کمیشن در کمیشن

پیر 25 اپریل 2016

Danish Hussain

دانش حسین

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جب کبھی بھی سیاسی بھونچال آیا تو اس کا حل کمیش بنا کر نکالنے کی کوشش کی گئی، کبھی کمیشن پر کمیشن بنایا جاتا ہے تو کبھی کمیشن پر کمیشن کھایا جاتا ہے۔ کسی نے جیب کے لئے کمیشن بنایا تو کسی نے جیب بچانے کے لئے کمیشن بنایا۔ جہاں تک موجودہ دور حکومت کی بات ہے تو اس میں بھی بڑے بڑے کمیشن بنائے گئے جن میں سانحہ ماڈل ٹائون کا کمیشن اور اب پانامہ لیکس پر بنایا جانے والا کمیشن زبان زد عام ہے۔

دور حاضر میں انکوائری کمیشن کی حیثیت ایک اخبار کی سی لگتی ہے کہ نیا اخبارآنے سے پرانے کی قدر ختم ہو جاتی ہے اور سانحہ ماڈل ٹائون پر بنایا جانے والا کمیشن بھی اب پرانے اخبار کی مانند ہے جو اپنی حیثیت کھو چکا ہے۔ اب پانامہ لیکس پر بننے والے کمیشن کی بات کریں جو کہ اپوزیشن کے دبائو کی وجہ سے بن تو گیا لیکن دودھ میں مینگنیاں ڈال کر۔

(جاری ہے)

۔

۔
اپوزیشن کی طرف سے دباؤ میں مزید اضافہ چند ممالک کے وزراء کے پانامہ پیپرز میں نام آنے کے بعد استعفیٰ دینے سے ہوگیا۔ اور وفاقی حکومت اتنی بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی کہ وزیراعظم کو ایک ہی مہینے میں قوم سے تین خطاب کرنے پڑے۔ یہاں تک کے عمران خان نے بھی قوم سے غائیبانہ خطاب کر ڈالا۔ غائیبانہ کی وجہ سرکاری ٹی وی کی پالیسی تھی۔ جس میں سرکاری ٹی وی کا کوئی قصور نہیں۔

کیونکہ سرکاری ٹی وی بھی ایسے ہی بےبس ہے، جیسے پنجاب پولیس چھوٹو گینگ کے خلاف بےبس تھی۔
پانامہ کے معاملے پر حکومت اتنی مطمئن ہے کہ کچھ ہی دنوں میں حکمران جماعت بھی عوام کے درمیان ہوگی۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ پہلے خیبرپختونخواہ اور پھر سندھ میں وزیراعظم صاحب عوام کو یہ یاد دہانی کروائیں گے کہ ابھی 2 سال باقی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کا اتوار بازار بھی کل خوب سجا۔

یہ محض اتفاق ہے یا پھر وزارتوں کی ایڈوانس بکنگ۔۔۔ کہ ایک ہی دن ملک کے تینوں بڑے شہروں میں سیاسی میدان سجا ہے۔ اور ساتھ ہی اپوزیشن جماعتوں کو پانامہ پر بنائے جانےوالے کمیشن پر تحفظات بھی ہیں۔جو کہ مستقبل میں شاید بن ہی جائے ۔ کیونکہ خط ایسے وقت پر لکھا گیا جب چیف جسٹس، جسٹس انور ظہیر جمالی 7 روزہ دورے پر ترکی جا رہے تھے۔ اور قائم مقام چیف جسٹس، جسٹس ثاقب نثار نے بھی یہی کہا کہ چیف جسٹس صاحب ہی وطن واپس آنے پر کمیشن تشکیل دیں گے۔


اپوزیشن کے پرزور اصرارپر کمیشن تو چیف جسٹس کی سربراہی میں بنانے کی آمادگی ظاہر کر دی گئی۔ لیکن ٹی-او-آر یعنی ٹرم آف ریفرینسز ایسے ہیں کہ جیسے دودھ میں مینگنیاں ڈال کر دے دی گئی ہوں۔ اور اپوزیشن کے موقع پانےوالے خواب چکناچور ہو گئے۔پانامہ کیس کا موقع تو ویسے بھی اپوزیشن کے لیئے ایسے ہی ہے جیسے کسی کی لاٹری نکلی ہو۔لیکن لاٹری والا سامان دیرپا نہیں ہوتا، ٹھیک اسی طرح تحقیقاتی کمیشن کے ٹیٓ-او-آرز کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کمیشن بھی تعطل کے شکار کےساتھ ساتھ دیرپا اور سودمند ثابت ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

کیونکہ یہ کمیشن محض پانامہ میں وزیراعظم کا نام آنے کی تحقیقات کےلیئے نہیں بلکہ اب تک ملک میں ہونے والی تمام میگا کرپشن کی تحقیقات کےلیے بنایا جائے گا۔اوروزیر اعظم کسی بھی وقت اس کمیشن کو کام سے روکنے کے مجاز ہونگے۔ یعنی اس بات کا فیصلہ وزیراعظم خود کریں گے کہ وہ کرپٹ ہیں کہ نہیں۔ اور اس کی نوبت تو تب آئے گی جب کمیشن میں پانامہ کی باری آئے گی۔

کیونکہ تمام میگاکرپشن کیس کی کمیشن رپورٹ میں خاصا وقت درکار ہوگا۔اور 2 سال بعد دوبارہ الیکشن ہوں گے۔تب تک تو سب بھول چکے ہوں گے کہ پانامہ کے نام سے بھی کوئی چیز تھی۔اور اپوزیشن بھی اپنی باری کے لیئے زور لگانے میں مصروف ہوگی۔2برس بیتنے کا تو پتا ہی نہیں چلتا۔ان ٹی-او-آرز کے ساتھ تو کمیشن رپورٹ کا 20 سال میں آنا ہی محال ہے۔سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ سلمان اکرم راجہ کے مطابق تو اس کمیشن کی تحقیقات 50 سال بھی مکمل نہیں ہونگی،کیونکہ اس میں اب تک کی ہونے والی ساری کرپشن کی تحقیقات شامل ہیں۔ اب تو بس اس بات کا انتظار ہے کہ اپوزیشن کب اس قسم کے طویل کمیشن پر، کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :