عید۔۔ ( احساس کی یا نمو کی )

ہفتہ 2 جولائی 2016

Maria Paras Umair

ماریہ پارس عمیر

عیدالفطر قریب آ تی ہے تو ہر طرف عید سے پہلے ہی عید کا سماں بندھاجاتا ہے۔ عورتیں دن بھر بازاروں میں خریداری کرتی نظر آتی ہیں گھروں میں بہت ایتمام سے سحروافطار کی تیاری کی جاتی ہے ۔طرح طرح کے ملبوسات بنائے جاتے ہیں۔ رنگ برنگ جوتے اور جیولری وغیرہ ایک بڑی تعداد میں خریدلی جاتی ہے۔ عزیزوں دوستوں کو تحفے تحائف دئے جاتے ہیں۔
جیسے ہی چاند رات آتی ہے شاپنگ کا زور عروج پر پہنچ جاتا ہے۔

مہندی لگائی جاتی ہے ست رنگی کھانے تیار کیے جاتے ہیں اور رات دیر تک جاگ کر چاند رات منائی جاتی ہے۔
اگلے دن عید پورے اہتمام کے ساتھ منائی جاتی ہے، رنگ برنگی مٹھیائیاں خرید کر لائی جاتی ہیں، پکوان پکتے ہیں ، عزیزوں رشتہ داروں کے ہاں دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، نئے نئے شوخ و شنگ لباس پہنے جاتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں، دعوتیں اڑائی جاتی ہیں اور عیدانجوائے کی جاتی ہے۔

(جاری ہے)


ایسے میں ایک چیزجو ہر کوئی بھول جاتا ہے یا کہیں لپیٹ کر کسی پرانی دراز میں رکھ دیتا ہے ۔ وہ ہے ’احساس‘ کسی غریب کی غربت کا احساس، کسی بھوکے کی بھوک کا احساس کسی یتیم کے لباس کا احساس۔۔۔۔۔
سوال یہ ہے کہ رمضان کا مقصد کیا ہے؟؟؟ پورا مہینہ دن کے ایک بڑے حصے تک بھوکے رہنے کا مقصد ؟؟؟ کیا روضے کا مقصد صرف بھک کاٹنے تک محدود ہے ؟ قرآن اور اسلام کی تعلیمات کی رو سے دیکھا جائے تو روضے کا مقصد اللّہ کی عبادت کے ساتھ ساتھ اپنے جیسے لیکن غریب یتیم اور بھوکے انسانوں کی بھوک کا احساس ہے تاکہ ہم انکی بھوک کا احساس کر کے آن کیلے روٹی کپڑے اور مکان کا اہتمام کر سکیں۔

۰۰۴۱ سال پہلے حضورﷺ عید کی نماز پڑھنے آپنے گھر سے نکلے تو ایک روتے یتیم بچے کے سر پر دست شفقت رکھ کر لے آے اور آپنی فرزندی میں لے لیا۔
مگر آج کے دور میں دیکھا جائے تو غریب یتیم بچے سڑکوں پر بوٹ پالش کر رہے ہیں۔ کوئی چھابڑی لگائے چھوٹی موٹی چیزیں فروخت کر رہا ہے اور کوئی چھڑی پر گجرے ٹانگے پھول بیچ رہا ہے۔اور صاحب ثروت بنی آدم بہت آرام سے جوتے صاف کروا کر انہیں ٹھوکرلگاتے بڑھ جاتے ہیں۔

ہر کسی غریب کی کوئی احساس نہیں کرتا۔۔۔
احساس کر اپنے جیسے انسان! احساس کر کسی غریب کا! احساس کر کسی کسی کی بھوک کا! احساس کر کسی یتیم کے پٹھے لباس کا! احساس کر کسی کے کچے مکان کا!!
اے بنی آدم احساس کر!!! تاکہ اس دنیا کا حسن قائم رہ سکے اور ابن آدم مزید زوال سے اور پاتال میں گرنے سے بچا رہے۔۔۔!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :