نفسیاتی بیانیہ

پیر 23 مئی 2016

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

اندازہ لگائیں کہ اسلامی جمہوریہ میں کیسے کیسے اذہان دانشوری کا لبادہ اوڑھے کیسا کیسا چورن بیچ رہے ہیں۔ دماغی خلفشار کا شِکار ایسے اکثر دانشور اپنا تعلق بھی بڑے اونچے اونچے پوتًر مقامات سے بتاتے اور جتاتے ہیں۔اِن دانشوروں کی زیادہ تر عمر حقیقت سے دور ماورائی واقعات گھڑنے اور مصنوعی بت تراشنے میں بیتی ہے۔ یہ دانشور بڑی ڈھٹائی سے کئی برسوں سے تجزئیے کے نام پر اپنی بے سروپا خواہشات سے اسلامی جمہوریہ میں لا متناہی کنفیوژن پھیلا رہے ہیں اور انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی سے ایک ہی تجزیہ بار بار فرمائے جارہے ہیں۔

۲۰۱۴ کے دھرنے کے دوران ان تجزیہ نگاروں کا بغض اپنے عروج پر تھا۔ انکی بے ضمیری ملاحظہ فرمائیں کہ اُس وقت کے تمام تر تجزئیے غلط ثابت ہونے کے باوجود قوم سے معافی مانگے بغیر اُسی ڈھٹائی سے ویسے ہی بے پر کی اڑائے چلے جارہے ہیں۔

(جاری ہے)


ایسے ہی ایک دانشور کالم نگار ہیں جو انتہائی سینئر صحافی بھی ہیں۔ یہ صحافیوں اور اینکروں کے سلسلہ عسکریہ کے سرخیل ہیں۔

قرآنی آیات کا سہارا لے کر تجزیے کو اپنی سروپا خواہشات کی طرف موڑنے میں حضرت کو کمال حاصل ہے۔ یہ افغان و توران کے ہر چھوٹے بڑے لیڈر کے نبض شناس تو ہیں ہی ، مگر ان کی اصل وجہ شہرت اسلامی جمہوریہ کے سپہ سالاروں سے قربت ہے، در حقیقت آپ نے خود کو ان کے غیر رسمی ترجمان کے درجے پر بھی فائز کیا ہُوا ہے۔ ماضی قریب کے صلاح الدین ایوبی سپہ سالار سے دیسی مرغیوں کا لطف اُٹھانا آپ کا پسندیدہ شغل تھا۔

دانشور کی پہنچ کا اندازہ لگائیے کہ موصوف ، متعدد آپریشنوں میں مصروف افواج کے سربراہ کے ساتھ کئی کئی گھنٹے طویل محفلیں دیسی مرغیوں کے سوپ، مردان کے گڑ اور سگریٹ کے دھوئیں کے سائے میں کن سوئیوں کے لئے بپا کئے رکھتے تھے۔ گہری سوچوں میں غرق کتابی سپہ سالار، دھوئیں کے مرغولے اڑاتے ہوئے آپ سے اسلامی جمہوریہ کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لئے پالیسی گائیڈ لائن لِیا کرتے تھے۔

اُن دنوں ایک ” امریکی ایجنٹ “ مُلک کے قصرِ صدارت پر قابض تھا اور اُس ایجنٹ نے سی آئی اے کو مُلک بھر میں دندنانے کی اجازت دی ہوئی تھی۔ محترم کالم نگار کی دی ہوئی پالیسی گائیڈ لائن کے مطابق سابق صلاح الدین ایوبی اور نمبر ون کے سر براہ ، قصرِ صدارت پر قابض ”امریکی ایجنٹ“ کی گردن تقریباًدبوچنے والے ہی ہوتے تھے کہ کبھی مہران بیس ہوجاتا، کبھی جی ایچ کیو پر حملہ تو کبھی ایبٹ آباد ہو جاتا اور سپہ سالار کو اپنا پروگرام التوا ء میں ڈالنا پڑتا۔

اس طرح کے واقعات پر دانشوروں کے اِس ٹولے کو ” دندل“ پڑ جاتی اور یہ اپنے تجزئیے بھول کر بلخ و بخارا کے قِصّے بیان کرنے لگ جاتے۔ ایسے واقعات پر ان کے قلموں اور زبانوں سے کبھی کوئی تجزیہ نہیں پھوٹا۔ دانشوروں کے اس دائمی نفسیاتی مریض ٹولے کی بد قسمتی ملاحظہ فرمائیں کہ ”امریکی ایجنٹ“ کی رخصتی کے ساتھ ہی اسلام کے جنوبی ایشیائی قلعے پر ”را ء کا ایجنٹ اور مودی کا یار“ مسلط ہوگیا۔

ذہنی بد ہضمی کے شکار دانشور فرمایا کرتے تھے کہ امریکا، برطانیہ اور عرب ممالک مل کر نواز شریف کو اقتدار میں لائے ہیں۔ اب ان موصوف نے اس فہرست میں بھارت کا اضافہ بھی کر لِیا ہے۔ اپنے حالیہ کالم میں فرماتے ہیں اپنا اقتدار بچانے کے لئے ”وزیر اعظم نے سرحد پار سے بھی مدد مانگی ہے، دور دراز تک ایک ایک دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں“۔ موصوف اپنی خواہش کی بنیاد پر گھڑی ہوئی افواہ کو اطلاع بنا کر مزید رقمطراز ہیں ” اردن کے شاہ عبداللہ نے آرمی چیف سے ملاقات میں وزیرِ اعظم کی سفارش کی“ ، حضرت مزید فرماتے ہیں کہ امریکہ، برطانیہ، بھارت، عرب ممالک، دو میڈیا گروپ اور کاروباری طبقہ نواز شریف کی حمایت کر رہے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ کے وزیر اعظم کو غدار ثابت کرتے دانشوروں کے اِس ٹولے کے پیشوا کا ذہنی افلاس ملاحظہ فرمائیں کہ غدار اور بھارت کے دوست وزیر اعظم نے انتہائی محب وطن سپہ سالار اور نمبر ون کے سربراہ مقرر کئے ہوئے ہیں اور دانشور موصوف ڈھکے چھپے الفاظ میں مسلسل ان محب وطن افراد کو اپنے حلف سے رو گردانی کرتے ہوئے غیر آئینی طور پر وزیرِ اعظم کو معزول کرنے کی دہائیاں دے رہے ہیں۔

تاکہ ان کے تراشے ہوئے میڈیائی بت کو کِسی بھی آئینی یا غیر آئینی طریقے سے وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر بٹھایا جاسکے۔ حضرت کالم نگار صاحب بقول خود سولہ سال مسلسل ”جنابِ قائد اعظم بھٹو ثانی “ کی سیاسی تربیت فرماتے رہے ہیں ، لِہٰذا انکو وزیر اعظم بنانا آپکا نسب العین ہے۔
نسیم حجازی کے ناولوں میں سانسیں لیتے ان دانشوروں اور ان کے پرورش کنندگان کو اپنے ” تابناک“ ماضی پر نظر ڈالتے ہوئے حکومتیں بدلنے کا کام اسلامی جمہوریہ کے عوام پر چھوڑ دینا چاہیئے ۔ یہ ”جاہل اور بے شعور “ عوام ۱۹۴۶ میں بھی جانتے تھے کہ ووٹ کِسے دینا ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ ۲۰۱۸ میں دوبارہ کِسے ووٹ دینا ہے۔آپ مہربانی فرما کر عوام کی توہین کا سلسلہ اب بند کردیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :