ایدھی صاحب!

بدھ 13 جولائی 2016

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

ایدھی صاحب ایک معنی میں ہمارے پڑوسی تھے۔ ایدھی ہوم سہراب گوٹھ ہمارے مدرسے کے ساتھ بالکل متصل واقع ہے۔ہم نے کراچی سے دوہزار کلومیٹر دور چترال کے پہاڑوں میں اسکول کی تعلیم کے دوران ہی ایدھی صاحب کے نام اور کام کے بارے میں سن رکھا تھا اور ریڈیو پر ان کا ایک انٹرویو بھی سناتھا جس میں ان کا تعارف ”مولانا عبد الستار ایدھی“ کے نام سے کرایا گیا تھا اور ہمارے ذہن میں ایک بزرگ عالم دین کا خاکہ تشکیل پاگیا تھا۔

کراچی آئے تو یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ایدھی صاحب کبھی کبھار ہمارے مدرسے کی مسجد میں نماز پڑھنے آتے ہیں اور اساتذہ و طلبہ سے ملتے بھی ہیں۔پہلی بار ایدھی صاحب کو دیکھا اور ہاتھ ملایا تو یقین نہیں آیا کہ یہ وہی شخصیت ہیں جن کا نام اتنا زیادہ مشہور و معروف ہے۔

(جاری ہے)

ان کے لباس،چال ڈھال اور گفتگو میں ایتنی سادگی تھی کہ کسی مجذوب دیوانے کا گمان ہوتا تھا۔

معلوم ہوا کہ ایدھی صاحب دینی تعلیم تو درکنار عصری تعلیم سے بھی نابلد ہیں اور ان کے بعض خیالات کی وجہ سے دینی حلقوں میں انہیں دہریہ سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم نے ایدھی صاحب کو متعدد بار علماء کے سامنے دست بستہ پایا اور کئی شہید علماء کے جنازے کے ساتھ ساتھ افسردہ افسردہ چلتے دیکھا ۔بیچ میں صرف ایک دیوار کا فاصلہ ہونے کے باوجود کبھی ہمارے مدرسے اور ایدھی سینٹر کے درمیان کسی بھی معاملے پر کوئی غلط فہمی پیدا نہیں ہوئی۔

کئی دفعہ ایمرجنسی میں مدرسے کا ڈاکٹر دستیاب نہ ہونے پر ہم طلبہ ایدھی سینٹر میں موجود ڈاکٹر کے پاس جاتے ۔
بعد میں ایدھی صاحب نے ایدھی ہوم کے اندر مسجد بنوائی اور ان کا ہمارے مدرسے میں آنا کم ہوا لیکن ہم نے ہمیشہ انہیں اسی حلیے میں عام رضاکاروں کی طرح کام کرتے دیکھا۔وہ ایدھی ایمبولینس کی اگلی سیٹ پر بیٹھے دکھائی دیتے اور ایدھی سرد خانے میں میتوں کے غسل کے موقع پر بھی موجود رہتے۔

سنا ہے کہ انہوں نے 60ہزار سے زائد میتوں کو خود اپنے ہاتھ سے غسل دیا۔ جہاں تک ہم نے دیکھا ہے، ایدھی سرد خانے میں مسلمان میتوں کے غسل اور تکفین و تجہیز میں مکمل اسلامی طریقے کا لحاظ رکھا جاتا ہے اورمیت کی تکریم کی جاتی ہے۔
نام و نمود اور پروٹوکول کے وہ قائل نہیں تھے۔ ان کی یہی ادا کراچی کے عوام کو پسند تھی اور اسی وجہ سے لوگ ان پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کرتے تھے کیونکہ لوگوں کو پتا تھا کہ یہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں ،اپنی ذات کے لیے نہیں کر رہے۔

ایدھی صاحب نے ہمیشہ انسانیت کی بات کی اور انسانیت کی بے لوث خدمت کے حوالے سے پوری دنیا میں نام کمایا۔انسانیت آج انہیں ان کی خدمات کا صلہ زبردست خراج تحسین پیش کرکے ادا کر رہی ہے اور کرتی رہے گی۔
نیتوں کا حال اللہ ہی جانتا ہے، اگر ایدھی صاحب نے یہ سب کام اللہ کی رضا کی خاطر ایمان اور عقیدے کی بنیاد پر کیا ہے تو میرے خیال میں ان کی نیکیوں کا کھاتا بہت سے دوسروں کے مقابلے میں یقینا بہت بڑا ہوگا۔

جہاں تک ان کے بعض متنازع خیالات اور بیانات کا تعلق ہے تو اس حوالے سے یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ایدھی صاحب ایک ناخواندہ انسان تھے۔ان کی ایسی باتوں کو جو بہت دفعہ میڈیا کے تیر طرار نمایندے محض سرخیاں بنانے کے لیے ان سے کہلوانے کی کوشش کرتے تھے، علم و دانش کی کسوٹی پر ہرکھنے کی بجائے ان کی کم علمی اور ناواقفیت پر ہی محمول کرنا چاہیے۔

یہی وجہ ہے کہ کبھی کسی سنجیدہ عالم یا مفتی نے ایدھی صاحب کی کسی بات پر ان کے خلاف کوئی سخت فتوی نہیں دیا۔
ایدھی صاحب کی شخصیت کا اصل حوالہ ان کی سماجی خدمات ہیں ،اس حوالے سے ان کے کردار کا انکار سچائی سے انکار ہوگا۔ کراچی میں رہنے والا شاید ہی کوئی شخص ایسا ہوگا جس نے ایدھی صاحب کی رفاہی خدمات سے بالواسطہ یا بلا واسطہ فائدہ نہ اٹھایا ہو۔

ایدھی صاحب کو نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں انسانیت کے بے لوث خادم کے طور پر جانا جاتا ہے اور یہ ایک ایسی بات ہے جس پر ہر پاکستانی فخر کرسکتا ہے اور ایدھی صاحب کا یہ اعزاز ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔
لیکن یہ بات یہیں تک ہی ٹھیک ہے۔ اس سے ہٹ کر ایدھی صاحب کو کوئی فرشتہ، بہت بڑا مفکر،مسیحا یا نجات دہندہ قرار دینا بھی سراسر مبالغہ ہے۔

ہمیں ہر حال میں اعتدال میں رہنا چاہیے۔ ہمارے ہاں مشکل یہ ہوگئی ہے کہ ہم چیزوں کو بلیک اینڈ وہائٹ میں ہی دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ہم کسی کو ماننے پر آتے ہیں تو تمام عیوب سے پاک سمجھنے لگتے ہیں اور کسی کی مخالفت پر آئیں تو اس کی ہر اچھائی کو بھی برائی بناکر پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ کچھ حلقے ایدھی صاحب کی وفات کے بعد ان کو شیطان کا بھائی ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ،اور کچھ مخصوص طبقات صرف مولویوں کی مخالفت پر مبنی ایدھی صاحب کے ایک دو جملوں کو لے کر اپنا لبر ل ازم کا لچ تلنے میں مصروف ہیں۔اس طرح کے رویے ہمیں جادہ اعتدال سے دور لے کر جارہے ہیں اور ہم ایک منتشر قوم بنتے جارہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :