈار کی صورت موجود ہے کہ موصوف دن رات اسی سوچ میں غلطاں رہتے ہیں کہ قوم کی بچی کھچی چمڑی کو کیسے ادھیڑا جائے۔ نئے ٹیکس گزاروں کی تلاش میں ان کی آنکھوں کی چمک اس وقت بڑھ جاتی ہے جب ان کی نظر عام آدمی پر پڑتی ہے‘ عوام بھی ہربار یہی سوچ کر خاموش ہوجاتے ہیں کہ ”ہماری قربانی سے اگر پاکستان کاچہرہ چمک اٹھے تو کیا برائی ہے“ مگر نت نئے ٹیکسوں کی بھرمار کے باوجود ڈار صاحب اور میاں صاحبان کی ”حل من مزید “ کی صدا کم نہیں ہوپاتی
ذکر نیب سے شرو ع ہوا اور ن لیگیوں کی حل من مزید کی صداتک آن پر پہنچااس کے درمیان میں ختم نہ ہونے والی عجیب وغریب داستان شروع ہوگئی۔

بہرحال مسلم لیگ کے رہنماؤں کے چہرے پر اتری پیلاہٹ ان کے خوف کی علامت ہے اورانہیں خطرہ ہے کہ کہیں نیب کا اڑتا اچھلتا کودتا پھندہ ان کے کسی لیڈر کی گردن میں نہ پھنس جائے۔ یوں بھی مسلم لیگ خوش گمانی کاشکار ہے کہ کرپشن صرف تین صوبوں میں ہی ہورہی ہے ۔ پنجاب میں کرپشن اور وہ بھی مسٹر میرٹ کے ہوتے ہوئے؟ ناممکن ‘حالانکہ ترقیاتی عمل سے لیکر سرکاری دفاتر تک اور پنجاب کی اشرافیہ سے لیکر عام چھوٹکرے سیاستدان تک سبھی ”گٹے گوڈوں“ تک کرپشن میں لتھڑے دکھائی دیتے ہیں۔مگر”سب اچھا“ کی صداجاری ہے مگر حقائق یہی بتاتے ہیں کہ سب اچھا نہیں ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :