یہ بھی سوال ہے

اتوار 29 مئی 2016

Israr Ahmad Raja

اسرار احمد راجہ

ایک نجی ٹی وی پر نشر ہونے والے پروگرام سوال یہ ہے کو دیکھنے کے بعد احساس ہوا کہ یم کتنے غیر ذمہ دارہیں ، بنا تحقیق کے بنا علم ہونے کے اپنا فلسفہ یوں عوام پر یوں لاگو فرماتے ہیں جیسے ہم ہر علم پر قادر ہیں اور جو جو کہہ رہے ہیں حرف حرف درست اور تحقیق کیا ہوا ہے ۔ ٹی وی پر مذاکرہ کرنے والے تما م اینکرز حضرات کو چاہیے کہ وہ اپنے میک اپ سے تھوڑا سا وقت بچا کر تحقیق پر بھی توجہ دیں ۔

پروگرام سوال یہ ہے کہ میزبان سے گزارش ہے کہ وہ اپنا فلسفہ جھاڑنے سے پہلے پولیس کی تاریخ اور کارناموں پر توجہ دے لیتے اور انسانی حقوق ، آداب آدمیت اور اہمیت پر لیکچر دینے سے پہلے پولیسPOLICE کا مطلب بھی بیان کرتے ۔ آپ نے فر مایا کہ جس پولیس والے کو جناب نئیر بخاری کے بیٹے یا گارڈ نے تھپڑ مارا اور پھر دھکا دیا وہ کس منہ سے معاشرے میں زندگی بسر کرے گا، وہ اپنے خاندان قبیلے،بیوی بچوں کے سامنے کس طرح جائے گا۔

(جاری ہے)

کیا نئیر بخاری نے انسانیت اور آدمیت کی تزلیل نہیں کی وغیرہ وغیرہ۔
میں جناب نئیر بخاری کاہمدرد نہیں اور نہ ہی پولیس سے کوئی دشمنی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ کچہری میں موجود سینکڑوں لوگو ں میں جناب پولیس مین کو ایک ہی مشکوک شخص نظر آیا جو پچھلے پینتالیس سال سے علاقے کی سیاست میں ہے، وزیر، مشیر،سینٹر ، ممبر اسمبلی اور چیئرمین سینٹ رہا ہے اور آئے رو ز اس کی تصویریں اخباروں میں چھپتی ہیں ۔

راولپنڈی اسلام آباد کے چند ہی لوگ ہیں جنہیں بچہ بچہ جانتا ہے۔ جن میں راجہ ظفرالحق ، شیخ رشید احمد، ظفر علی شاہ،چوہدری تنویر،نئیر بخاری ،اجہ پرویزاشرف ،چوہدری نثار علی خان اور راجہ بشارت شامل ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ سیاست میں اور عوام کے درمیان رہتے ہیں اگر کوئی پولیس والا راجہ ظفرالحق، ظفر علی شاہ یا چوہدری نثار علی خان کی تلاشی لینا چاہے تو اول اسے با وردی ہونا چاہیے ، وہ انہیں سلام کرئے جو کہ لفظ پولیس کا حصہ ہے اور بنیا دی تربیت کا بھی حصہ ہوگا ، پھر کہے ،مجھے اس بناء پر آپ کی تلاشی لینا ہے ۔

دنیا بھر کی مہذب پولیس اسی طرح ایک عام آدمی سے ڈیل کرتی ہے۔اگر بھرے ہجوم میں ایک سفید کپڑوں میں موجود داڑھی والا شخص کسی کو بھی روکے اور تلاشی لینا شروع کر دے توپھر معاملہ الٹ سکتا ہے۔ جناب اینکر سے گزارش ہے کہ وہ پنڈی اسلام آباد کے کسی ناکے پر تھوڑی دیر کے لیے تشریف لے جاہیں اور مشائدہ کریں کہ پولیس والے ہر داڑھی والے کی گاڑی، موٹر سائیکل اور سائیکل روک کر تلاشی لیتے ہیں اور اگر وہاں فوج یا رینجر نہ ہو تو تھوڑا بہت چائے پانی بھی لے لیتے ہیں۔


جناب اینکر سے گزارش ہے کہ وہ لفظ پولیسPOLICEپر بھی توجہ دیں اور دیکھیں کہ کیا ہماری پولیس اپنے نام کی لاج رکھ رہی ہے۔ پولیس کی تربیت ، کردار اور عمل میں پولیس نام کا کوئی عمل دخل ہے۔ پولیس کا مطلب ہے نرم خو ، وفا شعارحکم بردار ، نرم مزاج، ذہین ، معاملہ فہم ، سمارٹ اور چاق و چوبند۔ ہمارے ملک میں پولیس کے مقابلے میں پولس کا لفظ رائج ہوگیا ہے جس کا مطلب ہے متکبر، معاملات بگاڑنے والا ، ناقابل اعتماد اور خوف پھیلانے والا۔

جناب اینکر سے درخواست ہے کہ وہ جناب وزیر داخلہ سے گزارش کریں کہ وہ پولس کو پولیس بنا دیں تاکہ آپ کے سوال کا جواب آسان ہو جائے۔
سوال یہ بھی ہے کہ پولیس جن لوگوں کی تزلیل کرتی ہے،جن کے گھر اجاڑتی ہے، جھوٹے مقدمے بناتی ہے ، ذلیل و رسواء کرتی ہے، جنہیں تشدد کے ذریعہ مار دیتی ہے یا پھر مطلب کا بیان لیتی ہے، جن کی عزتیں اور آبروئیں لوٹ لیتی ہے اور دہشتگرد بننے پر مجبور کر دیتی ہے آخر ان کا غم خوار کون ہے؟ کیا جناب اینکر کو ما ڈل ٹاؤن یاد نہیں ؟جس بچی کی حاملہ ماں اورپھوپھی پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنیں اس کا بھی ایک سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ۔

نہ صدر، نہ وزیراعظم، نہ وزیرداخلہ، نہ آئی جی پولیس، نہ خادم اعلیٰ اور نہ اینکر اعلیٰ کے پاس ۔
دھرنا گردی اور دہشت گردی !یہ تحریر ہے جناب اسد اللہ غالب کی جنہوں نے کعبے میں قسم کھانے کی دھمکی دے رکھی ہے کہ انکا دوست بینکر انتہائی ایماندار ، نیک نام اور فرشتہ صفت انسان ہے۔ یہ بہت بڑی قسم ہے مگر قسم کھانے والے کی کون قسم کھائے کہ اس کی قسم میں کوئی سقم نہیں۔

جناب اسد اللہ غالب میاں صاحبان پر غلبہ پانے کی کوشش جاری رکھیں مگر مستقبل قریب میں انھیں سوائے قسمیں کھا نے کے اور کچھ نہیں ملنے والا۔ ان سے پہلے عرفان صدیقی اور عطاالحق قاسمی صحافیوں کا کوٹہ لے چکے ہیں اور مزید کی گنجائش شائد نہیں۔ وہ حکومت کے حق میں لکھتے رہیں ، قسمیں کھاتے رہیں اس میں بھی بہت سے فوائد ہیں۔
آپ نے دھرنا گردی لکھا ہے اور مشورہ دیا ہے کہ وزیر اعظم اگر میری مانیں توجسطرح فوج دہشت گرد وں اور سہولت کاروں کو نیشنل ایکشن پلان کے تحت نشانے پر لے رہی ہے اسی طرح دھرنا گردوں سے بھی نبٹیں ۔

آگے لکھتے ہیں کہ دھرنے والوں کیساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کیا جائے۔ کیا زبردست مشورہ ہے۔ ایسے قیمتی مشورے پر جناب مولانا فضل الرحمان اور اتحادی جماعتوں سے جناب وزیراعظم کو مشورہ لینا چاہیے۔ لگتا ہے کہ ماڈل ٹاؤن والے آپریشن کا مشورہ بھی کسی ایسے ہی دانا نے دیا ہوگا۔ سوال یہ بھی ہے کہ اس مشورے پر کسی اینکر ، صحافی اور صافی وغیرہ نے کوئی پروگرام نہیں کیا حالانکہ اسپر ایک عدد جرگہ ضروری ہے۔

ہو سکتا ہے کہ یہ قیمتی مشورہ جناب وزیراعظم تک نہیں پہنچاہو۔
جناب اسد اللہ غالب کی حمایت میں بیگم تنویر لطیف نے کعبے کی قسم کے عنوان سے لکھا ہے کہ ایسی جسارت اللہ پر راسخ یقین رکھنے والا سچا مسلمان ہی کر سکتا ہے۔ آپ نے جناب اسد اللہ غالب کی تحریر کو روحانی رنگ میں رنگ دیا ہے۔ آخر میں لکھتی ہیں کہ اسداللہ غالب کا کالم آذاد کشمیر کے جون میں ہونے والے انتخابی معرکے سے قبل گلی گلی شہر شہر ٹیلیفونک رابطوں کا موضوع بن رہا ہے۔

دلوں کی دنیا بدلنے کے لیے کعبے کا حوالہ ہی کافی ہے۔بیگم تنویر لطیف سے گزارش ہے کہ کالم نگاروں کی قلا بازیاں نام کی کتاب پڑھ لیں اور بندہ مومن کی ایک پرانی امریکہ یاترا کا احوال بھی کسی سے معلوم کر لیں۔ جہاں تک آذاد کشمیر کے گلی کوچوں اور شہروں کا تعلق ہے تو اس بد قسمت خطہ زمین کی گلیاں ویران اور شہر سنسان ہیں۔ مجاور حکمران ہیں اور عوام بد حال ہیں ۔

برادری حکومت ڈوگرارا ج کی یاد دلا رہی ہے۔لگتا ہے ان کو بھی شائد حکمران برادری کے فون آرہے ہوں گے کہ ان کا اگلا پروگرام کیا ہے۔ کو نسا جنگل کاٹ کر بیچنا ہے اور کونسے منصوبے کو کاغذی شکل دے کر مال کمانا ہے۔ اسد اللہ غالب اور آنے والے الیکشن کا معاملہ کیا ہو سکتا ہے اس کی تشریح میڈم تنویر لطیف ہی کر سکتی ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وزیر اعظیم کشمیری دانشور اور چاچائے صحافت مشتاق منہاس کی صورت میں میاں خاندان اپنا پسندیدہ حکمران کشمیر کی گدی پر بٹھا دیں اور اس گدی کو اسد اللہ غالب کی گود میں رکھ دیں آذادکشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے حکمران ویسے بھی تو برائے نام ہی تو ہوتے ہیں ۔

وہاں کانگرس اور بی جے پی کے چرن چھونے والے اور یہاں پیپلز پارٹی کے مجاور اور ن لیگ کے خادم عوام پر جبراً مسلط کیے جاتے ہیں ۔
شاہ صاحب اور امریکن فقیرنی! نام نہاد حق اظہار کی آڑ میں نصرت جاوید لکھتے ہیں کہ وہ ذاتی طور پر محسوس کرتے ہیں کہ رسول خدا ﷺکی شان میں گستاخی کرنے والوں کی املاک کو نقصان نہ پہنچایا جائے ۔ دنیا میں احتجاج کے اور بھی طریقے ہیں ۔

شاہ صاحب نے فرمایا کہ جب وہ اسلام آباد میں مقیم سفارت کاروں سے ملتے ہیں تو انہیں شکایات ملتی ہیں کہ مسلمان گستاخانہ کارٹونوں پر جس طرح ری ایکشن کرتے ہیں وہ درست نہیں ۔شاہ صاحب یقینا سید ہیں۔ چونکہ وزیر دفاع انہیں ہمیشہ شاہ جی کہہ کر پکارتے ہیں ۔ شاہ جی سے گزارش ہے کہ ایک سید زادے کو ایسی وکالت زیب نہیں دیتی ۔ آپ قرآن کریم کا مطالعہ کریں کہ گستاخان رسول ﷺ کے متعلق اللہ کا کیا حکم ہے۔

سورة توبہ اور سورة یونس پر ایک نظر ڈالیں اور دوچار روز کے لیے سرہانے رکھے انگریزی ناول کو تھوڑا دور کافی ٹیبل پر رکھ دیں ۔ آپ نے جرمن مسخر ے اور ترک صدر کی مثال پیش کی ہے جس کا گستاخان رسول ﷺ سے موازنہ درست نہیں ۔ آپ نے یہ نہیں بتایا کہ ایک مسلمان ملک میں بسنے والا دیہاتی کس طرح احتجاج نوٹ کروائے۔ آپ نے ایک بار ابن خلدون پر طنز کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ابن خلدون نے صرف ایک لفظ ایجاد کیا تھا اور وہ ہے عصبیت ۔

آپ نے اس کی وضاحت نہیں کی جو کہ آپ کا فرض تھا ۔ابن خلدون نے عصبیت کو وسیع تر معنوں میں پیش کیا ہے۔ جس میں غیرت و حمیت بھی شامل ہے۔آپ فرماتے ہیں کہ مغربی ممالک اظہار رائے پر قدغن نہیں لگا سکتے ۔ مہربانی فرما کر آپ ایک انگریزی کالم ہالوکاسٹ پر لکھ دیں اور پھر دیکھیں کہ آپ کا کیا حشر ہوتا ہے۔ سوائے ترک اور ایرانی سفارت خا نے کے کوئی شکایت کندہ مغربی سفارت کار آپ کے قریب آئے گا اور نہ ہی اپنی محفل میں بلائے گا آپ آرام سے گھر بیٹھیں گے اور مقدمہ ابن خلدون اور تاریخ کا مطالعہ کریں گے۔

سارا مغرب آپ پر ابل پڑے گا اور آپ کا تماشہ بنا دے گا۔آزادی اظہاررائے ، انسانی حقوق اور عالمی امن صرف کمزور اور دبی کچلی عوام کو ذلیل و رسواء کرنے کے بہانے ہیں۔
امریکہ میں مقیم اپنے سٹائل میں ورسٹائل زاہدہ ، عابدہ، درویشنی اورفقیرنی جنہوں نے حال ہی میں جھلی کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ جسے پاکستانی سرکاری اور نیم سرکاری دانشوروں نے علم تصوف پر لکھے جانے والی کتابوں کا نچوڑ قرار دیا ہے۔

میں نے یہ کتاب نہیں پڑھی اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے آج کل سارے درویش اور درویشنیاں کسی نہ کسی سیاسی جماعت اور حکمران ٹولے سے منسلک ہیں ۔پیر اعجاز پیپلز پارٹی کے صدراورامریکن ولیّان لیگ سے وابسطہ ہیں ۔ آپ جب بھی پاکستان تشریف لاتی ہیں جاتی عمرہ کا دورہ بھی کرتی ہیں ۔ آپ کی حکمران خاندان سے قربت راز کی بات نہیں بلکہ آپ ان سرکاری لکھاریوں میں شامل ہیں جن کا تعلق ن لیگ کے تھنک ٹینک سے ہے۔

پانامہ پیپر پر اوّل تو ایک درویش صفت شخصیت کو لکھنا ہی نہ چاہئے تھا اور اگر لکھنا ضروری تھا تو محترمہ تہمینہ درانی کی تقلیدمیں کہنا چاہیے تھا کہ عوام کا حق لوٹا دو۔آپ نے لکھا کہ وزیر اعظم ڈٹ گئے ۔ کس بات پر ڈٹ گے کہ وہ لوٹا ہوا مال واپس نہیں کریں گے۔کیا یہ درویشی ہے؟ آپ نے پھر فرمایا کہ وزیر داخلہ نیویارک میں ہیں ۔ پتا نہیں درویشوں اور فقیروں کو شاہوں کے قصیدے لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔

آپ سے گزارش ہے کہ تھوڑا وقت نکالیں اور امام غزالی کی اور ابن عربی کو پڑھ لیں ۔ وقت ملے تو حضرت نورالدین اویسی  کی منازل فقر ، حقیقت تصوف اور راہ حقیقت کا مطالعہ کریں یا پھر صرف سیاسی کالم لکھیں اور فقر و ولایت کا سہارا لے کر جھلی کو بدنام نہ کریں ۔
آپ کا تازہ ترین شوشاہ آرمی چیف پر ہے کہ وہ وزیراعظم سے ایک سال کی مدد ت ملازمت بڑھانے کی خواہش رکھتے ہیں چونکہ انہیں اپنی پبلک سٹی دیکھ کر احساس ہوا ہے کہ قبل از وقت ریٹائر منٹ کا اعلان درست نہ تھا ۔

آپ نے فوج اور سپہ سالار کو دبے لفظوں میں تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ آخر میں لکھتی ہیں کہ آرمی چیف بھی جب ہیرو بنا دیے جائیں تو ان کا بھی پھر گھر جانے کو دل نہیں کر تا ۔ سوال یہ بھی ہے کہ آپ میں اور حسین حقانی میں کیا فرق ہے ؟امید ہے آپ جواب دیں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :