کیا پنجاب بدل رہاہے؟

پیر 7 مارچ 2016

Farrukh Shahbaz Warraich

فرخ شہباز وڑائچ

یہ 1540ء کی بات ہے۔ شیر شاہ سوری اقتدار کا مالک تھا۔شیر شاہ سوری نے پہلی بار زمینوں کی ریکارڈ کی دیکھ بھال کے لیے نظام متعارف کروایا جو ایک بہتر اور موثر نظام تھا۔بعد ازاں اسی نظام کو انگریز سرکار نے 1848ء میں متعارف کروایا تب سے آج تک پنجاب میں تمام زرعی زمینوں کی تفصیلات بشمول ملکیت اسی نظام کے تحت ریکارڈ کی جاتی ہیں۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پنجاب کی آبادی بڑھتی گئی ،اسی لحاظ سے نسل در نسل زمین کی تقسیم سے زمینوں کے مالکان میں بھی اضافہ ہو۔

اس وقت پنجاب بھر میں مالکان اراضی کی تعداد بڑھ کرساڑھے پانچ کروڑتک پہنچ چکی ہے ۔یہ تمام ریکارڈ ہمارے پاس پٹواریوں کے بستوں کی شکل میں موجود ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ پٹواریوں کے اختیارات میں اضافہ اورپیچیدگیوں کے سلسلے کومزید طول دے رہا ہے۔

(جاری ہے)

سب سے پہلے آپ کو ”پٹواری ازم“ کے متعلق جاننا ہوگا۔شیرشاہ سوری ،گوروں اور ہماری پہلی حکومتوں نے پٹواری کا ”رول“اتنا اہم کردیا تھاکہ بزرگ کسی نوجوان سے خوش ہو کراسے پٹواری بننے کی دعا دیا کرتے تھے۔

یوں سمجھ لیجیے پٹواری چلتی پھرتی عدالت کی حیثیت اختیار کرگیا تھا۔دیہاتوں میں پٹواری کا تصور کسی چودھری سے کم نہیں اس بات کا انداز ہ قدرت اللہ شہاب کے اپنی کتاب ”شہاب نامہ“ میں بیان کیے گئے ان دو واقعات سے لگایا جاسکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”ایک روز ایک بے حدمفلوک الحال بڑھیاآئی۔روروکر بولی کہ اس کی تھوڑی سی زمین ہے جسے پٹواری نے کاغذات میں اس کے نام منتقل کرنا ہے،لیکن وہ رشوت لیے بغیر یہ کام کرنے سے انکاری ہے۔

رشوت دینے کی سکت نہیں۔تین چار برس سے وہ طرح طرح کے دفتروں میں دھکے کھارہی ہے،لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔اس کی دردناک بپتا سن کر میں نے اسے کار میں بٹھایا اور جھنگ شہر سے ساٹھ ستر میل دور اس کے گاؤں کے پٹواری کو جا پکڑا۔ڈپٹی کمشنر کو یوں اپنے گاؤں میں دیکھ کر بہت سے لوگ جمع ہوگئے ۔پٹواری نے سب کے سامنے قسم کھائی کہ یہ بڑھیا شر انگیز عورت ہے اور زمین کے انتقال کے بارے میں جھوٹی شکایتیں کرنے کی عادی ہے۔

اپنی قسم کی عملی تصدیق کرنے کے لیے پٹواری اندر کمرے سے جزدان اٹھا کر لایا اور اپنے سر پر رکھ کر کہنے لگا”حضوردیکھیئے میں اس مقدس کتاب کو سر پر رکھ کہ قسم کھاتا ہوں۔“
گاؤں کے ایک نوجوان نے مسکرا کر کہا”جناب ذرا یہ بستہ کھول کر بھی دیکھ لیں“
ہم نے بستہ کھول کر دیکھا تو اس میں قرآن شریف کی جلد نہیں بلکہ پٹوار خانے کے رجسٹر بندھے ہوئے تھے۔

میرے حکم پر پٹواری بھاگ کر رجسٹر لایا اورسر جھکا کر بڑھیا کی انتقال اراضی کا کام مکمل کردیا۔
ایک اور جگہ صدر ایوب کے حوالے سے واقعہ بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ” صدر ایوب ایک روزمجھے اپنے ساتھ اپنے آبائی علاقے لے گئے۔وہاں جا کرمعلوم ہوا کہ ان کی والدہ ،جو اس وقت بقیدحیات تھیں،ان سے شدید ناراض ہیں اور ملاقات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

تھوڑی سی کوشش کہ بعد پتا چلا کہ ان کوتین شکایات تھیں۔ایک یہ کہ ایوان صدر کی کاریں جب کسی کام سے گاؤں آتی ہیں،تو یہاں کی چھوٹی چھوٹی سڑکوں پر تیز چلتی ہیں جس سے گاؤں کے لوگوں کی جان کو خطرہ لاحق ہوتا ہے،جو گاڑی بھی گاؤں آئے تو آہستہ اور احتیاط سے چلے۔دوسری شکایت یہ تھی گاؤں کے کئی لڑکے تعلیم ختم کر کے گھر بیکار بیٹھے ہیں،ان کو نوکری کیوں نہیں ملتی۔

اگر نوکری نہیں ملنی تھی تو کالجوں میں پڑھایا کیوں گیا؟تیسری شکایت یہ تھی کہ میری زمین کا پٹواری ہر فصل پر 50روپے فصلانہ وصول کیا کرتا تھا،لیکن اب وہ زبردستی سو روپیہ مانگتا ہے کہتا ہے ”تمہارا بیٹا اب پاکستان کا حکمران ہو گیا ہے۔“ پٹواری کے فصلانہ کا ریٹ دگناہونے پر صدر ایوب ہنس کر چپ ہو رہے اور کچھ نہ بولے۔مغربی پاکستان کے حکمران نواب آف کالا باغ جیسا جابر و ظالم زمیندار ہو یا صدر ایوب جیسا طاقتور سربراہ مملکت،اپنی اپنی زمینوں کے پٹواریوں کو وہ دونوں یکساں طور پر خوش رکھنے کے قائل تھے۔


پٹواری کلچرکو بدلنے کا نعرہ پنجاب حکومت نے بلند تو کیا تھا ۔اس وعدے کو کس حد تک پنجاب حکومت نے پورا کیا ؟یہ تجسس مجھے ایوان اقبال تک لے گیا جہاں وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے LRMIS یعنی لینڈ ریکارڈز اینڈ مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن سسٹم کے نفاذکا افتتاح کرنا تھا۔پنجاب کے 36 اضلاع میں لینڈ ریکارڈز اینڈ مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن سسٹم کا نفاذ ایک عہدساز تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔

صدیوں پر محیط لینڈ ریکارڈ کے انتظام کا نظام کاغذ کے صفحات پر ہاتھ سے لکھا جاتا تھا۔صدیوں سے جاری پٹوار کلچر‘ لینڈ ریکارڈ سسٹم کا سب سے نچلا انتظامی درجہ ہے۔ ایک طویل عرصے
سے پٹوار کلچر اپنی افادیت ‘ اثر اور اعتبار کھو کر کرپشن‘ استحصال اور وقت کے ضیاع کی علامت بن چکا ہے۔پنجاب حکومت کے افسران کے مطابق لینڈ ریکارڈ کو ڈیجیٹل کرنے کا مقصدایک موثر‘ منصفانہ‘ محفوظ اور قابل استطاعت لینڈ ریکارڈ سسٹم کا قیام ہے تاکہ لوگ اراضی کی ملکیت کے حقوق تک آسان رسائی حاصل کر سکیں اور ان کا ریکارڈ ہر طرح کے شکوک و شبہات سے بالاتر اور محفوظ ہو۔

صوبہ بھر کی تمام 143تحصیلوں میں سٹیٹ آف دی آرٹ اراضی ریکارڈ سینٹر قائم کئے جا چکے ہیں‘ جہاں ضروری آلات اور سہولتیں بھی مہیا کی گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اراضی ریکارڈ سینٹرز پر تعیناتی کے لئے شفاف اور میرٹ کے ذریعے 3ہزار ملازمین بھرتی کئے گئے جنہیں پنجاب بورڈ آف ریونیو میں ریونیو ریکارڈ‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ پیشہ ورانہ مہارت کے نئے رحجانات‘ دفتری امور کی تکنیک‘ شخصی ابلاغ جیسے امور کے بارے میں خصوصی ٹریننگ دی گئی۔

اراضی کے قیمتی ریکارڈ کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے بورڈ آف ریونیو نے پنجاب کی تمام 143تحصیلوں میں اپنا پرائیویٹ نیٹ ورک قائم کیا ہے۔ بنیادی قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد سائل 30منٹ میں فرد حاصل کر سکتا ہے۔ اسی طرح میوٹیشن یعنی انتقال کے عمل کو بھی موثر بنایا گیا ہے۔ماضی میں انتقال اراضی کا عمل مہینوں پر محیط ہوتا تھا جبکہ اب یہی عمل 50منٹ کے قلیل وقت میں مکمل کیا جاتا ہے۔

خریدار اور بیچنے والے
کو انتقال اراضی اور فردملکیت کی بلامعاوضہ کاپی فراہم کی جاتی ہے جس پر خریدارکی تصاویر بھی چسپاں ہوتی ہیں۔ مصدقہ انتقال اراضی کے ذریعے ریونیو ریکارڈ کو خودکار نظام کے تحت عوام کی سہولت کے لیے آن لائن اپ ڈیٹ کر دیا جاتا ہے۔ کمپیوٹرائزڈڈیٹا کے ذریعے لوگوں کے حقوق ملکیت کو محفوظ بنادیاگیاہے۔ایل آر ایم آئی ایس کے حوالے سے عوام کے تاثرات سننے کے بعد میں یہ سوچ رہا تھا کہ اپوزیشن کے صفوں میں شیرشاہ سوری کے نام سے پکارے جانے والے حکمران نے شیر شاہ سوری کے دیے گئے اس پرانے نظام کو تو بدل ڈالا،مگر کیاوہ ہمارے پیدا کردہ”کرپشن سسٹم“ کو بھی بدل پائیں گے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :