جلا وطنی یا عیاشی

جمعہ 15 اپریل 2016

Hussain Jan

حُسین جان

میٹنگ چل رہی تھی جنگل کے تمام باسی اکٹھے ہو چکے تھے، اتنے میں لیڈر نے کہا آخر یہ کب تک ہوتا رہے گا، ساتھ کے جنگل کا شیر ہمارے جنگل میں آکر شکار کرتا ہے اور پھر اُس شکار کو اپنی کچھار میں لے جاتا ہے جہاں وہ مزے مزے سے اُسے کھاتا ہے، اور جب پھر بھوکا ہوتا ہے تو ہمارئے جنگل کی طرف آنکلتا ہے، کیا وہ شکار اپنے جنگل میں نہیں کرسکتا۔

ایک فلاسفر نے جواب دیا کہ اُس کے جنگل میں قانون بہت سخت ہیں وہ وہاں شکار نہیں کرسکتا ، وہاں شکار کی اُس کو اجازت نہیں اگر اُس نے وہاں شکار کیا تو اُس جنگل کے قانون کے مطابق اُسے بہت کڑی سزا دی جائے گی، اتفاق سے اس میٹنگ میں شیر کا ایک چمچہ بھی موجود تھا جو جھٹ سے بولا کہ یہ تو فطرتی عمل ہے شیر کا کام تو شکار کرنا ہوتا ہے اس میں کون سی نئی بات ہے، لیڈر نے لوگوں کو کافی سمجھایا کہ کب تک اپنے بچوں کا شکار ہوتے دیکھتے رہو گے۔

(جاری ہے)

لیڈر کی بات پر بہت کم لوگ کان دھر رہے تھے جبکہ چمچہ کی بات کو لو گ زیادہ اہمیت دے رہے تھے۔ لہذا میٹنگ برخاست کر دی گئی اور تمام جانور اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے، کہ کوئی بات نہیں اتنا بڑا جنگل ہے اس میں سے کچھ جانور کم بھی ہو جائیں گے تو کیا فرق پڑئے گا۔
جلا وطنی کو لوگ کہتے ہیں ازیت کئی زندگی ہوتی ہے۔ بالکل ہوتی ہے لیکن ایسی جلا وطنی جو کسی ایسے ملک میں یا سرزمین پر کاٹی جائے جہاں زندگی کی ضروریات میسر نہ ہوں۔

کالے پانی سے لے کر افریقہ کے جنگلات تک کی اگر کوئی جلا وطنی کاٹے تو مانا بھی جائے کہ زندگی بہت مشکل سے گزاری ہے، لندن ، امریکہ اور یورپ کی جلاوطنی کی کیا حثیت ہے۔ ہمارئے ملک کا نظام بھی مندرجہ بالا جنگل جیسا ہے کہ لوگ حکومت تو یہاں کرتے ہیں مال تو اس ملک کے غیریب عوام کا کھاتے ہیں، لیکن عیاشی دوسرئے ممالک میں جاکر کرتے ہیں، یہ کیسی جلا وطنی ہے جو بڑئے بڑئے محلات میں کاٹی جاتی ہے، آگے پیچھے نوکروں کی لائن لگی ہوتی ہے، پر آتعائش زندگی گزاری جا رہی ہوتی ہے، لیکن نام اس کو جلا وطنی کا دے دیا جاتا ہے۔

پھر جب پیسے بنانا ہو تو پاکستان میں واپس آجاتے ہیں ، مال بنایا اور پھر اُڑ گئے۔
میاں نواز شریف، بے نظیر، آصف علی زرداری، شہباز شریف، مشرف ، الطاف حُسین اور ان جیسے بہت سے دوسرئے لوگ جو حکومت تو پاکستانی عوام پر کرتے ہیں لیکن دولت دوسرئے ممالک میں رکھتے ہیں، کیا آصف علی زرداری کالا پانی کی جلا وطنی کاٹ رہے ہیں، نہیں جناب وہ لندن میں ایسی زندگی گزار رہے ہیں جس کا پاکستان میں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔

میاں برادران جب جدہ اور لندن میں جلاوطنی کی دہائی دے رہے تھے، کیا وہ فت پاتھوں پر راتیں بسر کرتے تھے، کیا اُن کے لیے کھانا خیراتی ادارں سے آتا تھا۔ کیا بے نظیر جلا وطنی کی زندگی میں لوگوں کی رضایاں سی سی کر گزر بسر کر رہی تھی، کیا الطاف حُسین لوگوں کے گھروں میں کام کر کے گزارا کر رہے ہیں، کیا زرداری تارکین وطن کی طرح 20 20گھنٹے کام کر رہے ہیں، کیا مشرف کسی ریسٹورینٹ میں ڈش واشنگ کا کام کر رہے ہیں ، نہیں جناب یہ سب لوگ جب ملک سے باہر ہوتے ہیں تو نوابوں کی سی زندگی گزارتے ہیں ، جتنا مال یہاں سے بنایا ہوتا ہے وہا ں پر اس کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔


جلا وطنی کے نام پر یہ لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں ووٹ بٹورتے ہیں پھر ہمارئے سرؤں پر بیٹھ کر حکومت کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کی زندگیاں جس ملک میں بھی گزرئے عیش سے گزرتی ہیں۔ میاں صاحب علاج کروانے لندر چلے گئے ہیں، وہاں سے علان کر دیا جائے گا کہ وہ پاکستان کو بہت مس کر رہے ہیں ، اور بہت مشکل سے زندگی گزار رہے ہیں، درحقیقت وہ آعلیٰ ترین ہسپتال میں اپنا علاج کروائیں گے، جس کا خرچہ کروڑوں روپے ہوگا، میاں صاحب کہتے ہیں اُن کے پاس کچھ نہیں ہے تو کیا علاج کے پیسے کہاں سے آئیں گے، پاکستان سے لے کر دوسرئے ممالک تک ہمارئے حکمرانوں نے بڑئے بڑئے محل تعمیر کر رکھے ہیں، لمبی لبمی گاڑیوں میں گھومنے والے یہ لوگ جب عوام کے دکھوں کی بات کرتے ہیں تو مظائقہ خیز لگتے ہیں۔

اگر یہ لوگ اتنے ہی اچھے حکمران ہیں تو اپنے ملک میں ایسا ہسپتال کیوں نہیں بنا پائے جہاں ان کا علاج ہوسکتا۔ کبھی بھائی باہر تو کبھی بیٹا باہر تو کبھی اماں ابا باہر، ان لوگوں نے مذاق بنا رکھا ہے اس ملک کے لوگوں کو، ویسے بھی اس ملک کے لوگ جاہل ہیں جن کو اپنے حقوق کا علم نہیں چند خاندان مل کر لوٹ رہے ہیں اور غریب مر رہے ہیں۔
اور تو اور وزراء کے بیٹوں تک کی جائدادیں ملک سے باہر ہیں، ہمارے اسحاق ڈار سے لے کر چوہدری نثار تک ، یہاں تک کے گجرات کے چوہدریوں تک کی جائدایں بھی باہر ہیں، کیا ان سے حساب لینے والا ہے کوئی چند صحافی رات کے وقت جب میلہ لگاتے ہیں اپنی دُکان کا سود ا بیچتے ہیں اور اگلے دن تک آرام کی بانسری بجاکر سو جاتے ہیں، اس ملک کو آج تک حقیقی معنوں میں کوئی لیڈر نہیں ملا۔

قائد کے جانے کے بعد کچھ سیاستدان بہتر تھے لیکن اُن کی اُولادیں اس ملک کو بیچ کر کھا رہی ہیں۔ ہمیں ایسے جلا وطن لیڈروں کی کوئی ضرورت نہیں ان لوگوں نے اتنا مال بنا لیا ہے کہ ان کی باقی کی زندگی آرام سے کسی بھی ملک میں اچھے سے گزر جائے گی لہذا ان کو چاہیے کہ اس ملک کے عوام کی جان چھوڑیں اور کسی دوسرئے ملک میں بسیرا کر یں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :