آگ میں جلتی زندگیاں

اتوار 19 جون 2016

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

19سالہ زینت کو پسند کی شادی کرنے کے جرم میں سگی ماں اور بھائی نے زندہ جلا دیا اس سے کچھ دن پہلے18سالہ ماریہ کو آگ لگا قتل کر دیا گیا ‘16سالہ عنبرین کو قتل کر کے آگ لگا دی گئی وہ نوجوان لڑکیاں جنہیں زندہ رہنا تھا انہیں اس معاشرے میں آگ کا ایندھن بنا دیا۔تینوں کے لئے اس دنیا کو ہی دوزخ بنا دیا گیا‘ کیونکہ تینوں کا ایک ہی قصور تھا۔

صنف نازک ہونا‘ اپنا حق لینے کی خواہش رکھنا‘ یہ جتانا کہ وہ بھی انسان ہیں‘ ان کی بھی ایک سوچ‘ بے شمار آرزوئیں‘ امنگیں‘ خواہشیں‘ تمنائیں اور کچھ آدرش تھے۔ معاشرے میں زندہ بچ جانے والی لڑکیوں کی طرح وہ بھی انصاف کی طلب گار تھیں‘ ایک ایسا جیون ساتھی چاہتی تھیں‘ جو اُن سے ذہنی ہم آہنگی رکھتا ہو‘ دکھ سکھ کا ساتھی ہواور محبت کے ساتھ زندگی بھر ساتھ نبھانے کا ارادہ رکھتا ہو‘ جو ان کی خوشی پر خوش ہو اور ان کی غمی پر فکرمند۔

(جاری ہے)

لیکن اناؤں کے مارے اور رواجوں کے اسیر سماج کو یہ گوارا نہ تھا کہ ایک لڑکی پسند کی شادی کا اپنا حق استعمال کرے یا کسی کو یہ حق استعمال کرنے میں مدد دے۔ اسلام نے تو خواتین کو مرضی کی شادی کا حق دے رکھا ہے‘ لیکن کیسی عجیب بات ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلتے نام نہاد غیرت اور روایات کے امین” مامے چاچے “انہیں یہ حق دینے کو تیار نہیں۔

ساری خرابی کی جڑ سماج کے یہ مامے چاچے ہی ہیں‘ خدائی فوجدار‘ بھٹکے ہوئے لوگ‘ خود کو عقل کُل سمجھنے والے‘ وہ جنہیں مکافات عمل کا کوئی خوف ہے اور نہ ہی روز قیامت ہونے والی سخت بازپُرس کا۔
ان لڑکیوں کی آزادانہ سوچ ہی گناہ بن گئی۔ ایک ایسا گناہ جس کی سزا آنکھیں بند کئے ناک کی سیدھ میں چلنے والے اس سماج کے نزدیک زندگی سے محروم کر دئیے جانے کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتی۔

اور یہ توسبھی جانتے ہیں کہ آنکھیں بند ہوں تو کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ شاید کان بھی بند ہو جاتے ہیں کہ جلتی ہوئی لڑکیوں کی چیخ پکار بھی نہیں سن سکتے۔ شاید ناک بھی بند ہو جاتی ہے کہ ایک زندہ انسان کے جلتے ہوئے گوشت کی بو بھی محسوس نہیں ہوتی۔ شاید عقل بھی اس قدر ماؤف ہو جاتی ہے کہ نو ماہ پیٹ میں رکھنے اور 19سال لاڈ پیار سے پالی بیٹی کو جب سگی ماں جلاتی ہے تو نہ اس کے ہاتھ کانپتے ہیں نہ دل پھٹتاہے اور نہ ہی معاشرے پہ کہر اترتاہے۔


ماریہ‘ عنبرین اور سونیا بی بی کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ پہلی بار نہیں ہوا‘ایسی نہ جانے کتنی بیٹیاں اور بہنیں اپنے والدین‘ بھائیوں اور اس معاشرے سے انصاف کی امید لگائے مٹی کا رزق بن چکی ہیں۔حقوق نسواں کی بات کرنے سے پہلے اس حقیقت کو تسلیم کرنا ضروری ہے کہ ہمارے ملک میں انسانی حقوق‘ خصوصی طور پر خواتین کے حقوق کی پاس داری کے حوالے سے صورتحال بے حد تشویشناک ہے۔

ہم یہ بات تو بار بار دھراتے ہیں کہ اسلام نے خواتین کو باقی مذاہب کی نسبت سب سے زیادہ حقوق سے نوازااور ان کے فرائض کا تعین کیا‘ لیکن جب ان حقوق کی ادائیگی کا وقت آتا ہے تو منافقت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں کسی فرد‘ گروہ یا سماجی حصے کی تخصیص نہیں ہے‘ اس حوالے سے ہم سب ایک ڈگر پر چل رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کہیں حقوق نسواں کی پامالی زیادہ ہوتی ہے اور کہیں کم۔

ہم نے اپنے سماج میں عورت کو کیا مقام دے رکھا ہے‘اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حقوق نسواں کی کن کن طریقوں سے خلاف ورزی ہوتی ہے۔ سندھ میں انہیں کاروکاری قرار دے کر قتل کیا جاتا ہے‘ پنجاب میں یہی چیز غیرت کے نام پر قتل کہلاتی ہے۔ سوارہ کی رسم کے تحت کم عمر لڑکیوں کو دو قبیلوں یا خاندانوں میں دشمنی ختم کرنے کے بدلے میں صلح کے نام پر دوسرے قبیلے یا خاندان کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔

مرد انہیں جبراً اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ناکامی پر تیزاب گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جہیز کم لانے یا نہ لانے پر انہیں سسرال میں آگ لگا کر قتل کیا جاتا ہے اور بہانہ چولہا پھٹنے کا لگایا جاتا ہے۔خواتین کو جرگہ گردی کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ جرگے ان پر اپنے غیرقانونی فیصلے مسلط کرتے ہیں۔(مری کی ماریہ اور ایبٹ آباد کی عنبرین ایک طرح سے جرگہ گردی کا ہی نشانہ بنیں)۔

خواتین کو کام کی جگہوں پر جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ماں باپ کے گھروں میں انہیں تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے‘ جہاں ان کے بھائیوں کو ان پر ہر حوالے سے فوقیت اور ترجیح دی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کرائے گئے ایک سروے کے مطابق ہسپتالوں میں زخمی حالت میں لائی جانے والی 35فیصد خواتین اپنے شوہروں کے تشدد کا نشانہ بنی ہوتی ہیں۔

سروے سے یہ بھی پتہ چلا کہ روایات کی وجہ سے خواتین اور لڑکیوں کو روزانہ کی بنیاد پر امتیاز اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ گھریلو تشدد کے واقعات میں روزانہ کم از کم دو خواتین کو جلایا جاتا ہے۔ اور یہ کہ 70سے 90فیصد خواتین اپنے شوہروں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔یہ خواتین پر تشدد کے وہ کیسز ہیں جو رپورٹ ہو جاتے ہیں۔ اور رپورٹ ہونے والے کیسز میں سے بھی 65فیصد خواتین بعد ازاں جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔

اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رپورٹ نہ ہونے والے اور مختلف وجوہات کی بنا پر دبا دئیے جانے والے تشدد کے کیسز کی تعداد کیا ہو گی؟
اگرچہ پوری دنیا میں گزشتہ بیس برسوں سے ہر تیسری عورت جسمانی یا جنسی تشدد کا نشانہ بن رہی ہے۔ یورپی یونین‘ جسے ہم ترقی یافتہ اور مہذب سمجھتے ہیں‘ کے 28رکن ممالک میں 43فیصد خواتین کو اپنے ساتھیوں کی جانب سے تشدد برداشت کرنا پڑتا ہے اور اس کے علاوہ بھی پتہ نہیں کیا کچھ ہوتا ہے‘ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں بھی اس کی اجازت دے دی جائے۔

یہ ایک اسلامی معاشرہ ہے‘ جس میں خواتین کو ان کے حقوق ملنے چاہئیں ۔ حکومت نے بیویوں کو شوہروں کے ظلم اور تشدد سے بچانے کے لئے تو قانون پاس کر دیا‘ لیکن بن بیاہی لڑکیوں کو تیزابوں‘ ونیوں‘ سواراؤں‘ جرگوں‘ مشتعل مجمعوں‘ غیرت کے نام پر قتلوں‘ غیر اسلامی رسموں‘ غیر اخلاقی رواجوں‘ زیادتی کی جانے والی خود سوزیوں‘ عصمت دریوں سے بچانے کے لئے قوانین کب بنیں گے؟ کب یہ معاشرہ ان کے لئے محفوظ بن سکے گا‘ جہاں وہ سر اٹھا کر اپنی مرضی کی زندگی جی سکیں! خود کو آگ لگانے یا لگوانے والیوں کو ‘ کسی بھی کے تشدد کا نشانہ بننے والیوں کو انصاف ضرور ملے گا اور ان کے گنہگار روز آخرت حقیقی انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے‘ لیکن صرف وہی نہیں‘ وہ بھی جو انہیں انصاف دے سکتے تھے لیکن نہیں دیا‘ اور وہ بھی جو حکمران تھے‘اور ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کر سکتے تھے۔

جنہوں نے نہیں کی اور یہ جہالتوں سے اٹا ہواپورا پاکستانی معاشرہ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :