یہ خاک باز ہیں،رکھتے ہیں خاک میں پیوند

جمعرات 5 مئی 2016

Azhar Thiraj

اظہر تھراج

بچپن میں اماں ہم سب بھائیوں کو تیار کرکے ،ابا جیب خرچ دے کر سکول بھیجتے،ہم تھے کہ سکول جانے کے بجائے راستے میں ادھر ادھر کھیل کود کے واپس گھر آجاتے،یہ سلسلہ ایک عرصے تک چلتا رہا ،ایک دن گھر والوں کو پتا چل گیا اور ہماری خوب چھتر پریڈ ہوئی،ہم میں سے کچھ تو سدھر گئے اور بقیہ سکول ہی چھوڑ گئے،آج کل ہماری ملکی سیاست کا حال بھی ہمارے بچپن کے دنوں کی طرح ہوا ،ہواہے،ہم ہر الیکشن میں ان کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں کے یہ ہمارے لیے،ملک کی بہتری کیلئے کچھ فیصلے کریں گے،آگے بڑھنے کیلئے ہماری رہنمائی کرینگے لیکن یہ واپس بھاگ کر ہمارے پاس آجاتے ہیں،سڑکوں،چوکوں اورچوراہوں پر گھسے پٹے وعدوں،دعوؤں سے ہمارے دل بہلانے کی کوشش کرتے ہیں،نت نئے لولی پاپ دیتے اور دن میں خواب دکھاتے ہیں۔

(جاری ہے)


پانامہ لیکس نے شاہی خاندان،سیاستدانوں،سرمایہ داروں کی آف شورکمپنیوں کا پردہ کیا چاک کیا ہے کہ ملک میں ہنگامہ برپا ہے،حکومت اور اپوزیشن دونوں معاملات کو سلجھانے کے بجائے الجھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں،دونوں معاملے کو پارلیمان کے بجائے سڑکوں پر تماشہ لگائے ہوئے ہیں،ایک دوسرے کو مختلف القابات سے نوازا جاتا ہے تو گھروں میں جانے تک کی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں۔

وزیر اعظم نے اپنے آپ اور خاندان کو احتساب کیلئے پیش کیا ہے،وزیراعظم کہتے ہیں کہ میرے سمیت سب کا احتساب ہونا چاہیے جبکہ اپوزیشن کہتی ہے پہلے وزیراعظم اور ان کے خاندان کا احتساب ہوگا اس کے بعد دوسروں کے بارے سوچا جائے گا،اب تو متحدہ اجلاس کرکے تقریباًمتفقہ چارٹر آف ڈیمانڈ بھی پیش کردیا ہے،جوڈیشل کمیشن کیلئے بنائے گئے حکومتی ٹی آر اوز کومسترد کرتے ہوئے اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ہم سے مشاورت کرکے ٹی آراوز بنائے جائیں،جن جن کا نام بھی پانامہ لیکس میں آیا سب کا احتساب ہونا چاہیے لیکن پہلے وزیر اعظم اور ان کا خاندان۔

جوڈیشل کمیشن صدارتی فرمان کے ذریعے بنایا جائے اور پارلیمان اس کو تحفظ دے۔یہاں یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ وزیراعظم کے استعفیٰ بارے حزب اختلاف میں ہی اختلاف پایا جاتا ہے سوائے تحریک انصاف کے کوئی بھی وزیراعظم سے استعفیٰ لینے کے حق میں نہیں۔آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟
ماضی کی فائلوں سے گرد اٹھائی جائے تو اس کمیشن اور پانامہ پیپرز پر شور محض سیاسی سٹنٹ نظر آتا ہے،پاکستان کی اڑسٹھ سالہ تاریخ میں جب بھی کرپشن،کمیشن کیخلاف شور مچا ،چند دن ہلچل پیدا کرنے کے بعد خود ختم ہوگیا یا بوٹوں کی چاپ تلے دب گیا،ہر دفعہ عوام کی بات کی گئی،عوام کی پائی پائی وصول کرنے کی پلاننگ کی گئی،علی بابا اور چالیس چوروں کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا نعرہ بلند کیا گیا،کہاں گئے علی بابا اور چالیس چور؟حقیقت یہ ہے کہ ہماری سیاست کا دستور بن چکا ہے کہ اقتدار میں ہو تو کھاؤ پیو موج اڑاؤ،اپوزیشن میں ہو تو شور مچاتے رہو،یہاں عمران خان کو وزیراعظم بننے کی جلدی ہے،بلاول کو اپنی باری آرام نہیں لینے دیتی،احتجاج ،احتجاج جماعت اسلامی کی رگ رگ میں شامل ہوچکا ہے،رہی باقی اپوزیشن تو
وہ ہمیشہ تماشائی رہی ہے کبھی آمروں کے پیچھے تالیاں پیٹتی تو کبھی دیگر حکومتی خیموں میں پناہ لیتی نظر آئی ہے،حکومت ہویا اپوزیشن دونوں کی صفوں میں لوٹ مار کرنیوالے موجود ہیں یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ معاملات صحیح سمت جائیں،دونوں ”رولا،شولا پائی رکھو“کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں،دونوں عوام سے مخلص ہوتے تو اب تک آئس لینڈ،برطانیہ،نیوزی لینڈ،آسٹریلیا اور بھارت کے سیاستدانوں کی طرح معاملہ سلجھا چکے ہوتے،افسوس کہ دونوں یہ نہیں چاہتے،دونوں عوام کی توجہ اصل ایشوز سے ہٹا کر اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں،عوام نے ان کو فیصلے کرنے کیلئے اسمبلیوں میں بھیجا ہے یہ کھیل کود کے واپس آنا چاہتے ہیں،عوام کو بھی اماں اور ابے جیسا کوئی کام کرنا چاہیے تاکہ یہ بھی اپنا کام ٹھیک سے کرسکیں،آدھی چھٹی کے بجائے پورا وقت اسمبلیوں کو دے سکیں۔

افسوس کہ ہماری سیاست محض اس شعر کی مانند ہے
امید کیا ہے سیاست کے پیشواؤں سے
یہ خاک باز ہیں،رکھتے ہیں خاک میں پیوند

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :