پی ٹی آئی کا عجب انصاف

ہفتہ 23 اپریل 2016

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

کچھ دن پہلے ایک صاحب ملنے آئے، باتوں باتوں میں جب حکمرانوں اور سیاستدانوں کا ذکر خیر آیا تو کہنے لگے جوزوی صاحب برا نہ مانیں تو ایک بات پوچھوں۔۔ ؟ میں نے کہا جی ایک نہیں سو بار پوچھیں، فرمانے لگے، یہ عمران خان اور تحریک انصاف نے آپ کا کیا بگاڑا ہے۔۔؟ کہ آپ ہاتھ دھو کر ان کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔۔ ؟ آپ تو اچھے بھلے شریف ،تعلیم یافتہ اور باشعور نظر آتے ہیں ۔

پھر روایتی سیاستدانوں اور جاہل لوگوں کی تقلید کرکے آپ پی ٹی آئی تبدیلی کی مخالفت کیوں کررہے ہیں۔۔؟ اے این پی، مسلم لیگ ن، جے یو آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے کئی بار حکومتیں کرکے لوٹ مار کے سوا کچھ نہیں کیا۔۔؟ ان جماعتوں اور ان کے لیڈروں نے عوام کو مہنگائی، غربت اور بیروزگاری دینے کے ساتھ کرپشن و کمیشن کے نئے نئے طریقے ایجاد کرکے ملک اور اس صوبے کو ترقی سے اتنا دور کیا کہ تحریک انصاف جیسی پاک و صاف حکومت اور عمران خان و پرویز خٹک جیسے ایماندار لوگوں کو بھی ترقی کی اس منزل تک پہنچنے کیلئے آج سال نہیں ایک طویل عرصہ درکار ہے۔

(جاری ہے)

آپ کو نہیں معلوم کہ کرپشن و کمیشن اور لوٹ مار کے ذریعے ملک کی جڑیں کس قدر کھوکھلی اور عوام کس طرح مسائل تلے دب جاتے ہیں۔ جوزوی صاحب جب حقدار کو اس کا حق اور انصاف نہیں ملتا تو پھر ظلم جنم لیتا ہے اور جہاں ظلم کا بازار گرم ہو وہاں پھر ترقی کی فصل نہیں اگتی۔ نام نہاد قومی دانشوروں، سیاستدانوں اور دو وقت کی روٹی پانے کیلئے ضمیروں کا سودا کرنے والے لوگوں کی سپورٹ سے اس صوبے اور ملک میں مفاد پرست حکمرانوں اور ان کے آلہ کاروں نے ظلم و ناانصافی کی جو فصل بوئی ہے اب اس کو ختم کرنا تو دور کاٹنا بھی آسان نہیں۔

اے این پی اور پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ حکومت کا موازانہ تحریک انصاف کی حکومت سے کریں تو آپ کو پتہ چلے کہ عمران خان کی حکومت نے ڈھائی سالوں میں وہ کچھ کیا جو سابق حکمران پچاس سالوں میں بھی نہ کر سکے۔ میں نے کہا آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ جب حق دار کو اس کا حق اور انصاف نہیں ملتا تو پھر ظلم کا دور دورہ ہوتا ہے اور جہاں ظلم عام ہو جائے وہاں پھر ترقی اور خوشحالی کا بسیرا کبھی نہیں ہوتا لیکن معذرت کے ساتھ آپ کی پی ٹی آئی حکومت نے ڈھائی سالوں میں انصاف کا جو قتل عام کیا وہ سابق حکمران 50 سالوں میں بھی نہ کر سکے۔

انصاف عام، احتساب سرعام اور میرٹ کی بالادستی کا نعرہ اے این پی، پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور مسلم لیگ ن نے نہیں لگایا اور دنیا کا قانون ہے کہ جو شخص کسی چیز کا وعدہ اور دعویٰ نہ کرے تو پھر اس کے بارے میں ان سے پوچھ بھی نہیں ہوتی۔ لیکن جو لوگ صبح وشام انصاف عام اور احتساب سرعام کا نعرہ لگائیں، جلسے جلوسوں میں اٹھتے بیٹھتے اس کا وعدہ اور دعویٰ کریں پھر جب وہ خود اسی انصاف اور احتساب کا گلہ اپنے ہاتھوں سے گھونٹتے ہیں تو پھر میرے جیسے شریفوں، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور لوگوں کو بھی جاہل اور گستاخ بننا پڑتا ہے۔

ایک شخص جب سینہ تان کر کہتا ہے کہ فلاں کام میں کروں گا۔ پھر جب وہ کام وہ نہیں کرتا تو پھر نہ صرف اپنے بلکہ بیگانے بھی سینہ تان کر اس سے پوچھتے ہیں کہ بتا جس کام کو کرنے کے تم بلندوبانگ دعوے اور وعدے کرتے تھے وہ کیوں نہیں کیا۔۔؟ آج اگر کوئی سینہ تان کر عمران خان اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومت سے تبدیلی، انصاف عام ،احتساب سرعام اور میرٹ کی بالادستی بارے استفسار کررہا ہے تو اس میں اس کا کوئی قصور اور گناہ نہیں۔

جو شخص جو کام نہیں کرسکتااس کواس کے کرنے کادعویٰ ہی نہیں کرناچاہئے۔انصاف عام کرنے کااعلان میں یامیرے جیسے کسی ان پڑھ اورجاہل نے نہیں بلکہ عمران خان اور پرویز خٹک نے کیا تھا۔ کوئی بتائے تو سہی عمران خان اور پرویز خٹک نے خیبرپختونخوامیں انصاف کتنا عام کیا ۔۔؟ امیر کو غریب اور ظالم کو مظلوم پر ترجیح دینا کہاں کا انصاف ہے ۔۔؟ لاٹھی کھانے کے وقت غریبوں کا پہلا نمبر ہو اور مراعات و ثمرات دینے والوں میں پھر غریبوں کا نام و نشان نہ ہو کیا یہ ظلم اور بے انصافی نہیں ۔

۔؟ عمران خان کی صوبائی حکومت کی انصاف پسندی کا اندازہ آپ اس سے لگائیں کہ ممبران اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں تو کئی گنا اضافہ کیا گیا لیکن وہ غریب لوگ جو گلی اور محلوں کی سطح پر تبدیلی لانے کیلئے بلدیاتی میدانوں میں آئے، تنخواہوں اور مراعات کی لسٹ میں ان کا کوئی نام ہی نہیں۔ کیا بلدیاتی نظام صرف ناظمین پر قائم ہے۔۔؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر بلدیاتی ممبران کو ذلیل و رسوا کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔

۔؟ اسی طرح صوبائی حکومت نے تبدیلی کے نام پر نت نئے قوانین کا اطلاق تو سب سرکاری ملازمین پر کیا لیکن جب مراعات و ثمرات کا وقت آیا تو پھر یہاں بھی پی ٹی آئی کا عجب انصاف پیچھے نہ رہ سکا اور صوبائی حکومت نے وہی بے انصافوں اور ظالموں والی روش اپناتے ہوئے غریب سرکاری ملازمین کو دیوار سے لگا دیا۔ ڈاکٹروں کی تنخواہوں اور مراعات میں تو سو فیصد اضافہ کیا گیا اسی طرح پیرا میڈیکس کیلئے بھی سپیشل الاؤنس کی منظوری دیکر باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا لیکن وہ غریب سرکاری ملازمین جوموت کے منہ میں ہاتھ ڈال کر فرائض سرانجام دیتے ہیں ۔

۔جن کو مہنگائی کے بوجھ کے ساتھ سرکاری کاموں کے بوجھ اٹھانے سے بھی ایک لمحے کیلئے فرصت نہیں ۔حکومت نے ان کو مراعات و ثمرات میں مکمل طور پر نظرانداز کیا۔ کلاس فور سمیت دیگر غریب سرکاری ملازمین کیا سرکار کے ملازم نہیں ۔۔؟ کیا ان کی کوئی قدروقیمت اوراہمیت نہیں ۔۔؟ کیا حکومتی مراعات اور تنخواہوں میں اضافے پر غریبوں کا کوئی حق نہیں ۔

۔ ؟ سرکاری محکمے اور ادارے تو چلتے ہی کلاس فور اور غریب سرکاری ملازمین کے کندھوں پر ہیں۔ ان محکموں اور اداروں کے بوجھ یہی غریب ملازمین اپنے کندھوں پر اٹھاتے ہیں۔ ان کو اگر ان اداروں اور محکموں سے ایک لمحے کیلئے بھی الگ کیا جائے تو حکومتی نظام جام ہو کر رہ جائے۔ پھر ڈاکٹروں، پیرامیڈیکس اور دیگر افسروں کو مراعات دے کر ان غریبوں کو نظرانداز کرنا ظلم و بے انصافی نہیں تو اور کیا ہے ۔

۔؟ مانا اے این پی، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نے اپنے دور حکومت میں لوٹ مار اور کرپشن کو فروغ دیا ہوگا لیکن انہوں نے غریبوں کی اس طرح حق تلفی کبھی نہیں کی ہوگی۔ سرکار کی لاٹھی جس طرح سب کیلئے ایک ہوتی ہے اسی طرح سرکار کی مراعات بھی سب کیلئے ایک ہونی چاہئیں۔ پی ٹی آئی اور عمران خان کے نام لیواؤں کو دوسروں پر سنگ باری کرنے سے پہلے اپنے نئے نویلے حکمرانوں کی اداؤں پر بھی غور کرنا چاہیے۔ اتنا تو ان کو بھی پتہ ہے کہ جب انصاف کو لپیٹ دیا جاتا ہے تو پھر ظلم جنم لیتا ہے اور جہاں ظلم و بے انصافی کا راج ہو وہاں پھر تبدیلی نہیں تباہی آتی ہے۔ اللہ ہمیں تباہی کی طرف بڑھنے والی اس تبدیلی سے بچائے۔ آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :