قتل عام

جمعہ 13 مئی 2016

Abdur Rehman

عبدالرحمن

فطرت کے حسین نظارے ہمیشہ سے انسان کی کمزوری ثابت ہوئے ہیں،،،فطری حسن انسانی جذبات،،احساسات،خیالات کو جلاء بخشنے اور فرحت کا احساس دلانے کا موثر ذریعہ ہیں۔رنگ برنگے پھول،،ننھے منے پودے،،پھل اور پھولدار درخت فطری حسن کا لازمی جز اور جاندار حقیقت ہیں۔بلاشبہ زمین کے پیٹ پر موجودصحراوں،پہاڑوں،،بنجر،ریتلے اورزرخیز میدانوں کے علاوہ زیر سمندر اور دریا وں کے کنارے اگنے والے درختوں ،،ننھے منے پودوں نے فطرت کا توازن برقرار رکھنے میں اپنا اہم کردا ر ادا کیا ہے۔

کائنات کے وجود سے آج تک فطر ت تو اپنے اصولوں پہ قائم ہے مگر زمین پر بسنے والے انسانوں نے کہیں جدت پسندی کہیں ذاتی مفاد ات اور کہیں اپنی ضروریات کے لئے فطری حسن اور فطری اصولوں کو پامال کرنے میں لمحہ کی بھی تاخیر نہیں کی۔

(جاری ہے)

جنگلوں اور غاروں کے مکیں حضرت انسان نے اپنی ضروریات ،،مفادات اور اقتدار کی ہوس میں سب سے پہلے انہی خوبصورت جنگلوں کو برباد کرنا شروع کیا جس کا وہ باسی تھا۔

رفتہ رفتہ یوں ہوا کہ زمین پر انسانوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی ،،جنگل سکڑنے لگے اور گھر کے اپنے مکینوں کے ہاتھوں خوبصورت گلشن میں موجوددرختوں کی اپنی زندگیاں اور بقاء داو پر لگ گئی۔کاٹے جانے والے درختوں کی لکڑی گھروں اور کرسی اقتدار کی زینت بنی توباغ اور باغیچے بلندو بالا عمارتوں کے جنگل میں بدل گئے ۔جھکی ٹہنیوں پہ پھل دینے والے درختوں کی جگہ بلند و بالا عمارتوں نے لی تو انسانی عاجزی و انکساری بھی غرور و تکبر میں بدل گئی پھر انسانوں نے اپنی حرص و لالچ میں مبتلا ہو کر کسی لحاظ کے بغیر درختوں اور پودوں کا سرعام قتل عام کرنا اپنا شیوہ بنا لیا۔

ماں کی ممتا،باپ کی شفقت اپنے بچوں پہ نچھاور کرنے والے انسانوں نے درختوں کے قتل عام سے قبل یہ سوچنا بھی گوارا نہ کیا کہ ننھے منے جاندار پودے بچوں کی طرح ہی نرم و نازک ہوتے ہیں،،،بالکل ایک جاندار کی طرح انہیں بھی بچپن سے بڑھاپے تک پہنچنے کے لئے سالہا سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے ۔ کڑکتی دھوپ اور موسمی حدت میں ماں کی آغوش کی طرح انسانوں کو اپنے سائے میں لینے ،،پھلوں کی صورت میں ان کی خوراک کا انتظام کرنے،،،کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب اور آکسین کے اخراج کی صورت میں انہیں سانسیں فراہم کرنے ،،،لکڑی کی صورت میں انہیں ایندھن اور تزئین و آرائش فراہم کرنے،،پھولوں،،پتوں،، کی صورت میں ادویات فراہم کرنے والے درخت خودانسانیت کے شکار ہو گئے ۔

انسانی بے حسی کے شکار تناور درخت کٹ کر زمین پہ کیا گرئے کہ فطرت کا توازن بگڑنے لگا ،،درختوں کی قربانی کے پہلے شکار وہ پرندے ہوئے جن کی چہچہاہٹ سے جنگلوں میں جل ترنگ بجتے تھے،،باغو ں و باغیچوں میں کوئل کی کوک گونجتی تھی،،،مور ناچ کر خوشی سے نہال ہوا کرتے تھے،،،فاختائیں امن کی سفیر کے فرائض سرانجام دیتی تھیں۔درختوں کی ٹہنیوں میں موجود ان پرندوں کے گھونسلوں کے گرد پتوں پہ گرنے والے شبنمی قطروں سے منعکس ہونے والی ست رنگی روشنی قوس و قزاح کے رنگ بکھیرا کرتی تھی۔

ایک طرف عمارتی جنگل کی تعمیر کے لئے انسانوں نے درختوں کا قتل عام کیا تو دوسری طرف بے چارے معصوم پرندوں کو ان کے گھونسلوں سے بے دخل کر کے انہیں دربدر کر دیا،،،پھر یوں ہوا کی فطرت ہم سے روٹھ گئی ،،،کٹ کر گرئے درختوں کی ٹہنیاں انسانی پیٹھ پر تازیانہ بن کر برسنے لگیں ،،، فطری حسن بکھر کر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی نذر ہونا شروع ہو گیا،،،، موسم بھی اپنے نہ رہے ،،،،زمین کا درجہ حرارت بڑھنے لگا ،،،اوزون کی تہہ میں سوراخ ہونے لگا تو گلئیشئیرز پگھلنا شروع ہو گئے،،،سیلابوں،،آندھیوں،،جھکڑوں،،،پانی ،، خوراک ،،آکسیجن کی کمی،،،طرح طرح کی بیماریاں انسانی مقدر ٹھہرئیں اور فطرت کا انتقام شروع ہو گیا۔

تاریخ کا درس تو یہی ہے کہ فطرت جب بھی انتقام لیتی ہے تو اسے منطقی انجام تک پہنچا کے ہی دم لیتی ہے ۔فطرت کے اسی انتقام کا نتیجہ ہے کہ امریکہ کے کسی شہر میں بھی ماچس کی ایک تیلی جلائی جاتی ہے تو اس کے دھوئیں کے اثرات سے پیارا پاکستان متاثر ہوتا ہے۔عالمی سطح پہ درختوں کی کٹائی سے دنیا بھر کے موسم تبدیل ہو چکے ہیں،،،گلئیشئیرز پگھل کر پانی بن رہے ہیں،، جس سے دنیا بھر میں سیلاب تھمنے میں نہیں آ رہے ،،،بارشیں ہیں کہ رکنے کا نام نہیں لے رہیں۔

پاکستان موسمی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے ۔ملک میں تین سال قبل آنے والے سیلاب کے نتیجے میں 9.6بلین کا نقصان اٹھانا پڑا ہے ،،،نقصان کا یہ تخمینہ ہر سال سیلاب بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جا رہا ہے ۔پاکستانی گلئشئیر مانیٹرنگ ریسرچ سینٹر کے پراجیکٹ ڈائریکٹر نے واضح کیا ہے کہ گذشتہ سالوں کی نسبت پچھلے برس جون سے ستمبر تک موسمی حدت میں اضافہ ہونے سے ہمارے گلئشئیرز زیادہ پگھلے ہیں،،،گلیشئیرزکے پگھلاوکے عمل کو مسلسل مانیٹر کیا جا رہا ہے تاکہ موسمی تبدیلیوں کے اس افریت سے کسی طور چھٹکارا حاصل کیا جائے۔

پاکستانی محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل نے تسلیم کیا ہے کہ جنگلات اور درختوں کی کٹائی کے نتیجے میں ملکی درجہ حرارت ایک سے دو ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے،،،موسمی تبدیلیوں کی لہر کی وجہ سے گذشتہ برس کی طرح آئندہ آنے والے سالوں میں ملک کے سب سے بڑے شہر کی حیثیت سے کراچی بڑا قبرستان بننے جا رہا ہے۔گذشتہ برس پیرس میں موسمی تبدیلی کے حوالے سے ہونے والی عالمی کانفرنس میں تمام ممالک کے وفود نے زیادہ درخت لگانے ،،،فیکٹریوں کا دھواں ختم کرنے اور موسمی تبدیلیوں کا سبب بننے والے عوامل کے تدارک کے لئے قوانین متعارف کرانے کے بلند و باغ دعوے کئے مگر ان دعووں پہ آج تک عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

پاکستان میں وزارت ماحولیات کی براہ راست مانیٹرنگ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف خود کرتے ہیں مگر آج تک ملک میں ایک بھی نیا جنگل آباد نہیں کیا گیا۔کاربن سے پاک اور ماحول دوست ہائیڈرو انرجی کے سستے منصوبے لگانے کی بجائے حکومتی سطح پر کمیشن کھانے کے چکرمیں ملک میں کوئلے،،گیس،اور ڈیزل سے چلنے والے بجلی گھروں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔

پاکستان میں اس وقت تک چودہ ایم اے ایف پانی سٹور کرنے کی گنجائش موجود ہے جبکہ اٹھارہ ایم اے ایف پانی سٹور یج کی گنجائش موجود نہ ہونے سے صاف پانی براہ راست سمندر کی نذر ہو رہا ہے۔پانی کی سٹوریج اور سستی بجلی کے حصول کے لئے چھوٹے ڈیموں کی تعمیرکے ساتھ ساتھ بڑے ڈیم بنانا نہائت ضروری ہیں مگرسیاسی دوکانداری چلانے اور ذاتی مفادات کے لئے بڑئے ڈیم نہیں بنا جا رہے ،مگر عوام کو یہ کہہ کے تسلی دی جا رہی ہے کہ فنڈز کی کمی کی بناء پربڑئے ڈیم بنانا ممکن نہیں ۔

وفاقی وزارت خزانہ کے ذمہ دار افسر کے مطابق گذشتہ تین سالوں میں فنڈز کی فراہمی کے حوالے سے ہونے والے اجلاسوں میں ڈیموں کی تعمیر کے ذمہ دار ادارے نے فنڈز کی فراہمی کا مطالبہ ہی نہیں کیا۔درختوں کی کٹائی کی روک تھام کے لئے محکمہ جنگلات کے آئی جی پر مشتمل پوری فورس موجود ہے مگر اس محکمے کی فعالیت اور کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ محکمے کے اپنے آئی جی کو خود اپنی شناخت کرانا پڑتی ہے۔

موسمی تبدیلیوں سے نمٹنے اور انسانی نسل کی بقاء کے لئے ضروری ہے کہ قتل کئے گئے درختوں کابچ جانے والے درختوں سے اظہار افسوس کر لیا جائے اورزندہ بچ جانے والے درختوں سے دوستی لگا لی جائے،،،انسانی نسل اور درختوں کو یکساں بنیادوں پر جینے کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ دنیا پھر گلشن بن جائے اور گلشن کا کاروبار چلے،،،ورنہ فطرت اپنا انتقام لینا جانتی ہے اور وہ اس وقت انتقام پہ اتری دکھائی دے رہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :