پاناما ہنگامہ

اتوار 17 اپریل 2016

Rauf Uppal

رؤ ف اُپل

پاناما ہنگامہ جاری ہے پاناما پیپرز کے نام سے خفیہ معلومات پاناما کی ایک لاء فرم موزاک فونسیکا کے ڈیٹا بیس سے خفیہ طور پر حاصل کی گئی ہیں ۔ ۔ پاناما پیپرز کے فرسٹ فیز میں جن پاکستانیو ں کے نام شامل ہیں ان میں سیاست دان ، بزنس مین ، ججز اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں ۔ ۔ یہاں ان چند مشہور شہرت رکھنے والے لوگوں کے نام پیش کئے جارہے ہیں
وزیرِآعظم میاں محمد نواز شریف کے خاندان کی۔

۔ ۔ ۔ 9 کمپنیاں
حسین نواز
حسن نواز
مریم نواز
وزیرِ اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کے خاندان کی۔ ۔ ۔ ۔ 7 کمپنیاں
ثمینہ درانی
ٰ الیاس میراج
سابقہ وزیرِ آعظم بے نظیر بھٹو کے خاندان میں سے حسن علی جعفری کے نام۔ ۔ ۔ ۔ 1کمپنی
سابقہ صدر آصف علی زرداری کے قریبی دوست جاوید پاشا کے نام ۔

(جاری ہے)

۔ ۔ ۔ 4 کمپنیاں
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینٹر رحمان ملک کے نام ۔

۔ ۔ ۔1 کمپنی
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینٹرعثمان سیف اللہ کے خاندان کی ۔ ۔ ۔ ۔34 کمپنیاں
انور سیف اللہ
سلیم سیف اللہ
ہمایوں سیف اللہ
اقبال سیف اللہ
جاوید سیف اللہ
جہانگیر سیف اللہ
چوہدری شجاعت گجر ات کے خاندان سے وسیم گلزار کے نام ۔۔۔۔1 کمپنی
سابقہ وزیرِ آعظم یو سف رضا گیلانی کے بیٹے کے ساتھی زین سکھیرا کے نام ۔

۔ ۔۔1 کمپنی
لاہورہائی کورٹ کے موجودہ جسٹس فرخ عرفان
رٹائر جج ملک قیوم
میر شکیل الرحمان آف جنگ گروپ
بحریہ ٹاؤن ۔ملک ریاض کے بیٹے احمد علی ریاض کے نام ۔۔۔۔1 کمپنی
پیزا ہت کے مالک عقیل حسین اینڈ فیملی ۔ ۔ ۔۔1 کمپنی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وغیرہ
ان دستاویزات کی وجہ سے پاکستان سمیت ان ممالک جہاں کے لوگوں کے نام ان پیپرز میں شامل ہیں بڑے پیمانے پر کاروائیاں شروع ہوچکی ہیں۔

۔ یوکرائن اور آئس لینڈ کے وزر ائے آعظم اخلاقی جرا ت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا اپنا استعفی پیش کر چکے ہیں ۔ ۔ برطانوی وزیرِآعظم کو بھی سخت مخالفت و مزاحمت کا سامنا ہے، ان ممالک اور دیگر ممالک جن میں انڈیا بھی شامل ہے کے شہریوں اور سیاست دانوں کے نام پاناما پیپرز میں شامل ہیں، ان ممالک میں ا سپیشل کمیشنز بنا دئیے گئے ہیں جو آزادانہ طور پر تحقیقات کررہے ہیں۔

۔ جبکہ پاکستان میں جہاں وزیرِآعظم کی فیملی کے نام ان دستاوزات میں شامل ہیں ہمارے وزیرِ آعظم میاں محمد نواز شریف صاحب ٹی وی خطاب میں اپنی اور اپنے خاندان کی صفائی پیش کرنے کی کوشش کے بعد بیمار دل لے کر لندن پہنچ چکے ہیں ۔ ۔ دنیا کے تمام ممالک میں اسپیشل کمیشنز بنا دئیے گئے ہیں جو آزادانہ طور پر تحقیقات کررہے ہیں مگر پاکستان میں جہاں وزیرِآعظم کے بیٹوں سمیت 220 افراز کے نام ان کمپنیوں میں شامل ہیں میاں صاحب کے درباری مخالفین پر جوابی حملوں میں مصروف عمل ہیں۔

۔ گالی گلوچ ، بلیک میلنگ اور غیر اخلاقی حملے کرکے مخالفین کو خاموش کروانے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یہاں مسئلہ صرف آف شور (Tax Evasion) کمپنیوں کا ہی نہیں بلکہ اہم سوال یہ ہے کہ یہ پیسہ کہا ں سے آیا ، کب کب اور کیسے ٹرانسفرہوا۔ ۔ ۔ ۔دوسری طرف تمام حکومت مخالف جماعتیں احتجاج کرنے کے لئے لائحہ عمل طے کرنے سے پہلے حالات کا جائزہ لے رہی ہیں، تحقیقات کے حوالے سے زیادہ مطالبہ وزیرِآعظم کے بیٹوں کی کمپنیوں کو بنایا ہوا ہے ۔

۔ان احتجاجیوں میں پاکستان تحریک انصاف سب سے آگے دکھائی دیتی ہے۔۔ پاکستان پیپلز پارٹی بظاہر لگ رہاہے حکومت کے خلاف ہے مگر وہ تحقیقات ایک مخصوص حد تک چاہتی ہے ، کیونکہ سابقہ وزیرِآعظم بے نظیر بھٹو، رحمان ملک اور دیگر رہنماؤں کے نام اس دستاویز میں شامل ہیں لہذا پاکستان پیپلز پارٹی صرف اس پہ سیاست ہی کر رہی ہے۔ ۔ جماعت اسلامی بھی اپنے مخصوص انداز میں ایک پریشر گروپ کا رول ادا کر رہی ہے ، ہوسکتاہے وہ واحد پارٹی ہوجو اس احتجاج میں تحریکِ انصاف لے ساتھ بڑے پیمانے پر احتجاج میں شریک ہو، یہ ان کے لئے ایک اچھا موقع ہے اپنی پارٹی کو پریشر گروپ کی بجائے ایک بڑی پارٹی ثابت کرنے کا۔

۔ ایم کیو ایم ان حالات میں کوئی احتجاج کرنے کی بجائے اپنی پارٹی کو بچانے کی کوششیں کررہی ہے ۔۔مولانا فضل الرحمان ہمیشہ کی طرح مال بنانے کے لئے چل پڑے ہیں جبکہ اکیلی پاکستان تحریک انصاف وہ پارٹی ہے جو چاہتی ہے کہ وسائل اور حقیقت کا پتا چلے تا کہ پاکستانی سیاست کو بہتر راستوں پہ ڈالا جا سکے، جو سیاہ راستوں پر منزل سے کوسوں دور ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :