فاؤنٹین ہاؤس :دکھ کے ماروں کی امان گاہ

بدھ 22 جون 2016

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

ہر طلوع ہونے والی صبح اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ قدرت ابھی اس دنیا سے مایوس نہیں ہوئی۔ ہر طرف پھیلی ہوئی مایوسیوں کے اندھیروں کے باوجود بھی روشن اورچمکدار روشنی ہمارا مقدر ٹہرتی ہے ۔ میں جب اپنے اردگرد بھی نظر دوڑاتا ہوں تو جہاں مجھے لوگوں کے حقوق غضب کرنے والے، ان پر ظلم و ستم کی ایسی ایسی داستانیں رقم کرنے والے کہ جن کو سن کر روح کانپ اٹھے،لوگوں کی زندگیوں میں بے سکونی کا زہر گھول کر ان کی زندگیوں کو عذاب بنا نے والے لوگ نظر آتے ہیں وہاں لوگوں کی عذاب ہوتی زندگیوں میں خوشیوں اور امیدوں کے رنگ بکھیرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔

سینے میں مدر ٹریسا بلکہ اس سے بھی زیادہ جذبہ رکھتے، ڈاکٹر امجد ثا قب جیسے ایسے سینکڑوں لوگ ہیں جو برائی کے جلادوں کے مقابلے میں اچھائی کے مسیحاوں کے طور پر اپنا کام کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)


قارئین !فاؤنٹین ہاوس کی چار دیواری میں بسنے والے ان معصوم لوگوں کے ساتھ بھی خوشیوں کے ان جلادوں نے کچھ ایسا ہی سلوک رواء رکھا جس کی وجہ سے اچھے بھلے، ہنستے مسکراتے اور اپنی زندگی کو بخوشی بسر کرتے یہ لوگوں پر زندگی اتنی تنگ کر دی گئی کہ جس کے نتیجے میں کوئی ڈپریشن کے عذاب میں مبتلا ہو کر ذہنی توازن کھو بیٹھا تو کوئی زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ ہو چکا۔

کوئی اپنوں کی بے حسی کا شکار ہوا تو کوئی بیگانوں کی کالی کرتوتوں کی وجہ سے اس حال میں پہنچا۔ لیکن جب اپنے اور پرائے،سب نے ان لوگوں کو دھتکار دیا اور کئی بھی جائے امان نہ دی توان حالات میں فاؤنٹین ہاؤس ان کی امان گاہ بنا،جہاں ڈاکٹر امجد ثاقب اور ان کے رفقا ء کار ، اپنے خاندا ن کے ایک فرد کی طرح ان کا خیال رکھتے ہیں۔
فاؤنٹین ہاؤس 1971سے اب تک 45000سے زائد زہنی امراض میں مبتلا افراد کی معاشرے میں دوبارہ بحالی کے فرائض انجام دے چکا ہے ۔

اس وقت 550سے زائد ذہنی مریض بشمول 100خواتین فاؤنٹین ہاؤس ( لاہور، فاروق آباد ، سرگودھا )میں زیر علاج ہیں۔جن میں طالب علم، وکلاء،میڈیکل سٹوڈنٹس،بزنس میں، حکومتی عہدیدار اور فنکار بھی شامل ہیں۔350، ذہنی پسماندہ بچوں کو تعلیم اور پیشہ وارانہ تربیت دی جارہی ہے ۔ جبکہ440خواجہ سرا ماہانہ زکوٰة فنڈ سے علاج ووظیفہ حاصل کرتے ہیں۔
قارئین !کئی سالوں سے فاؤنٹین ہاوس میں مکین ہر فرد کی ایک ایسی طویل اور غمناک داستان ہے جسے سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔

ایک خاتون جس کا شوہرریٹائرڈاور بیٹا حاضر سروس جج ہے ، کتنے سال ہوتے ہیں کہ روز صبح چوکیدار سے سوال کرتی ہے کہ میرا بیٹا تو نہیں آیا؟ ناں میں جواب سن کر واپس اپنے کمرے کی جانب لوٹ جاتی ہے لیکن امیدکی ایسی دولت اس کو نصیب ہے جو کئی عقل والوں کومیسر بھلا کہاں؟ مجھے یہ دیکھ کر انتہائی خوشی ہوتی ہے کہ خیراتی اداروں کی نسبت فاؤنٹین ہاؤس میں ایسے لوگوں کو کمال محبت اور شفقت کے ساتھ رکھا جا تا ہے ۔

بلکہ ایگزیگٹو کمیٹی کے بابا غیاث الدین کا کئی سالوں سے یہ معمول ہے کہ وہ اپنوں کی چشم پوشی کی وجہ سے ذہنیامراض میں مبتلا لوگوں کے ساتھ صبح کا ناشتہ کرتے ہیں ۔
خواجہ سراء پروگرام کی کامیابی بھی ڈاکٹر امجد ثاقب کے اسی جذبے کی کامیابی ہے ویسے ہی جیسے اخوت، اخوت یونیورسٹی اور کالج کے خوابوں کی تکمیل ہے ۔مجھے کچھ روز قبل فاؤنٹین ہاؤس میں خواجہ سرا ؤں کے اعزاز میں منعقدہ افطار ی کے ایک پروگرام میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں معاشرے کی دھتکاری، انسان نما اس مخلوق کوسینے سے لگا کر انتہائی عزت و احترام کے ساتھ کھانا کھلاتے ہوئے میں حیرت میں ڈوب گیا کہ وہ لوگ جو ہیپاٹائیٹس ، ایڈز اور دوسری مہلک بیماریوں میں مبتلا ہیں ، ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنا، ملنا اور ان کے دکھ درد بانٹنا یہ ڈاکٹر امجد ثاقب کا ہی اعزاز ہے۔


قارئین کرام !معاشرے میں بڑھتے ہوئے ذہنی امراض ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔ ہر 10افراد میں سے ایک فرد زندگی میں ایک بار کسی نہ کسی مرض سے دوچار ہو سکتا ہے ۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ذہنی امراض کے اسباب ہر انسان کے دماغ میں کسی نہ کسی حد تک موجود ہوتے ہیں ۔جن پر یہ اسباب مختلف وجوہات کی بنا ء پر غالب آجاتے ہیں وہ اس مرض سے بہت جلد مغلوب ہو جاتے ہیں ۔

اس طرح وہ دوسروں کا بوجھ اٹھانے کی بجائے خود دوسروں پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ایک صحت مند انسان کو ذہنی مرض میں مبتلا ہو نے کے لئے صرف 30سیکنڈ در کار ہوتے ہیں ۔آئیے ! ذہنی امراض میں مبتلا ان لوگوں ،جنہیں ان کے اپنوں نے بے یار ومددگار چھوڑ دیا ہے کہ لئے معاون بنیں اور ماہ مقدس کی ان ساعتوں میں اپنے مال میں سے کچھ رقم ان کے لئے مختص کریں۔ خدا نخواستہ ، اگر کل ہماری زندگی میں بھی یہ 30سیکنڈ آجائیں تو کم از کم ہم نے کچھ تو زاد راہ اپنے لئے جمع کیا ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :