دم

پیر 22 فروری 2016

Hussain Jan

حُسین جان

دُم پر پاؤں رکھنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ خیر ہم تو عوام ہے ہمیں کیا پتا کس کی دم پر کس کا پاؤںآ رہا ہے۔ پہلے کون سا اشرافیہ نے ہمیں کبھی اعتماد میں لیا جو اب دم پر پاؤں رکھتے وقت لیں گے۔ دھرنے کے دنوں میں بھی چوہدری صاحب نے اعتزاز احسن صاحب کی دم پر بھی پیر رکھنے کی کوشش کی تھی۔ مگر میاں صاحب نے بیچ بچاؤ کروا دیا۔ سنا ہے ایک دفعہ پھر دموں پر پیر آئے لیکن بات آگے نا بڑھ پائی۔


ڈنڈنے کھانا ، بوچھ اُٹھاناگرمی برداشت کرنا سارا دن بغیر رکے کام کرنا کس کا کام ہے آپ بالکل سہی سمجھیں ہیں یہ سب خصوصیات ایک کھوتے میں ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے یہ سارئے کام پاکستانی قوم کو بھی کرنے پڑ رہے ہیں حکومت کی طرف سے تو کوئی ریلیف ملتا نہیں لہذا ہم کھوتوں کی طرح دن رات کہیں نا کہیں لگے رہتے ہیں اور اشرافیہ موج کرتی ہے۔

(جاری ہے)

ہمارئے وزراء کیا کام کرتے ہیں ایک دوسرئے پر کروڑوں عربوں روپے کی کرپشن کے الزامات لگاتے ہیں اور پھر ان الزامات سے مکر جاتے ہیں۔

عدالتیں بھی شائد بہت کمزور ہیں جو ان الزامات کا نوٹس نہیں لیتیں کہ یہ جو آپ نے الزامات لگائیں ہیں ان کو ثابت کریں تاکہ مجرموں کو سزا مل سکے اور اگر الزامات جھوٹے تھے تو لگانے والے کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
وزیر آعظم صاحب نے نیب کو اپنی حدود میں رہنے کا حکم دیا ہے ۔ ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ شرفاء کو تنگ نا کیا جائے۔ وزیر قانون صاحب نے منطق پیش کی ہے کہ زرداری صاحب کو گیارہ سال جیل میں رکھنے سے کیا ثا بت کیا گیا، تو اُن کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ زرداری صاحب پر مقدمات انہی کے دور حکومت میں میاں صاحب کے چہتے جو آجکل قطر میں عیاشی مار رہے ہیں نے بنائے تھے۔

اگر گیارہ سال بعد بھی یہی گند کرنا تھا تو مقدمات بنائے ہی کیوں تھے۔ عوام کا کروڑوں روپیہ وکلاء کی فیس کی مد میں کیوں خرچ کیا گیا، کون پوچھے گا بھائی سب آرام سے سو رہے ہیں۔ عوام نے تو بالکل ہی نہیں پوچھنا وہ تو پہلے ہی بوچھ تلے دبے جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رانا صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ میاں منشا صاحب کو اگر تنگ کیا گیا تو وہ اپنا سرمایا ملک سے نکال لیں گے۔

اور وہ تمام دودھ کی نہریں جو ان کے سرمائے کی وجہ سے ملک میں بحہ رہی ہیں وہ سوکھ جائیں گیں۔
ہمارئے وزیر آعظم صاحب بھی بھولے بادشاہ ہیں کیا وہ نہیں جانتے کے ملک میں آج تک کسی بڑئے کو سزا نہیں ملی تو اب نیب کے حرکت میں آجانے سے کون سا آسمان گھر جائے گا۔ منشا صاحب کے سرماے کی سب کو فکر لیکن جو آپ لوگوں کا اپنا سرمایا ہے اُس کا کیا بنے گا۔

آپ کے کاروبار تو بیرون ملک ہیں۔ آپ کے بچے بیرون ملک پڑھائی کرتے ہیں۔ آپ کے علاج باہر ہوتے ہیں تو بھائی آپ پاکستان کی فکر کرنا چھوڑیں اپنی فکر کریں۔ پاکستانیوں کا کیا ہے وہ تو جیسے تیسے جئے چلے جا رہے ہیں اور مزید جئے چلے جائیں گے۔ یہ جو اپنے ماہر اقتصادیات جناب اسحاق ڈار صاحب جنہوں نے پاکستان کی تاریخ کا مہنگا ترین قرضہ لے لیا ہے مگر کسی کو کوئی پریشانی نہیں کہ ملک کا کیا بنے گا۔

اب تو ملک کے دیوالیہ ہونے کی خبریں بھی گر دش کرتی نظر آرہی ہیں۔
افسر شاہی سے لے کر سیاستدان تک سب کے سب اس ملک کو جونک کی طرح چوس رہے ہیں۔ غنڈہ گردی کے بل بوتے پر حکومتیں کی جاتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے باقاعدہ غنڈے سیل بنا رکھے ہیں جن میں سے تو کچھ رینجر کے ہتھے چڑھ چکے ہیں باقی بھی ہاتھ لگ جائیں گے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنے مفاد کی خاطر غنڈہ عناصر کا استعمال بے دردی سے کرتے رہے ہیں۔

ایم کیو ایم سے لے کر پی پی پی تک سب نے عزیر بلوچ جیسے قاتل بھرتی کر رکھے ہیں جو وقت آنے پر قربان کر دیے جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ ملک میں جمہوری نظام چل رہا ہے یہ کیسا جمہوری نظام ہے جس میں چند خاندان برسر اقتدار ہیں اور باقی غریب ریایا کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔
کچھ لوگ جنرل راحیل کی طرف بھی دیکھ رہے ہیں کہ وہ ملک سے کرپشن ختم کریں گے۔

تو ایسے لوگوں کے لیے یہی بات کافی ہے کہ جنرل صاحب سپائی ہیں وہ جنگ تو لڑ سکتے ہیں، ملک سے دہشت گردی جیسی لعنت کا قلع قمع تو کرسکتے ہیں مگر کرپشن کا جن بوتل میں بند نہیں کرسکتے یہ کام سول حکوموتوں کا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے کرپٹ عناصر سول حکومت کا کسی نہ کسی طرح حصہ بن جاتے ہیں۔ وہ پھر ان کی کرپشن اور جرائم جمہوریت کی بھینٹ چڑ ھ جاتے ہیں۔


ہمارئے وزیر آعظم دُنیا میں سب سے زیادہ دورئے کرنے والے وزیر آعظم بن چکے ہیں عوام کا کروڑوں روپیہ ان دوروں پر خرچ ہو چکا ہے۔ ان دوروں میں حواریوں سے لے کر خاندان کے لوگ تک ساتھ ہوتے ہیں۔ اب پتا نہیں میاں صاحب خاندان کے لوگوں کو ساتھ رکھ کر کون سی خارجہ پالیسی پر عمل کر رہے ہیں۔بدقسمتی سے ان کے دوروں سے ملک میں کوئی سرمایا کاری بھی نہیں بڑھی اور نہ ہی کی برآمدات پر کوئی اثر پڑا ہے اُلٹا برآمدات کم ہی ہوئی ہیں۔

لگتا ہے میاں صاحب نے جتنا عرصہ ملک سے باہر گزارا ہے اُس کا بدلہ اب عوام سے لے رہے ہیں۔ بندہ پوچھے ملک سے باہر تو آپ کو جنرل مشرف صاحب نے نکالا تھا آپ نے بدلہ لینا ہے تو اُن سے لیں ہم غریبوں کا خون کیوں جلاتے ہیں۔ ہم میں اتنی سکت نہیں رہی کے مزید کسی بوچھ کے متحمل ہو سکیں۔
سب باتیں اپنی جگہ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ دم کس کروٹ بیٹھتی ہے کیا اپوزیشن اپنی دم بچا پائے گی یا نثار صاحب اپوزیشن پر جو الزامات لگا رہے ہیں اُن کو ثابت بھی کریں گے۔

شاہ صاحب کا کیا ہے اُن کے لیڈر تو پانچ سال مزے مار کر دبئی لندن کی یاترا کر رہے ہیں بچوں سمیت۔ شاہ صاحب بھی اپنا بوریا بستر سمیٹ کر نکل جاہیں گے کسی دن اپنے لیڈر کے پاس۔ جیالوں کا کیا ہے وہ پہلے بھی خون دیتے رہے ہیں اب بھی دیتے رہیں گے۔ اور مزے کریں گے مفاد پرست۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :