تعلیم یا منافع بخش کاروبار۔۔۔۔؟

جمعہ 11 مارچ 2016

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

اس ملک میں تعلیمی ترقی اور تعلیمی انقلاب کے بہت دعوے کئے گئے۔ وعدے بھی بہت ہوئے، حکومتی ایوانوں سے تعلیم کے موضوع پر نعرے بھی بہت لگائے گئے، پرویز مشرف کے دور حکومت میں پنجاب کے اندر تعلیم سب کیلئے کا نعرہ بھی سننے کوملا،تین سال پہلے جب عمران خان کی تحریک انصاف برسراقتدار آئی تو خیبرپختونخوا میں تعلیمی ایمرجنسی بھی لگا دی گئی جو آج بھی پورے صوبے میں نافذ ہے۔

لیکن تعلیمی ایمرجنسی اور حکمرانوں کے دعوؤں، وعدوں اور نعروں کے باوجود نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ پورے ملک میں تعلیم کا جو حشر ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے اور نتیجہ بالکل واضح ہے۔ تعلیم کے ساتھ حکومتی مذاق اور کھلواڑ کے باعث آج پاکستان میں تعلیم ایک منافع بخش کاروبار کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔

(جاری ہے)

آج اس بدقسمت ملک کے نامی گرامی اداروں میں بھی نسل نوکوتعلیم و تربیت دینے کی بجائے نوجوانوں کو ڈگریاں تھما کر مال بٹورنے کی راہیں تلاش کی جارہی ہیں۔

آج تعلیمی درسگاہیں، تعلیمی مراکز اورتعلیمی ادارے اس ملک میں کم اور ڈگری ساز فیکٹریاں زیادہ ہیں۔ مال و دولت کمانے کیلئے آج اس ملک کی ہر گلی۔۔ محلے اور کوچے میں ڈگری ساز فیکٹریوں کا جال بچھا دیا گیا ہے۔ جہاں تعلیم کے نام پر نوجوانوں کا قیمتی وقت ضائع کرکے ڈگریاں جاری کی جارہی ہیں۔ چیک اینڈ بیلنس کے فقدان اور حکومتی نااہلی، غفلت اور لاپرواہی کے باعث تعلیم کش مافیاء آج اتنا بااثر ہو چکا کہ اب رات کی تاریکیوں کے ساتھ دن کی روشنی میں بھی تعلیم کے نام پر غریب اور سادہ لوح عوام کو بڑی بیدردی کے ساتھ لوٹا جارہا ہے۔

بڑے اور نامی گرامی ڈگری ساز فیکٹریوں کے اندر غریب عوام کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس کو دیکھ کر انسان کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہوتا ہے۔ ہزارہ سمیت خیبرپختونخوامیں اس وقت اے پی ایس اورپپس سمیت کئی ایسے ادارے ہیں جہاں لوٹ مارکابازارخوب گرم ہے ۔ ان اداروں میں داخلے کیلئے غریبوں کو جو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اس کا سوچ کر بھی رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کیونکہ ان اداروں میں کسی عام اور غریب بچے کو داخلہ تو نہیں ملتا لیکن انٹری فیس کے نام پر غریبوں کی جو چمڑی ادھیڑی جاتی ہے اور دلوں پر جو زخم لگائے جاتے ہیں وہ پھر برسوں بعد بھی مندمل نہیں ہوتے ۔

ان اداروں میں انٹری فیس کے 3 سے 4 ہزار روپے لئے جاتے ہیں۔ انٹری فیس پر ان اداروں کا کیا خرچ ہوتا ہوگا۔ 10 سے 20 روپے کے کاغذ ، مگر ان اداروں میں ڈیرے جمائے ظالم سو اور دو سو روپے لینے کی بجائے فی کس 3 سے 4 ہزار روپے وصول کرتے ہیں۔ نہ جانے ان اداروں میں داخلوں کیلئے ایک سیزن میں کتنے ہزار امیدوار اپلائی کرتے ہوں گے۔ پھر داخلہ بھی تو ہر امیدوار کو نہیں ملتا اور نہ ہی ہر انٹری ٹیسٹ دینے والے کو یہ لوگ قبول کرتے ہیں۔

لیکن انٹری ٹیسٹ فیس کے پیسے کسی کو معاف نہیں کئے جاتے۔ داخلہ دینے کے وقت تو امیر و غریب۔۔۔۔ کالا و سفید اور پسند و ناپسند کا خیال ضرور رکھا جاتا ہوگا لیکن فیس وصولی کے معاملے پر تو کوئی کمپرومائز نہیں کیا جاتا ۔ وہ غریب طالب علم جو دو وقت روٹی کیلئے بھی تڑپتے ہیں انہیں بھی ان اداروں میں داخلے کے شوق میں 3 سے 4 ہزار روپے ہوا میں اڑانے پڑتے ہیں۔

چاہیے تو یہ تھا کہ انٹری فیس میں فیل یا داخلہ نہ ملنے والے امیدوار کو یہ پیسے واپس کئے جاتے مگر افسوس کہ ”جتنا بڑا ادارہ اتنا بڑا ڈاکہ“ کے مصداق ان نامی گرامی اداروں میں لوٹ مار کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حکومت نے انٹری فیس اور ماہانہ فیسوں میں ان اداروں کو خود مختاری دے کر ان کو لوٹ مار کے لائسنس جاری کر دئیے ہیں۔

ان اداروں کے لٹیرے مالکان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ چاہے عوام کو ایک ہاتھ سے لوٹیں یا دونوں ہاتھوں سے ان کے کپڑے تک اتاریں۔ ان سے باز پرس کرنے والا کوئی نہیں۔ ملک میں اس وقت تعلیم کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ عمران خان اور پرویز خٹک جو کرپشن کے خلاف جہاد جہاد کے نعرے لگا کر نہیں تھکتے ان کو یہ کرپشن کے کارخانے نظر نہیں آرہے اور ان کو نظرآئیں بھی کیسے ۔

۔۔۔؟ کیونکہ اس وقت جتنے بھی بڑے تعلیمی ادارے لوٹ مارکاگڑھ بنے ہوئے ہیں ان میں اکثر سیاستدانوں، منتخب ممبران، بلدیاتی ناظمین یا سیاسی پارٹیوں کے عہدیداروں کی ملکیت ہے۔ ایسے میں عمران خان اور پرویز خٹک کو یہ کرپشن کیسے نظر آئے گی۔ چور کو بھی بھلا کبھی چور نظر آیا ہے۔۔؟ ایک طرف حکمران ملک میں تعلیم عام کرنے کے دعوے کررہے ہیں جبکہ دوسری طرف انہی کی آشیربادسے غریب عوام پر تعلیم کے دروازے بند کئے جارہے ہیں ۔

اس وقت تعلیم کے نام پر ملک بھر میں جاری لوٹ مار ملک سے تعلیم کا جنازہ نکالنے کی بہت بڑی سازش ہے۔ آج کسی غریب کا بچہ کسی پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتاکیونکہ وہ غریب لوگ جو مہنگائی کے اس دور میں بڑی مشکل سے گزار ہ کررہے ہیں وہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بھاری فیس کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان نے پرائیویٹ تعلیمی سیکٹر کو سبزی منڈی بنا کر لوٹ مار کا خوب بازار گرم کررکھا ہے۔

جس طرح سبزی منڈی میں ہر سبزی کی الگ الگ قیمت ہوتی ہے۔ اسی طرح پرائیویٹ سکولوں میں بھی ہر ایک سکول وکالج کی الگ الگ فیس اورعلیحدہ علیحدہ ڈیمانڈز ہیں۔آج تعلیمی ادارے منافع بخش کاروبارکاروپ دھارچکے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آج مال ودولت کمانے کاشوق دل میں رکھنے والے ہرایک شخص کی یہ خواہش ہے کہ اس ملک کی کسی گلی ،محلے ،چوک اورچوراہے میں اس کابھی کوئی سکول اورکالج ہوتاکہ تعلیم کے فروغ میں اس کابھی کردارشامل ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :