پاکستانی قوم کا گناہ۔۔؟
جمعرات 3 مارچ 2016
(جاری ہے)
یہ 2010ء کی بات ہے اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے پاکستان میں قانون توہین رسالت کے قانون کو کالا قانون قرار دیا- اس کے نتیجہ میں علماء کی ایک بڑی تعداد نے سلمان تاثیر کو واجب القتل قرار دے دیا اور 4 جنوری 2011ء کو سلمان تاثیر کی حفاظت پر مامور ایلیٹ پولیس کے جوان ملک ممتاز حسین قادری نے اسلام آباد کے علاقے ایف -6 کی کوہسار مارکیٹ میں انہیں قتل کر دیا-
ممتاز قادری کو یکم اکتوبر 2011ء کو راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی کی ایک عدالت نے گھناوٴنے جرم کے ارتکاب کا مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا حکم دیا تھا۔بعدازاں اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں بھی اپیل دائر کی گئی تھی جس پرجسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے مقدمے میں موت کی سزا پانے والے مجرم ممتاز قادری کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کی تھی ،اس موقع پر سپریم کورٹ کے ججز کے ریمارکس ریکارڈ پر موجود ہیں
” کہ اگر لوگوں نے توہین مذہب کے مرتکب افراد کو خود ہی سزائیں دینے کا فیصلہ کر لیا تو ملک میں افراتفری پھیل جائے گی اور مخالفین ایک دوسرے پر توہین مذہب کے الزامات لگا کر دشمنی نکالنے کی کوشش کریں گے۔“
عدالت نے مجرم کے وکیل جسٹس ریٹائرڈ میاں نذیر سے استفسار کیا تھا کہ توہین مذہب کے قانون میں کسی کو ذاتی حیثیت میں کیا اختیار دیا گیا ہے اور کیا ایک شخص خود ہی جج بن کر توہین مذہب کے مرتکب افراد کو سزا دے سکتا ہے؟
جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ عدالت کو مروجہ قانون کو دیکھنا ہو گا۔ دوسری طرف ممتاز قادری کے بقول اس نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ سلمان تاثیر نے اس کے بقول توہین رسالت کے قانون کی مخالفت کی تھی۔
28اور 29فروری کی درمیانی شب کو اڈیالہ جیل کے حکام نے عدالتی حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے ممتاز قادری کو پھانسی دے دی۔جس پر پورے ملک میں مذہبی تنظیموں کی طر ف سے احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔اب ایسے میں بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے احتجاج کے اس سلسلے کے بعد اور ملک میں خوف وہراس کی کیفیت موجود ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ جب ہمارے ہاں قانون توہین رسالت موجود ہے تو پھر کسی فرد کو یہ اختیار کیسے حاصل ہے کہ وہ کسی کو سزا دے؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس قانون کی موجودگی میں کوئی کیونکر کسی انسانی جان کا خاتمہ کرسکتا ہے؟اس صورتحال میں چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا محمد شیرانی کا بیان حوصلہ افزاء ہے ان کا کہنا ہے”ممتاز قادری کو قانون کو ہاتھ لینے کی سزا دی گئی میں ممتاز قادری کے مذہبی جذبات کی عزت کرتا ہوں مگر اس سے زیادہ پاکستان کے آئین اور قانون کا احترام کرتا ہوں۔“ایسی گھمبیر صورتحال میں علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کریں لوگوں میں اس حوالے سے شعور بیدار کریں ۔
ظاہری سی بات ہے ناموس رسالت ﷺ پر کوئی مسلمان سمجھوتہ نہیں کرسکتا مگر ایک سوال جو اس وقت پورے پاکستان کی عوام مذہبی جماعتوں سے پوچھ رہی ہے کہ ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد احتجاج اور ٹریفک کا نظام درہم برہم کر کے انہیں کس گناہ کی سزا دی جارہی ہے۔۔؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
فرخ شہباز وڑائچ کے کالمز
-
گلگت بلتستان میں کون حکومت بنائے گا؟
ہفتہ 14 نومبر 2020
-
لال حویلی سے اقوام متحدہ تک
اتوار 6 ستمبر 2020
-
مولانا کے کنٹینر میں کیا ہورہا ہے؟
پیر 4 نومبر 2019
-
جب محبت نے کینسر کو شکست دی
ہفتہ 19 اکتوبر 2019
-
نواز شریف کی غیرت اور عدالت کا دروازہ
ہفتہ 12 اکتوبر 2019
-
رانا ثنااللہ جیل میں کیوں خوش ہیں؟
جمعہ 11 اکتوبر 2019
-
مینڈک کہانی
منگل 1 اکتوبر 2019
-
اک گل پچھاں؟
اتوار 8 ستمبر 2019
فرخ شہباز وڑائچ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.