پاکستان کی خودمختاری پر حملہ

جمعہ 27 مئی 2016

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

18 مئی کوامریکہ ، چین ، پاکستان اورافغانستان پرمشتمل چار ملکی مشاورتی گروپ کا اسلام آبادمیں پانچواں اجلاس ہوا ۔ یہ مشاورتی گروپ افغان طالبان کومذاکرات کی میزپر لانے کے لیے تشکیل دیاگیا ۔ اجلاس میں اِس عزم کااعادہ کیاگیا کہ افغان مسٴلے کے حل کاواحد راستہ مذاکرات ہیں اوراِس عمل کویقینی بنانے کے لیے رُکن ممالک اپنے تمام تروسائل بروئے کارلائیں گے لیکن اِس اجلاس کے صرف تین دِن بعدامریکہ نے بلوچستان میں افغان طالبان کے امیر ملّااختر منصور کو ڈرون کی غذابنا دیا۔

یہ ڈرون حملہ امریکہ نے کیاجس کااقرار خودصدربارک اوباما نے بھی کیا ۔ اُس کے لہجے کی رعونت اورفرعونیت کایہ عالم کہ اُس نے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا” پاکستان میں ایسی کارروائیاں جاری رہیں گی“ ۔

(جاری ہے)

امریکی خباثت کی انتہاملاحظہ ہوکہ اُس نے افغان طالبان کو پاکستان سے بَدظن کرنے کے لیے حکومتی سطح پریہ بیان جاری کردیاکہ ڈرون حملے پرپاکستان کے اربابِ اختیارکو اعتماد میں لیا گیاتھا ۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ملّااختر منصورکی گاڑی پرحملہ کرنے کے سات گھنٹے بعد وزیرِاعظم پاکستان کواِس سے آگاہ کیاگیا جس پرامریکی سفیرکوپاکستانی دفترِخارجہ میں طلب کرکے احتجاج کیاگیا کہ یہ پاکستان کی خودمختاری اوربین الاقوامی قوانین کی صریحاََ خلاف ورزی ہے ۔ 24 مئی کو وزیرِداخلہ چودھری نثاراحمد نے لگی لپٹی رکھے بغیریہ کہاکہ یہ صریحاََ ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی ہے جوکسی صورت بھی قابلِ قبول نہیں ۔

اُنہوں نے یہ سوال بھی اٹھایاکہ ولی محمدیا ملّااختر منصور نامی شخص کوخصوصی طورپر پاکستان ہی میں کیوں نشانہ بنایاگیا جبکہ وہ کم ازکم پانچ دفعہ دبئی اوردو دفعہ ایران بھی گیا ۔ چودھری نثارنے کہا ”مُلّامنصور امن کی راہ میں رکاوٹ نہیں تھا ۔ اگرایسا ہوتا تووہ مری مذاکرات میں کیوں جاتا۔ لیڈرکو مارکر طالبان کومذاکرات کی میزپر نہیں لایا جاسکتا ۔

ملّامنصور کومار کرامن مذاکرات کوسبوتاژ کیاگیا ۔ پہلے یہ کام ملّاعمر کی ہلاکت کے ذریعے کیاگیا۔ امریکہ طے کرلے کہ خطّے میں کون سی پالیسی جاری رکھناہے “۔ چودھری نثاراحمد نے یہ بھی کہاکہ ڈرون حملوں پر امریکی جوازماننا جنگل کے قانون کوماننے کے مترادف ہوگا ۔ پاکستان کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی کے نتیجے میں پیداشُدہ صورتِ حال پرغورکے لیے قومی سلامتی کونسل کااجلاس طلب کیاجا رہاہے جس میں پاک امریکہ تعلقات کاجائزہ لے کرآئندہ لائحہ عمل کااعلان کیاجائے گا۔

اِس قسم کے واقعات سے دونوں ملکوں کے تعلقات پرسنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ مری مذاکرات سبوتاژ نہ ہوتے توطالبان کی جانب سے قابل کوجنگ فری علاقہ تسلیم کیاجانے والاتھا۔
ملّااختر منصورکی ڈرون حملے میں ہلاکت تاحال معمہ بنی ہوئی ہے ۔ امریکہ کویقین ہے کہ بلوچستان کے علاقے میں جس گاڑی کونشانہ بنایاگیا ، اُس میں ملّااختر منصورہی سوار تھاجبکہ گاڑی سے ملنے والا پاسپورٹ ولی محمدنامی شخص کاہے جسکی شکل اورحلیہ ملّااختر منصورسے بہت مشابہت رکھتاہے ۔

ویسے یہ بھی ایک معمہ ہی ہے کہ جس گاڑی کالوہا تک جل کے کوئلہ ہوگیا ، اُس گاڑی میں پاسپورٹ بالکل صحیح سالم کیسے رہ گیا؟۔یہ سوال بھی جواب طلب کہ افغان طالبان کے امیرکو آخریوں بھیس بدل کرتنہاسفر کرنے کی ضرورت ہی کیاتھی؟ ۔ حکومتِ پاکستان کی طرف سے توتاحال ملّااختر منصورکی موت کی تصدیق نہیں کی گئی لیکن چونکہ ”عالمی غنڈے“ نے کہہ دیا اِس لیے دُنیانے تسلیم کرلیااور ملّامنصور کے خاندان نے بھی۔

شنیدہے کہ طالبان شوریٰ کااجلاس جاری ہے اورنئے امیرکے انتخاب تک طالبان ملّامنصور کی ہلاکت کااعلان نہیں کریں گے ۔
سوال مگریہ کہ کیااسامہ بِن لادن ، ملّاعمر اور ملّااختر منصور کے لقمہٴ اجل بن جانے سے ”عالمی غنڈے“ کی افغانستان میں ذلت آمیز شکست ، فتح میں بدل جائے گی ؟۔ آج بارک اوبامانے توکہہ دیاکہ ملّااختر منصور امن مذاکرات کادشمن تھالیکن اِس پریقین کون کرے گاکیونکہ مری میں ہونے والے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں ملّااختر منصور خودشریک تھا ۔

امریکہ نے ایک دفعہ پھردوغلی پالیسی اختیارکرتے ہوئے ایک طرف تو18 مئی کوافغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے تگ ودَوکا تاثر دیا اوردوسری طرف اُن کے امیرکو الم ناک موت سے دوچار کرکے امن مذاکرات کاباب ہی بندکر دیا لیکن اُسے یادرکھنا ہوگا کہ ملّااختر منصور کا ممکنہ جانشیں سراج الدین حقانی ہے جو نہ صرف یہ کہ امریکی ”خباثتوں“کو بخوبی سمجھتاہے بلکہ مذاکرات کاحامی بھی نہیں۔

یہ صورتِ حال افغانستان کے لیے بہترہے نہ پاکستان کے لیے اوریہی امریکہ کامقصد ہے اوربھارت کابھی۔ بھارت توپہلے بھی کبھی مذاکرات کاحامی نہیں رہا لیکن اب امریکہ کے چہرے سے بھی منافقت کی چادر سرک گئی اورسب پرعیاں ہو گیا کہ امریکہ کوافغانستان میں امن سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ وہ توپاکستان کے گردشکنجہ کسناچاہتا ہے کیونکہ اُسے ایٹمی پاکستان پہلے قبول تھا ، نہ اب ہے اور نہ ہی کبھی ہوسکتا ہے ۔

اُس کے پیٹ میں توپاک چائنا اقتصادی راہداری کے بھی مروڑ اُٹھ رہے ہیں اور ہمارا”جہنم سے نکلاہوا “ یہ اتحادی کسی بھی صورت میں اقتصادی راہداری کو پایہٴ تکمیل تک پہنچتے نہیں دیکھ سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے اُس نےF-16 طیارے دینے سے انکارکیا اوراب انکم سپورٹ فنڈکی مَدمیں دی جانے والی 450 ملین ڈالرسالانہ امدادکو بھی روک رہاہے ۔ بھارت کی بات کچھ اورہے ۔

ایک تو وہ ہماراپڑوسی ہے اورپڑوسی بدلے نہیں جا سکتے اور دوسرے یہ کہ وہ ہماراکھُلا دشمن ہے اوراُس کی دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں لیکن امریکہ ”صاف چھپتا بھی نہیں ، سامنے آتابھی نہیں“ ۔ یوں تو وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے پاکستان کا اتحادی ہونے کاکھُلم کھلا اظہارکرتا ہے لیکن اُس کے اقوال نے کبھی اُس کے افعال کاساتھ نہیں دیا ۔


امریکہ ایک طرف توافغانستان میں مفاہمتی عمل کے لیے پاکستان سے توقعات وابستہ کرتاہے اوردوسری طرف اُس نے بین الاقوامی قوانین کی صریحاََ خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچستان میں ڈرون حملہ کرکے نہ صرف پاکستان کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی کی بلکہ امن عمل کوبھی تہس نہس
کرنے میں کوشاں ہے ۔ پاک امریکہ تعلقات میں پہلے ہی سردمہری ہے ، اب ڈرون حملے سے تعلقات میں مزیدبگاڑ کااندیشہ ہے ۔

دُنیاجانتی ہے کہ پاکستان نے افغان جنگ میں امریکہ کاساتھ دے کرگنوایا بہت کچھ ، پایاکچھ بھی نہیں ۔ اِس افغان جنگ کی بدولت ہمارے ساٹھ ہزار سے زائدشہری اورفوجی جوان شہیدہوئے ، ایک ارب ڈالرسے زائد کانقصان اِس اندھی جنگ کی نذرہوا اورمعیشت عشروں پیچھے چلی گئی ۔ اب جبکہ پاکستان اپنے قدموں پر کھڑاہونے کی سعی کررہا ہے توامریکہ اور بھارت کندھے سے کندھا ملاکر پاکستان کے خلاف صف آراہوگئے ہیں۔ ہوناتو یہ چاہیے تھاکہ اِن حالات میں پوری قوم سیسہ پلائی دیواربن جاتی لیکن شومیٴ قسمت کہ ہمارے ”مہربانوں“ کو اپنی کرپشن چھپانے سے ہی فرصت نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :