سطح سمندر سے نیچے سرزمین کی سیر

ہفتہ 21 مئی 2016

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

عوام اور اُن کے قائدین جہنم میں کیا مکالمہ کررہے ہوں گے اور قرآن حکیم اس کی منظر کشی کیسے کرتا ہے جس میں ہمارا اپنا چہرہ دیکھائی دیتا ہے ، اس ہفتے کالم تو اس موضوع پر لکھنا تھا لیکن دی نیدرلینڈز جسے عرف عام میں ہالینڈ بھی کہا جاتا ہے حالانکہ ہالینڈ صرف ایک صوبے کا نام ہے اورپچاس فی صد سے زائد رقبہ سطح سمندر سے نیچے سرزمین کی سیاحت کا دوبارہ موقع ملا تو قارئین کے لئے اس حوال کو لکھنا مناسب سمجھا۔

نیدر لینڈز کا معنی ہی نشیبی دیس کے ہیں۔ بارہویں آل یورپ عظیمی مقابل حسن نعت میں اعزازی مہمان کی حیثیت سے شرکت کی دعوت ملی اور ساتھ ہی میری کتابوں، افکار تازہ اور بچوں کے لئے دلچسپ اور انوکھی کہانیوں کی تقریب پذیرائی بھی تھی ۔ میرے لئے یہ باعث خوشی تھا کہ آسٹریا، سویڈن اور ڈنمارک کے بعد کسی چوتھی ملک میں میری کتابوں کے حوالے سے تقریب منعقد ہورہی تھی۔

(جاری ہے)

ایمسٹرڈیم کے ہوائی اڈہ پر میرے دیرینہ دوست اور ممتاز صحافی راجہ فاروق حیدر، حاجی جاوید عظیمی، چوہدری خالد جاوید ، چوہدری اقبال، عامر نقوی، چوہدری ذاکر اور سید عامرنے پر تپاک استقبال کیا۔ مقابل حسن نعت کے منتظم حاجی جاوید عظیمی کے ہاں دی ہیگ شہر میں عشائیہ میں ان دوستوں کے ساتھ روزنامہ دھرتی کے چیف ایڈیٹر جناب اے وسیم، ساجد مغل اور صاحب دیوان شاعر احسان سہگل میں شامل ہوگئے۔

کھانے کے بعد علمی، ادبی، دینی اور دیگر موضوعات ایک طویل نشست کے بعد ساجد مغل اور اے وسیم کے ساتھ روشنیوں میں شہر کا منظر بہت بھلا لگا۔ عالمی عدالت انصاف کی پرشکوہ عمارت کو بھی دیکھنے کا تفاق ہوا جس میں کئی پاکستانی اعلیٰ عہدوں پر فائیز رہے ہیں۔صبح ہوٹل سے ناشتہ کرنے بعد راجہ فاروق حیدر کے ساتھ دی ہیگ شہر کی سیاحت کے لیئے نکلے۔ اس شہر میں ملک کی سپریم کورٹ، پارلیمنٹ، عالمی عدالت انصاف، انٹر نیشنل کریمنل کورٹ اور دوسرے کئی قومی اور عالمی امور کے اداروں کے دفاتر موجود ہیں۔

پینوراما میوزیم دنیا میں اپنی نوعیت کا منفرد عجائب گھر ہے۔ پریس کارڈ دیکھانے پر ہمیں مفت داخلہ کی سہولت بھی مل گئی۔ راجہ فاروق بتا رہے تھے کہ اس میوزیم کے دورہ کے بغیر دی ہیگ کی سیاحت ادھوری ہے۔ میوزیم کے درمیان ایک بڑا چبوترہ بنایا گیا ہے جس پر سیڑھیاں چڑھ کر جائیں تو چاروں طرف حد نگا تک انیسویں صدی کا دور ہالینڈ سامنے آجاتا ہے۔

یہ منظر کشی کس طرح سے کی گئی ہے اسے لفظوں میں لکھنا ممکن نہیں کیونکہ یہ صرف دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ دن بھر کی تھکاوٹ راجہ فاروق حیدر کے عشائیہ نے دور کردی جس میں کشمیر سینٹر پالینڈ کے ڈائیریکٹر راجہ زیب خان ، محفل علی کے منتظم کاظم حسین، اے وسیم، ساجد مغل کے علاوہ ڈنمارک سے آئے ہوئے میرے دوست اور ہم جماعت سید اعجاز حیدر بخاری شریک تھے۔

عشائیہ کے بعد اے وسیم، ساجد مغل اور سید اعجاز حیدر بخاری کے ساتھ دی ہیگ ایک چکر لگایا۔
پاکستانیوں نے اس دیس میں آکر جس طرح محنت کرکے اپنا مقام بنایا اور ترقی اور خوشحالی کی منازل طے کیں وہ ہمیں ڈاکٹر اجمل ملک کو ملکر اور اُن کا کاروبار دیکھ کر ہوا۔ اُن کے والد اور خاندان کے لوگ تین دھائیوں سے زائد عرصہقبل یہاںآ ئے اور کاروبار کے ساتھ سماجی اور دینی سرگرمیوں میں بھر پور کرادر ادا کیا۔

ڈاکٹر اجمل نے اسی ملک سے میڈیکل سائنس میں تعلیم حاصل کرکے کچھ عرصہ ڈاکٹر کی حیثیت سے کام کرنے کے بعد اپنے خاندان کے کاروبار کا سنبھالا۔ اُن کے والد ملک صدیق یہاں کی ایک مخیر اور غیر متنازعہ شخصیت تھے۔ ڈاکٹر اجمل کے تایا زاد ملک جمیل ضلع گجرات سے رکن قومی اسمبلی تھے جبکہ اُن کے چچا ملک حنیف اعوان اس وقت رکن پنجاب اسمبلی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمیں روٹرڈیم کی سیر کرائی جوکہ یورپ کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔

یہ دریا Nieuwe Maasکے کنارے آباد ہے جسے دوسری عالمی جنگ میں تباہ کردیا گیا تھا۔ اب یہاں بلند و بالا عمارتیں اور دنیا بھر کے کاروبار کا مرکز ہے۔ سپیڈو کشتی سے دریا کی سیاحت جس میں شہر اور بندرگار کو دیکھنے کا موقع ملا ، ایک یادگار سفر تھا۔ڈاکٹر اجمل کے صاحبزادے موحد جو بہت ہونہارہے اور جماعت ہفتم کے طالب علم ہیں، وہ بھی دوران سفر ہمارے ساتھ تھے۔

روٹرڈیم میں دو بڑی گنبد اور میناروں والی مساجد کے علاوہ اور مساجد بھی ہیں۔ روٹرڈیم اور دی ہیگ کے درمیان ڈیلف شہر ہے جس میں قائم یونیورسٹی عالمی شہرت رکھتی ہے۔ اسی یونیوسٹی سے ڈاکٹر عبد القدیر خان نے ڈاکٹریٹ کی تھی۔ روٹرڈیم سے واپس دی ہیگ پہنچے جہاں مقابلہ حسن نعت اور افکار تازہ کی تقریب پذیرائی منعقد ہو رہی تھی۔
جامع مسجد نورالسلام دی ہیگ میں ہونے والے بارھویں عظیمی مقابلہ حسن نعت میں سات ممالک کے نعت خواں حضرات نے حصہ لیا۔

تقریب میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔سید اعجاز حیدر بخاری کونسلر بلدیہ برانڈ بی ، ڈنمارک کی تلاوت سے تقریب کا آغاز ہوا ، ان کے ساتھ مولانا عبدالطیف چشتی اور سید علی جیلانی نے منصفین کے فرائض ادا کئے۔سید علی جیلانی نے بہت خوبصورتی سے نظامت کے فرائض ادا کئے۔ پروگرام کی صدارت حاجی جاوید عظیمی کی تھے جبکہ مہمان خصوصی سفیر پاکستان معظم احمد خان تھے۔

معروف صحافی راجہ فاروق نے اس موقع پر افکار تازہ کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں نے افکار تازہ کا مطالعہ کیا ہے اور مجھے یہ دیکھ کرخوشی ہوئی ہے کہ یہ ایک منفرد کتاب جس میں بہت سے اہم موضوعات پر مضامین شامل ہیں اور اس کا مطالعہ ہر ایک کے لئے بہت مفید ہوگا۔ اس میں عورتوں ، اقلیتیوں، نوجوانوں، جہاد، فکر اقبال، میاں محمد بخش، تحریک پاکستان، یورپ مقیم تارکین وطن کے مسائل، قرآنی تعلیمات، سانئسی اور سماجی موضوعات پر بہت اہم اور معلوماتی تحریرں موجود ہیں۔

پاکستان کے سفیر جناب معظم احمد خان نے اس حوالے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ امر نہایت خوش آئند ہے کہ یورپ میں عارف کسانہ جیسے لکھنے والے موجود ہیں جن کی تحریروں سے بہت سے لوگ مستفید ہورہے ہیں۔وہ خود یورپ میں رہنے کی وجہ سے یہاں کے مسائل سے آگاہ ہیں اورا س بارے میں لکھ رہے ہیں۔ مجھے ان کی کتاب افکار تازہ پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے اور میں اسے بہت مفید پایا ہے۔

اس میں موجودہ وقت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے قرآنی تعلیمات اور فکر اقبال سے رہنمائی لی گئی ہے۔تقریب کے شرکاء نے افکار تازہ میں گہری دلچسپی لی اوراسے اپنے مطالعہ کے لئے حاصل کیا۔ یہ مقابلہ حسن نعت کی بارھویں تقریب تھی اگرکچھ انتظامی نقائص کو دور کرلیا جاتا تو تقریب اور بھی بہتر انداز میں منعقد ہوسکتی تھی۔ تقریب کے صدر کی جانب سے بار بار خود اعلانات کر نا اور نظامت سنبھالنا ، رابطہ کا فقدان اور کچھ دوسری خامیوں امید ہے آئیندہ دور کی جاسکیں گی۔


تقریب سے اگلے روز رات کو واپسی تھی اس لئے راجہ فاروق نے تجویز پیش کی جانے سے قبل ہالینڈ کے مشہور کیوکنہوف پارک جو کہ ٹیولپ پارک کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کی سیر کی جائے۔ یہ پارک سال میں صرف آٹھ ہفتے مارچ سے وسط مئی تککھلارہتا ہے ہے اور اس روز یعنی ۱۶ مئی کو اس سال آخری دن کھلا تھا۔ خوشگوار موسم میں راجہ فاروق اور راجہ ناصر کے ساتھ وہاں پہنچے اور دنیا کی اس معروف پھلواری کو دیکھنے کا موقع ملا جو ۷۹ ایکٹروں پر پھیلی ہوئی ہے اور جہاں ہر ساتھ دس لاکھ سے زائد لوگ آتے ہیں۔

یہ وسیع پارک ۱۹۴۹ ء میں قائم ہوا اور یہاں ستر لاکھ پودے اگائے جاتے ہیں۔ اس میں ہر قسم کے ٹیولپ ہیں اور فضا میں ایک مہک ہے۔ ویانا کے دورہ کے موقع پر چوہدری فاروق نے ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ ٹیولپ ترکی سے درآمد کیا گیا جو ویانا میں مزید نشوونما پاکر کیوکنہوف پارک کی زینت بنا۔ دورہ ہالینڈ کی اچھی یادیں لے کر ایمسٹرڈیم ہوائی اڈہ پر راجہ فاروق اقر راجہ ناصرنے الوداع کہا اور قارئین سے بھی اجازت کیونکہ ایک کالم سب تفصیلات لکھنا محال ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :