مطیع الرحمان نظامی،،سلام تم پر

جمعہ 13 مئی 2016

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

بخدا اسے کوئی بھی مردہ نہیں کہے گا کیونکہ اسے مردہ کہنے پر خالق کائنات نے پابندی عائد کر دی ہے ۔کتاب حق کی سورة البقرہ اللہ کا واضح اور اٹل حکم سنا رہی ہے کہ ”جو اس کی راہ میں قتل کر دئیے جائیں انہیں مردہ مت کہو وہ تو زندہ ہیں مگر تمہیں ان کی زندگیوں کا شعور نہیں“۔کیلکولیٹر ہاتھ میں پکڑیں اور اعتداد کریں کہ آدم سے لے کر تادم تحریر کتنے نفس دنیا میں آئے اور پھر عدم کی جانب رخصت ہوئے ۔

جواب کروڑوں میں نہیں اربوں اور کھربوں میں آئے گا ۔تو کیا اگر مطیع الرحمان نظامی پھانسی سے محفوظ رہتے تو تب نہ مرتے؟۔بخدا ضرور مرتے ان سے پہلے بھی مرے اور بعد والے بھی مریں گے۔مگر جو حق کے ساتھ جئے اور انا الحق کا نعرہ بلند کر کے پھندے پر جھول گئے وہ ابد تک جاوداں رہے ۔

(جاری ہے)

آج سقراط کو پھانسی دینے والے ججوں کے نام کسی کوئی یادنہیں مگرسقراط آج دنیا کی ہر زبان کے لٹریچر میں زندہ ہے ۔

اس نے اپنے دوست کرائٹو سے یہی کہا تھا ”اگر میں زہر کا پیالہ پینے کی بجائے جلاوطنی کی سزا قبول کر لوں تو کتنی دیر مزید زندہ رہ لوں گا؟۔میری عمر ستر سال ہو گئی ہے شائید دس سے پندرہ سال مزید جی لوں ،اگر آج میں نے موت کے ڈر سے جلاوطنی قبول کر لی تو میرے افکار و نظریات کی حقانیت پر دھبہ لگ جائے گا ۔سو میرے دوست میں دس سے پندرہ سالہ زندگی کیلئے اپنے افکار و نظریات کو باطل ثابت نہیں کر سکتا ۔

“مطیع الرحمان نظامی نے بھی تو یہی نعرہ لگایا تھا کہ زندگی اور موت خالق کے ہاتھ میں ہے ،حاکموں سے رحم کی اپیل اللہ پر ناتواں ایمان کا مظہر ہوگی لہذا اللہ پر مستحکم ایمان کا اظہار کرتا ہوں اور رحم کی اپیل سے دستبردار ہوتا ہوں ۔
یہ محض ایک دو برس کا قصہ نہیں ،شہادتوں کا سفر اورپھندوں پر جھولنے کی رسم قدیم تاریخ کی حامل ہے ۔اسلام پسندوں پر عرصہ حیات کا تنگ ہو جانا ، صلیبوں پر چڑھا یا جانا، دو لخت کر دینے جیسی انسانیت سوز سزاؤں کا مستوجب قرار دیاجانا جیسی رسومات کے تانے بانے انبیاء سے جا کر ملتے ہیں۔

ابن مریم ہوں یا ابن ذکریا صلیب پر چڑھے یا دو لخت ہوئے حاصل یہ ہے کہ قدم ڈگمگائے نہ پایہ استقلال میں لغزش واقع ہوئی۔بنگال میں تختہ دار پر لٹک جانے اور اس منصب کا انتظار کرنے والوں کے جد امجد کیلئے بھی اسی تعزیر کا قصد کیا گیا تھا ۔پچاس کی دہائی میں جماعت اسلامی کے بانی امیر سید ابو الاعلیٰ مودودی کو بھی سزائے موت کا سامنا تھا مگر اس نفس مطمئن نے قید کی راتوں میں عبادت کے ساتھ نیند کے پورے مزے لیے ۔

ان سے بھی کہا گیا محض ایک بار دو سطر معافی کی لکھ دیجئے جواب میں کہا ”اگر اللہ نے میری موت کا وقت نہیں لکھا تو یہ سارے الٹے بھی لٹک جائیں تو مجھے موت نہیں دے سکتے اور اگر اللہ نے ہی میری موت کا وقت لکھ دیا ہے تو پھر میں کیسے کہہ دوں کہ بندہ اپنے رب سے ملاقات نہیں چاہتا “۔
یہ محض جماعت کے بانی کا طرز عمل نہیں تھا بلکہ یہ وہ درخشندہ روائت ہے جس کی آبیاری کبھی ڈھاکہ کے پروفیسر غلام اعظم اور ملا عبدالقادر کرتے ہیں اور کبھی اس روائت کے امین مصر کے امام حسن البنا بن جاتے ہیں۔

وہی امام حسن البنا جنہیں زہر دے کر قتل کیا گیا اور جنازے پر پابندی عائد کر دی گئی۔امام کا جنازہ اس کی دو بیٹیوں بوڑھے باپ اور بیوی کندھے پر قبرستان تک پہنچا ۔تدفین ہو چکی تو دختر نیک نے دوپٹے کے پلو کو آسمان کی جانب اٹھایا اور حقیقی مالک سے التجا باندھی ”اے ارض و سما کے حقیقی بادشاہ!اپنے باپ کی قربانی کا اجر تجھ سے چاہتے ہیں تو ہم سے راضی ہو جا“ پھر قبر کی جانب رخ کیا اور باپ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ”والد محترم !آپ کی لحد پر عہد باندھتے ہیں جس رہ پر آپ نے جان قربان کی ہے زندگی کی آخری سانس تک اسی راہ پر گامزن رہیں گے یعنی اسلامی انقلاب اور شریعت محمدی“۔

اکیسویں صدی کے مصر نے ایک اور” حسن البنا “کو دیکھا مگر اب کی بار اس کا نام محمد مرسی ہے ۔عدالتوں میں پابجولاں پیش ہو کر فاتحانہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ جنرل السیسی کی نامرادی اور اپنی کامیابی کی نوید دکھائی دیتا ہے ۔محمد مرسی کو بھی معافی طلب کرنے کا مشورہ دیا گیا تاہم حق پر ہونے کے یقین کے سبب وہی جواب دیا جو اس کے آباء صدیوں سے دے رہے ہیں ”موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں“۔

اسی روائت کی پاسداری میں کبھی اخوان کے مرشد عام محمد بدیع دکھائی دیتے ہیں۔عدالت سے سزائے موت کا حکم سنا اور مسکرا دئیے ، دیکھنے والوں نے کہا بڈھا سٹھیا گیا ہے مگر وہ کہنے لگے ” جسے مرنے کے بعد جنت کا یقین ہو اور وہ اسے حاصل کرنے کے قریب بھی ہو رہا ہو تویہ رنجیدہ ہونے کا نہیں شاداں ہونے کا مقام ہے“۔بنگلہ دیش میں بھی یہی صدائیں اور نعرے ہیں ،بنگلادیش کی قاتل عدالتوں سے موت کی سزائیں سننے کے بعد وہ جس دھج سے مقتل کی جانب بڑھتے ہیں اس ایک مسکراہٹ پر ہزاروں جانیں قربان کی جاسکتی ہیں۔

علی حسن محمد مجاہد،صلاح الدین قادر، عبد القادر ملاہوں یا عبیدالحق طاہر اور عطاالرحمن نونی،شہادت کا زیور میر قاسم علی کو میسر آئے یا غازی عبدالمنان، نصیر الدین احمد، شمس الدین احمد اور حفیظ الدین کو مستوجب سزا سمجھا جائے۔سب کشاں کشاں جانب قضا گئے بلکہ کہتے گئے ”اے زیست ہماری راہ سے ہٹ ہم موت کی عزت کرتے ہیں“۔مکرر عرض ہے آدم علیہ اسلام سے لے کر تادم تحریر اربوں کھربوں نفس دنیا میں آئے اور موت سے ہمکنار ہوئے یعنی سب مریں گے بس اللہ رہ جائے گا ۔

کیا پاکستان والے نہیں مریں گے ،اگر آج ڈھاکہ والوں پر قیامت ٹوٹ رہی ہے تو کیا اسلام آباد والے حیات خضر لکھوا کر الائے ہیں؟۔بس وہی زندہ رہے گا جو مقصد زندگی سے آشنائی حاصل کر ئے گا ۔اللہ سے دعا ہے کہ اسلام آباد والوں کو بھی مقصد حیات سے بہرہ ور فرمائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :