کیا ایدھی زندیق تھے ؟

اتوار 17 جولائی 2016

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

”لوگ خیرات زندیق کے ادارے کو دیتے ہیں ۔جو کہتا ہے میں انسانیت کی خدمت کرتا ہوں ، صدقے کے بکرے وہاں دیتے ہیں ، اور ہم جو قرآن و سنت یہاں بیٹھ کر پڑھاتے ہیں اور عرب و عجم کے طلبا مسافر ہیں یہ کام اس کو نظر نہیں آتا۔ اس نے پنگھوڑا ڈالا ہے کہ عورت زنا کرکے بچہ یہاں ڈال دے میں اس کوپالوں گا ۔آپ کے خرچے پر حرامیوں کی تربیت ہورہی ہے آپ کی زکوة اور صدقے سے، نمازی اور ہیرونچی ، مسلم اور غیر مسلم ،مرزائی اور قادیانیوں کا علاج معالجہ جاری ہے “۔

یہ ارشادات ہیں حضرت علامہ مفتی محمد زرولی خان کے جو انہوں نے کافی عرصہ پہلے عبدالستار ایدھی کے بارے میں ارشاد فرمائے تھے لیکن میری بدقسمتی ہے کہ میں نے کل ہی فیس بک پر انہیں سنا ہے ۔ (یاد رہے کہ زندیق کافر یا ملحد کو کہتے ہیں جو خدا پر یقین نہیں رکھتا اور فارسی میں اس لفظ کا مطلب ہے دو خداوٴں پر یقین رکھنے والا)۔

(جاری ہے)

حضرت علامہ مفتی محمد زرولی خان چونکہ ایک جید عالم ہیں اور ایک زمانہ ان کے علم وفضل اور تقوی کا معترف ہے اور اس حیثیت میں مستند ہے ان کا فرمایا ہوا اس لئے ان کا یہ ایمان افروز بیان سن کر مجھے خود پر بہت شرمندگی ہور ہی ہے کہ میں تو ایدھی کو ایک بھلا مانس اور انسانیت کا خادم سمجھتا رہا۔

اور اسی بھول میں مجھ جیسا گناہ گار شخص ان کی مغفرت اور بلندی درجات کے لئے دعا بھی کر بیٹھا ۔ لیکن یہ راز تو مجھ پراب کھلا کہ ایدھی نام کا ایک پاگل سا انسان جوکراچی میں رہتا تھا، نہ نہاتا تھا نہ ڈھنگ کا کھاتا تھا،جب بھی دیکھو پسینے کی بو میں رچے ملیشیا کے قیمض شلوار میں پھٹے پرانے جوتے پہنے غریب پاکستانی عوام سے پیسے بٹورتا رہتا تھا ،شام کو لکڑی کے ایک سادہ پھٹے پر سو جاتا تھااور صبح اٹھ کر پھر پیسے بٹورنے پر لگ جاتا تھاحقیقت میں کوئی مسیحا نہیں ۔

حضرت زرولی کے یہ ارشادات سننے سے پہلے میری بدقسمتی ہے کہ میں سنی سنائی باتوں پر یقین کر بیٹھا اور لاکھوں کروڑوں جاہلوں کی طرح میں بھی ان کو ایک مسیحا سمجھتا رہا۔ ایک صحافی کے طورپر عوام کو سچی خبریں دینا میرا فرض ہے لیکن میں اس قدر لاعلم انسان ثابت ہوا کہ برسوں اسی غلط فہمی میں مبتلا رہا کہ یہ شخص صحیح معنوں میں انسانیت کی خدمت کر رہا ہے ۔

ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ مجھے حضرت علامہ مفتی محمد زرولی خان جیسے جید علماء اور نیک لوگوں کی صحبت میسر نہیں آئی ۔
میں زندگی میں صرف ایک بار عبدالستار ایدھی سے ملا لیکن ان سے یہ نہ پوچھ سکا کہ مجھ جیسے کروڑوں نام کے مسلمانوں کی طرح وہ بھی پانچ وقت مسجد میں ٹکریں کیوں نہیں مارتے ؟کیوں انہوں نے اوریا مقبول جان سے کہا کہ ”آپ کا دل رکھنے کیلئے کھڑا ہوجاتا ہوں لیکن میں اسے کوئی چیز نہیں سمجھتا“مجھے یہ خیال بھی نہ آیا کہ میں ان سے پوچھوں کہ اسلام میں چھٹا رکن گھسیڑنے کی گستاخی انہوں نے کیسے کی ؟بھوکا انسان فاقوں پر مجبور ہوجائے تو مردار کھا لے ، اس سے کون سے قیامت آجاتی ہے ؟ کم از کم مذہب کی شان تو سلامت رہتی ہے ۔

میں نے ان سے یہ بھی نہ پوچھا کہ سالہا سال بلکہ دہائیوں تک ثابت نہ ہو سکنے والے الزامات کی بنیاد پر کسی کو شیطان قراردینا کہاں کی انسانیت ہے ؟میں نے ان سے یہ بھی نہ پوچھا کہ مکہ میں شیطانوں کو کنکریاں مارنے سے انکار کر کے انہوں نے جو کفر کیا اس کا ازالہ وہ کیسے کریں گے ۔ ایک ادنی ٰصحافی کے طور پر میں یہ جانتا ہوں کہ اس ملک کے لاکھوں کروڑوں افراد ایدھی پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے انہیں دل کھو ل کر عطیات دیا کرتے تھے ۔

ایک صحافی کے طور پر بہت سے حادثات اور بم دھماکوں کی کوریج کرتے ہوئے میں نے یہ بھی دیکھا کہ ایدھی کی ایمبولینسز آتی ہیں اور زخمیوں اور لاشوں کو اٹھا کر فورا ہسپتال لے جاتی ہیں ۔ ایدھی کا جاہل عملہ مریضوں سے یہ بھی نہیں پوچھتا تھا کہ وہ مسلمان ہیں یا غیر مسلم ،بس انسانیت کے جذبے سے ان کو اٹھاتے اور ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کے حوالے کر کے ایک بار پھراپنے کام میں مصروف ہوجاتے ۔

بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک خدا پر ایمان رکھنے والوں کی حلال کمائی کسی کافر پر خرچ کی جائے ۔ زخموں سے چور مرتے ہوئے لوگوں سے یہ تو پوچھو کہ وہ مسلمان ہیں یا کافر،کافر مرتا ہے تو مرے جو شخص ہمارے خدا پر ایمان ہی نہیں رکھتا ہمیں کیا پڑی ہے اس کی جان بچاتے پھریں ۔ اور ہاں حرامی بچوں کو تو پیدا ہوتے ہی قتل کردینا چاہیے ۔ حلا ل کی کمائی حرامی بچوں پر خرچ کرنے کا جواز کیا ہے ؟کیا ہوا جو ایک مرد حرام کاری کی غلطی کر بیٹھا ،اب عورت کو یہ حق تو نہیں دیا جاسکتا کہ وہ نو مہینے تک اس حرام کاری کی پرورش کرے اور پھر حرام کاری کے اس اشتہارکو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دے ۔

یہ عورت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حرام کاری کو چھپائے اور اس پاک صاف دنیا کو ایک ”حرامی بچے “ کے ناپاک جسم سے آلودہ نہ کرے ۔ ایک صحافی کے طور پر میں ان سے یہ سوالات کرنے میں حق بجانب ہوتا لیکن بدقسمتی سے میں اپنا یہ فرض ادا نہ کرسکا ۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی مجھے میری اس غلط سوچ کے کفارے کی توفیق عطا کرے ۔
بات ہورہی تھی حضرت علامہ مفتی محمد زرولی خان کے ارشادات کی جنہیں عبدالستار ایدھی نے ایک بار کسی بیمار کی صحت یابی کے لئے دعا کی درخواست کی تو مفتی صاحب نے فرمایا ”میں تو لعنت کرتا ہوں آپ کے اوپر،میں کیوں دعا کروں گا؟ آپ تو دشمن خدا اور دشمن رسول کی خدمت کر رہے ہیں “۔

حضرت کا یہ ارشا د سننے کے بعد میری نظر سے ایک حدیث پر پڑ گئی ۔ صحیح بخاری کی اس حدیث میں لکھا ہے کہ ”رسول کریم ﷺکا ایک خادم یہودی تھا جو بیمار ہو گیا۔ رسول کریم ﷺاس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ ترمذی کی ایک حدیث کے راوی حضرت ابوہریرہ ہیں جس کے مطابق رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک کافر آیا تو انہوں نے اس کے لئے ایک بکری منگوائی اور اس کا دودھ دوہا گیا۔

وہ اس کا دودھ پی گیا۔ پھر ایک دوسری منگوائی گئی اور اس کا دودھ دوہا گیا تو اس نے اس کا دودھ بھی پی لیا۔ پھر ایک تیسری بکری منگوائی گئی تو وہ اس کا دودھ بھی پی گیا۔ حتیٰ کہ وہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا۔اب میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ ایک زندیق کا کیا کام ہے کہ وہ بیماروں کی تیمارداری کرے ،مسلمانوں کا مال حرامیوں کی تربیت اورغیر مسلم ضرورتمندوں پر خرچ کرے یہ تو حضرت علامہ مفتی محمد زرولی خان جیسے مومنوں کا کام ہے لیکن ان مومنوں کوکفر کی فیکٹریاں لگانے سے فرصت ملے تو پھر اس بارے میں سوچیں گے، ویسے بھی قوم کون سا ان کو زکواة ،خیرات یا صدقے کے بکرے دیتی ہے۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں !اخلاص اور محبت میں گندھی دیوبند کی تحریک ایسے زرولی جیسے مفتیوں کے ہتھے چڑھنے کی بجائے ایدھی جیسے کسی زندیق کے ہاتھ لگ جاتی تو شائد ہمارا معاشرہ تفرقہ بازی کے جہنم میں جلنے کی بجائے آج بھی امن ،محبت اوررواداری کی جنت ہوتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :