کس سے منصفی چاہیں؟؟

بدھ 25 مئی 2016

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

ویسے تو یہ تین واقعات ہیں لیکن ان کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے ۔ یہ واقعات حکمرانوں اور عسکری اداروں کی نااہلی ، نظریہ پاکستان کے ساتھ زیادتی اور عوام کے حقوق کی پامالی کی زندہ مثال ہے ۔ نظریہ پاکستان سے محبت رکھنے کے جرم میں بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی پے در پے پھانسیاں اور اس پر ہمارے حکمرانوں کی خا موشی اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے نزدیک نظریہ پاکستان سے محبت صرف کچھ لفظوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔

لیکن مجھ سمیت کئی لوگ یہ بات سو چنے پر مجبور ہیں کہ مستقبل میں جب بھی معرکہ حق و باطل بپا ہو گا۔ ایک طرف پاکستان کی سا لمیت و بقا اور محبت جبکہ دوسری طرف نا عاقبت اندیش لوگوں کی منافقت اور ذہنی غلامی سامنے ہوگی تو ہم کس کا ساتھ دیں گے؟ اگر ، جسم و روح میں رچی پاکستان سے محبت کا نعرہ مستانہ بلند کریں گے تو آنکھوں کے سامنے مطیع الرحمٰن اور دوسرے لوگوں کے چہرے نظروں کے سامنے آجاتے ہیں جنہیں صرف اس وجہ سے تختہ دار پر لٹکا دیا گیا کہ ان کا جرم صرف پاکستان سے محبت تھا۔

(جاری ہے)

لیکن جس جرم کی پاداش میں انہیں پھانسیاں دی گئیں اس ملک کے حکمرانوں کو اتنی بھی اخلاقی غیرت گوارہ نہ ہو سکی کہ بنگلہ دیش کے سفیر کو ملک بدر تو دور کی بات کم از کم 1974 میں دہلی میں کئے گئے پاکستان، بھارت اور بنگہ دیش کے ما بین سہ فریقی اس معاہدے کی خلاف ورزی پر ہی احتجاج کر لتے جس میں تینوں ملکوں کے سر براہوں ذو الفقار علی بھٹو،شیخ مجیب الرحمٰن اور اندا راگاندھی نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ ماضی کے کسی واقعے کو بنیاد بنا کر تینوں ممالک میں کہیں بھی کسی شخص پر کوئی کسی نہیں چلا یا جائے گا۔

لیکن نا معلوم کن وجو ہات کی وجہ سے پاکستان کے قصر حکمرانی پر اس حوالے سے خاموشی چھائی ہوئی ہے؟
قارئین ! امریکہ کی طرف سے ڈرون حملوں کا سلسلہ تو پچھلے ڈیڑھ عشرے سے جاری ہے لیکن مئی2011میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا بہانہ بنا کر رات کے اندھیرے اور پاکستانی حکمرانوں کو بھی اندھیرے میں رکھ کر امریکی سی۔آئی۔اے کے بد معاشوں نے طاقت کے نشے میں مست ،ملک عزیز کی سر حدوں کی پامالی کرتے ہوئے لڑا کا ہیلی کاپٹروں اور جدید اسلحہ کا پوری طرح استعمال کیا اور پھر باعزت طریقے سے واپس لوٹ گئے۔

شاید کہ ہمارے حکمران اس موقع پر امریکہ کی اس بد معاشی پر صدائے احتجاج بلند کرتے تو آج ایسا نہ ہوتا کہ اب خیبر پختونخواہ سے بلوچستان کا رُخ کرتے ہو ئے امریکہ بد معاش نے ایک دفعہ پھر ڈرون حملوں کا سلسہ شروع کر دیا ہے اور یہاں بھی بقول وزیر اعظم :” ہمیں اس حملے کی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی“ ۔
اس سے قطع نظر کہ حملے میں مر نے والا ملا منصور تھا کہ نہیں ،لیکن امریکہ کو یہ طاقت اور اپنے لوگوں کو مروانے کا لائسنس ،حکمرانوں کی طویل خاموشی نے ہی دیا ہے کہ وہ جب چاہے، جس کو چاہے اور جس طرح چاہے پاکستان کی حدود میں داخل ہو ، لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارے اور چلا جائے ۔

کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ بلوچستان کے ضلع نوشکی میں حالیہ ڈرون حملہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اگر اب بھی ہمارے حکمرانوں اور عسکری اداروں کے سر براہوں نے ملک کو تباہی کی جانب لے جانے والے ان عوامل کو نہ روکا تو خدا نخواستہ پھر ہمارا کوئی صوبہ، شہراور علاقہ امریکہ کے قہر سے محفوظ نہ رہے گا۔
قارئین کرام !گذشتہ دنوں روزنامہ نئی بات کے رپورٹر رانا خیام نے دہشت گردی کی روک تھام کے لئے بنا ئے جانے والے ادارے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ(C.T.D)کے حوالے سے ایک کالم لکھا جس میں انہوں نے نئی بات میڈیا نیٹ ورک کو بھیجے گئے متاثرین ؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے خط کا ذکر کیا جسے پڑھ کے دل خون کے آنسو رو رہا ہے ۔

اوپر امریکہ کی جانب سے ہونے والے ظلم کا ذکر کیا لیکن اس سے کئی زیادہ ظلم تو ہمارے اپنے ادارے، اپنے لوگ کر رہے ہیں ۔ تحقیقاتی صحافی اسد مرزا کی رپورٹ کے مطابق ایک طرف تو کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے کچھ با اثر ملازمین ، انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو 44لاکھ رشوت لیکر باعزت بری کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ جن کو چاہیں دہشت گرد قرار دیکر اٹھا لائیں اور پھر کئی مہینوں تک حراست میں رکھ کر ان کے ورثا سے سودے بازی کرتے،معقول رقم ملنے پر اسے چھوڑ دیتے یا سفارش پر اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیتے تھے ۔

ایسے واقعات اگر سچ ہیں تو پھر کون ہے جو اس سارے ظلم پر ایکشن لے؟ اور ان بے گناہ لوگوں کو بے گناہی کی قید کے عذاب سے نجات دلائے؟
ان حالات میں بطور ایک پاکستانی شہری ہونے کے میرے سامنے کئی اندیشے جنم لیتے ہیں کہ کیا سب معاملات ایسے ہی چلتے رہیں گے؟کیا نسل در نسل ہمارے اوپر ایسے حکمران مسلط رہیں گے جو اپنے مفادات کو عزیز رکھتے ہوئے قومی مفا دات کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے ہیں ۔ ایسے میں ایک دفعہ پھر فیض کے یہ اشعار دل و دماغ پر چھائے ہیں کہ
کسے وکیل کریں
کس سے منصفی چاہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :