افغانستان: ایک نئے کھیل کا آغاز

اتوار 5 جون 2016

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

یوں تو پاکستان میں بھی ہنگامہ آرائی کم نہیں۔ پاناما لیکس کے معاملے پر پارلیمانی کمیٹی ڈیڈ لاک کا شکار ہے اور بظاہر دو ہفتوں میں ٹی آر اوز کے بارے میں اس کے کسی نتیجے پر پہنچنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ مطلب بدعنوانی کی تحقیقات کا اونٹ ابھی کسی کروٹ نہیں بیٹھنے والا۔ وفاقی بجٹ بھی پیش ہو رہا ہے اور عوام دل تھام کے بیٹھے ہیں کہ آنے والے ایک برس میں ان کے ساتھ نہ جانے کیا ہونے والا ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف بھی دل تھام کے بیٹھے ہیں کہ ان کی اوپن ہارٹ سرجری کامیاب رہی اور اب وہ رو بہ صحت ہیں‘ لیکن سب سے دل چسپ ہمارے پڑوس میں ہونے والی ایک نئی ڈویلپمنٹ ہے۔
ملا منصور کو نوشکی میں ڈرون کا نشانہ بنا کر امریکہ نے اپنے تئیں کارنامہ سرانجام دیا ہے اور صدر اوباما تو اس پر پھولے نہیں سماتے۔

(جاری ہے)

ان کی خوشی کی انتہا کا اندازہ ان کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے ملا منصور کی ہلاکت کو افغانستان میں امن کے قیام کے سلسلے میں سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملا منصور نے امن مذاکرات میں شمولیت سے انکار کر دیا تھا‘ لیکن اب یہ راہ ہموار ہو گئی ہے۔

اوباما یہ نہیں جانتے کہ یہ کارروائی کر کے انہوں نے ایک ایسے کمبل کو جا پکڑا ہے‘ جس سے جان چھڑانے کی وہ کوشش کریں گے‘ ان کے بعد آنے والے صدر صاحب بھی‘ لیکن اب یہ کمبل انہیں نہیں چھوڑے گا۔
پچھلے کچھ عرصے سے امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات نچلی ترین سطح پر ہیں جس کے اسباب سبھی واقف ہیں۔ حالیہ ڈرون حملے نے پہلے سے خراب تعلقات کو مزید دگرگوں بنا دیا ہے۔

یہاں ڈرون حملے اس سے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں‘ لیکن اس بار پاکستان کا ردعمل شدید تر ہے۔ اس کی درج ذیل دو وجوہات ہیں۔(1) اس سے پہلے جتنے ڈرون حملے کئے گئے وہ زیادہ تر سی آئی اے نے کئے یا کرائے۔ یہ پہلا حملہ ہے جو پاک فوج نے کیا ۔ ( 2) اس سے پہلے جتنے حملے کئے گئے وہ فاٹا کی ایجنسیوں میں کئے گئے۔ یہ پہلا حملہ ہے جو باقاعدہ پاکستانی علاقے میں کیا گیا اور بلوچستان کی ایک شاہراہ پر ملا منصور کو نشانہ بناتے ہوئے امریکی انتظامیہ یہ بھول گئی کہ وہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کرنے جا رہی ہے۔

(3) اگر پاکستان کا افغان طالبان میں کوئی اثر و رسوخ ہے تو ظاہر ہے کہ اس حملے کی وجہ سے اس کو شدید نقصان پہنچا‘ کیونکہ یہ حملہ پاکستانی علاقے میں کیا گیا ہے۔ انہی تین وجوہات کی بنا پر وزیر داخلہ نثار علی خان نے قرار دیا کہ اس ڈرون حملے کی وجہ سے پاک امریکہ تعلقات پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جبکہ فوج کی جانب سے بھی شدید ردعمل ظاہر کیا گیا ‘ حتیٰ کہ پاکستان میں امریکی حکام کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ تک قائم کر لیا گیا‘ اور پاکستان نے افغان طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لانے سے تقریباً معذوری ظاہر کر دی ہے اور چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ افغان طالبان کے سربراہ کو ڈرون حملے میں ہلاک کرنے کے بعد طالبان کو مذزاکرات کے لئے کہنا درست نہیں۔

مطلب یہ کہ افغان امن عمل کے آگے بڑھنے کی امید کا دیا فی الحال تو بجھ چکا ہے۔ بالفرض پاکستان چاروناچار افغان طالبان سے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا کہتا بھی ہے تو اب اس درخواست کے قبول ہونے کی امید موہوم ہے ۔ افغان طالبان کی نئی قیادت ملا ہیبت اللہ اوران کے نئے معاونین نے اپنے انتخاب کے بعد اس بارے میں اپنے خیالات کا کھلا کھلا اظہارکر بھی دیا ہے۔


یہ ڈرون حملہ اس حوالے سے بھی امریکہ کے لئے گھاٹے کا سودا ثابت ہو گا کہ یہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا‘ جب عالمی سطح پر اوباما انتظامیہ پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی ڈرون پالیسی واضح کرے بلکہ اب تک ہونے والے ڈرون حملوں میں سویلین ہلاکتوں کے بارے میں اعداد وشمار بھی منظر عام پر لائے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اوباما انتظامیہ کے ساڑھے سات برسوں میں اب تک 462ڈرون حملے کئے جا چکے ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہوئے جبکہ ڈرونز کا سامنا کرنے والے دوسرے ممالک یمن اور صومالیہ ہیں۔ پاکستان اگر اپنے موقف پر قائم ‘ جو کہ اسے رہنا چاہئے اور افغان امن عمل ڈی ریل ہو گیا تو یہ طے ہے کہ امریکہ کو عالمی برادری کی زیادہ لعن طعن سننا پڑے گی اور ڈرون حملے بند کرنے کے سلسلے میں زیادہ دباؤ سہنا پڑے گا‘ چنانچہ یہ ڈرون حملہ افغانستان کے داخلی حالات کے حوالے سے سنگ میل تو ضرور ہے‘ لیکن ویسا نہیں جیسا اوباما نے قرار دیا‘ یہ مختلف نوعیت کا سنگ میل ہے‘ جس کے افغانستان اور اس خطے کے حالات پر گہرے اثرات مرتب ہونے جا رہے ہیں اور افغانستان کے لئے نہایت بھیانک۔


قرین قیاس یہ ہے کہ طالبان کی جانب سے اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا جائے گا اور کیا جا رہا ہے۔ افغانستان کے داخلی حالات بھی قابو میں نہیں رہیں گے اور 90کی دہائی والا افغانستان لوٹ آئے گا جب مختلف افغان گروہ سوویت یونین کی پسپائی کے بعد اقتدار پر قبضے کے لئے ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار نظر آتے تھے اور ملک کے طول و عرض میں خانہ جنگی کی کیفیت تھی۔

اس بار ممکن ہے افغان طالبان کے مختلف دھڑے آپس میں تو نہ لڑیں لیکن وہ افغان حکومت کے خلاف ضرور ایکا کر سکتے ہیں۔دوسری جانب امریکہ میں نئے صدارتی انتخابات میں بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ اگلے سال وہاں نئی انتظامیہ نئے صدر کے تحت کام کر رہی ہو گی۔ وہ اگر افغانستان میں قیام بڑھانے کا ارادہ کرتی ہے اور افغانستان سے اپنے بچے کھچے فوجی نہیں نکالتی تو اس صورت میں افغان طالبان کے افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کے رہے سہے امکانات بھی ختم ہو جائیں گے اورطالبان اقتدار پر قبضے کے لئے اپنی کوششیں تیز کر دیں گے اور زور آزمائی کا یہ سلسلہ برسوں پر محیط ہو سکتا ہے۔


حال ہی میں ایران نے افغان طالبان کے ساتھ مل کر داعش کے خلاف لڑنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ یاچی ڈریزن فارن پالیسی میگزین میں لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ اسلامک سٹیٹ کے سر اٹھاتے ہوئے خطرے نے ایک عرصے تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے رہنے والے طالبان اور ایران داعش کو متحد کر دیا ہے؛ چنانچہ پاکستان کے بجائے ایران افغان طالبان کو ہینڈل کرنے کی پوزیشن میں آ سکتا ہے۔

اور اگر ایسی کوئی صورتحال پیدا ہوئی تو بھی امریکہ کے لئے یہاں اپنے قدم جمائے رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
امریکہ افغانستان میں موجود اپنے دس ہزار فوجیوں میں سے زیادہ تر کو اگلے سال کے آخر تک واپس بلا لینا چاہتا ہے‘ جبکہ کابل میں اشرف غنی کی حکومت کی حیثیت اور طاقت سے کون واقف نہیں؟ پاکستان کی کوششوں کی باوجود افغان طالبان اگر افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھ رہے تو اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ وہ حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ امریکہ کی افغانستان سے واپسی کے بعد وہ کابل کے اقتدار پر آسانی سے قبضہ کر سکتے ہیں۔

اس کا ٹریلر افغان طالبان نے پچھلے سال قندوز پر قبضہ کر کے دکھا دیا تھا۔ ملا منصور پر ڈرون برسا کر امریکہ نے افغانستان میں امن کے قیام کی آخری امید بھی ختم کر دی ہے۔ اب یہ ممکن نہیں رہا کہ افغان طالبان افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں یا انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ اور اگر وہی سب کچھ ہو گیا جو طالبان سوچ رہے ہیں تو ممکن ہے اگلے دو چار یا پانچ دس برسوں میں امریکہ یا کسی دوسری سپر پاور کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ ایک بار پھر افغانستان کا سفر کرنا پڑے۔سوویت یونین کا خاتمہ ہو گیا اور امریکہ نے بھی افغانستان پر حملے کا مزہ چکھ لیا۔ اگلی باری کس کی ہے؟ افغانستان میں نئے کھیل کا آغاز تو اوباما نے کر دیا‘ دیکھیں انجام کیا ہو؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :