غریب ہوناواقعی ناقابل معافی جرم۔۔۔۔؟

بدھ 6 اپریل 2016

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

چند دن پہلے آبائی ضلع بٹگرام میں نویں جماعت کاایک بدقسمت طالب علم سکول جاتے ہوئے اوورلوڈنگ کے باعث گاڑی کی چھت سے گر کرزندگی کی بازی ہارگیا،اس سے ایک دودن پہلے سچاں ڈیم مانسہرہ میں کام کرنے والاپنجول کارہائشی ایک غریب اٹھارہ سالہ نوجوان جنریٹر مشین میں چادرپھنسنے سے مشین کاچارہ بن کراس دنیا سے رخصت ہوا۔سوچتا ہوں کیااس دنیا میں غریب کوجینے کابھی کوئی حق نہیں۔

۔۔۔؟اس دنیا میں غریب کے بچے یاتوبھوک سے بلک بلک کرجان دے دیتے ہیں یا بجلی مشینوں کاچارہ بن کردنیاسے رخصت ہوجاتے ہیں یاپھر تیز رفتار گاڑیوں کانوالہ بن کرجان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں ۔روز ہی کسی نہ کسی غریب کاکوئی نہ کوئی بچہ دنیا کی بے کسی۔۔۔بے بسی اوربے حسی کاماتم کرتے ہوئے ہم سے جداہوتا ہے ۔

(جاری ہے)

لیکن نہ ہمارے حکمران ٹس سے مس ہوتے ہیں اورنہ ہی ہمارے جسم خدا خوفی سے ذرہ بھی لرزتے ہیں ۔

جب وقت کے حکمرانوں اورلوگوں کے دلوں سے خدا کاخوف نکل جائے توپھر وہاں غریبوں کااسی طرح استحصال ہوتا ہے جوآج اس ملک میں غریبوں کاہورہاہے ۔ اس ملک میں غریبوں کے نام پرمال بٹورنے والے لوگ توکوئی کم نہیں اورنہ ہی غریب بچوں کے نام پرڈالر،ریال اوردینارحاصل کرنے والوں کی یہاں کوئی قلت ہے لیکن اس کے باوجودملک بھرمیں غریبوں کے استحصال سمیت بچوں کے حقوق کی پامالی میں بھی روز بروز اضافہ ہورہاہے۔

باہر کی دنیا سے بچوں کے حقوق کیلئے ملنے والے ڈالر۔۔ریال۔۔دینار اوردرہم سے چائلڈ ڈے تواس ملک میں بھی خوب منایاجاتا ہے ،رنگین تقریبات کے ساتھ چراغاں بھی توہرجگہ کیاجاتا ہے مگر غریبوں کے بچوں کوگلے سے لگانے کیلئے کوئی تیار نہیں۔۔اس ملک میں مردہ انسانوں کی قدروقیمت توہے مگرزندوں کوکوئی نہیں پوچھتا۔۔غریب کاکوئی بچہ جب معاشرے کی بے حسی کی بھینٹ چڑھتا ہے توپھر مگر مچھ کے آنسو سب بہاتے ہیں لیکن اس کی روح نکلنے سے پہلے اس کی زندگی بچانے کیلئے بھاگ دوڑ کوئی نہیں کرتا۔

بٹگرام میں یہ غریب کاکوئی پہلابچہ نہیں ہوگاجوگاڑی تلے روندا گیا بلکہ اس سے پہلے بھی غریبوں کے کئی بچے اسی طرح چوکوں ،چوراہوں اورشاہراہوں پرروندے گئے ۔اسی طرح مانسہرہ میں بھی اس سے پہلے کئی غریب نوجوان محنت مزدوری کرتے یاتوبجلی مشینوں کاچارہ بنے یاپھر کان تلے دب کرجان دے گئے ۔غریبوں کے یہ بچے آخر کب تک معاشرے کی بے حسی اوربے بسی کاماتم کرتے رہیں گے ۔

۔۔۔؟کیاغریبوں کے بچوں کی قسمت میں ہی گاڑی تلے کچلنا۔۔مٹی کے تودے تلے دبنا یاپھر مشینوں کاچارہ بننا ہی لکھاگیا ہے۔۔۔؟قدرت نے مقدر میں جولکھا ہے اس کاتوہمیں کوئی انکار نہیں اورکوئی مسلمان قدرت کے لکھے ہوئے فیصلوں کوقبول کرنے سے انکار کیا ایساسوچ بھی نہیں سکتاکیونکہ قدرت کے فیصلوں کوسرخم تسلیم اوربخوشی قبول کرناہی مسلمان کی شان ہے ۔

اگراسلامی تعلیمات کابغورمطالعہ کیاجائے تو انسان کواپنی اوربچوں کی حفاظت کادرس ہی اسلامی تعلیمات اوراحکامات خداوندی سے ہی ملا،ایسے میں کوئی انسان اگر اپنے بچوں کوبجلی مشینوں یاسمندر میں پھینک کریہ کہے کہ قسمت اورمقدر میں ہی یہی لکھاتھا تویہ غلط ہے ۔اسی طرح اب اگرکوئی یہ کہے کہ بٹگرام کے اس طالب علم اورمانسہرہ کے نوجوان کی موت ہی اس طرح لکھی گئی تھی ان دونوں واقعات کوفراموش کرناچاہئے تویہ بھی کوئی انصاف نہیں ۔

کیونکہ اس طرح توپھرکوئی قاتل بھی یہ کہہ سکتاہے کہ مقتول کی موت میرے ہاتھوں سے لکھی گئی تھی ۔کیااس طرح پھرکسی قاتل کومعاف کیاجاسکتاہے ۔۔۔۔؟نہیں ،نہیں نہیں۔اس لئے جوبھی واقعہ جہاں کہیں رونما ہوتا ہے اس کے اسباب کاتعین کرنا ضروری ہوتاہے۔اس لئے بٹگرام اورمانسہرہ میں جودلخراش واقعات رونماہوئے ہیں ان دونوں کی شفاف تحقیقات کرکے اسباب کاتعین کیاجائے اورجولوگ بھی غفلت کے مرتکب قرارپاتے ہیں ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے ۔

یہ محض دوبچوں کی ہلاکت نہیں بلکہ بہت بڑے واقعات ہیں ۔ان دونوں واقعات کواگرمقدرکالکھاگردان کراس طرح نظرانداز کیاجائے توپھر غریب بچوں کاکل کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔۔غریب بچے توگھر کانظام چلانے کیلئے کوئی بھی کام کرنے سے انکار اوردریغ نہیں کرتے لیکن کیا اپنااُلو سیدھاکرنے کیلئے غریب اورمجبور بچوں کوموت کی وادی میں اس طرح دھکیلنا کوئی انسانیت ہے ۔

۔۔۔؟کم عمر اوران پڑھ غریب بچوں کوبجلی مشینوں میں جھونکنا ظلم نہیں تواورکیا ہے ۔۔۔۔؟اسی طرح اگرگاڑیوں میں جگہ نہیں توغریب بچوں کوگاڑیوں کی چھتوں پرچڑھانا اورسائیڈوں سے لٹکانا کونسااورکہاں کا انصاف ہے ۔۔۔۔؟کیا حکومت اورانتظامیہ کاضمیر مرچکا ۔۔۔۔۔؟کیاہمارے متعلقہ ضلعی افسران اورذمہ داران اس قدراندھے ہوچکے کہ ان کویہ ظلم بھی ظلم نظرنہیں آرہا۔

۔۔۔؟ہزارہ کے دیہی علاقے جہاں ٹرانسپورٹ کے مسائل گھمبیر اورگاڑیوں کی کمی ہے وہاں کے مفادپرست ٹرانسپورٹروں نے غریب بچوں کی زندگیاں داؤ پرلگادی ہیں۔جس گاڑی میں دس افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہے اس پر 20اور30افراد سوار کئے جاتے ہیں ۔۔وہ چھوٹے اوربڑوں کاخیال ہی نہیں رکھتے ۔۔جس کی وجہ سے آئے روزکوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ ضروررونما ہوتاہے ۔

اسی طرح سرکاری وپرائیویٹ ٹھیکیدار اورنجی فیکٹریوں اورکارخانوں کے مالکان پیسے بچانے کی خاطر غریب بچوں کوکم تنخواہوں پرنوکری دے کران سے پھر بجلی مشین چلانے کے ساتھ ہرطرح کاکام لیتے ہیں جن میں پھر اکثر بچے کرنٹ لگنے سے یاتوعمر بھر کیلئے معذور ہوجاتے ہیں یاپھر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔وفاقی وصوبائی حکومت اورمتعلقہ ضلعی افسران کواس سلسلے میں سخت نوٹس لیکرغریب بچوں کوموت کے منہ میں جانے سے بچانے کیلئے موثراورفوری اقدامات اٹھانے چاہیں ورنہ اس طرح کے حادثات اورواقعات میں آئندہ بھی غریب کے بچوں کاچارہ بننے کایہ سلسلہ جاری رہے گا۔

غریب ہوناواقعی اس ملک اورمعاشرے میں جرم ہے لیکن اتنابڑاجرم بھی نہیں کہ غریب بچوں کوکچل کچل کرماردیاجائے ،انسان غریب ہویاامیرانسان انسان ہی ہوتاہے ۔انسان کی عظمت توبہت بلندہے جس کااحاطہ کرنابھی مشکل ہے ۔اسی وجہ سے توایک انسان کے قتل کوپوری انسانیت کاقتل قراردیاگیاہے ۔بھوک وافلاس یااس طرح گلی ،محلوں اورشاہراہوں پرغریبوں کوروندنااورکچلنابھی انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے ۔حکمران اورضلعی افسران ایک بات یادرکھیں ایسے المناک حادثات اوردلخراش واقعات میں مرنے والے غریب بچوں کے بے گناہ بہنے والے خون کے ذمہ داریہ ہونگے جس کاجواب اورحساب ان کوہرحال میں دیناہی ہوگا۔اس دنیا میں ہویاآخرت میں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :