سیلاب کا اندیشہ اور حکومت کی نااہلی

اتوار 17 جولائی 2016

Gulfam Pasha

گلفام پاشا

پِچھلے کئی سالوں سے ہم دیکھتے آ رہے ہیں کہ ہمارا مُلک بہت سارے مسایٴل کا شِکار ہے جس کی وجہ سے عوام کو بہت سی مُشکِلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ برسوں میں جس بھی سیاسی قیادت نے منظرِ عام پر آ کر مُلک کی باگ ڈور سنبھالی، اُن کا کام محض شو بازی سے زیادہ نہیں رہا۔ ہمارے مُلک کے ہر فرد کو اس بات کا شعوُر رکھتا ہے کہ ہمارا مُلک جن مسایٴل سے دوچار ہے ان میں سے کُچھ مسایٴل ایسے ہیں کہ جن کے حل کے بغیر گزارہ مُمکِن نہیں ۔

لوڈشیڈنگ، شارٹ فالنگ، بے روزگاری، نظامِ تعلیم، اور صحت جیسے مسایٴل نے ہمارے مُلک کو گھیر رکھا ہے۔جس کے حل کے بغیر دورِ حاضِر میں کوئی بھی مُلک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ان سب مسایٴل کے علاوہ ہمارے مُلک میں جو مسیٴلہ بدترین صورتحال اختیار کر رہا ہے وہ ہے سیلاب اور تمام صاحبِ عقل اس بات کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ تمام صُورتحال کے بارے ہونے والی موسمی پیش گویٴوں کے باوجود بھی اس کا حل نا نکال پانا سب سے بڑی نا اہلی ہے۔

(جاری ہے)

اگر عوام اس بات کو حکمرانوں کی نااہلی نہیں سمجھتی تو اس عوام کو ابھی اور ذلت اُٹھانی پڑے گی اور ابھی مزیدگھر اُجاڑنے ہوں گے۔ ہر سال ہمارا مُلک سیلاب کی زد میں آتا ہے۔ ہر سال ناجانے کتنے لوگ گھروں سے بے گھر ہو کر در بدر کی ٹھوکریں کھانے پرمجبُور ہو جاتے ہیں۔ کیا اِن بڑے مسایٴل کے حل کی ذمہ داری حکمرانوں پر عایٴد نہیں ہوتی ؟ ہاں ، شایٴد نہیں ہوتی کیونکہ اِن کے اپنے گھر سیلاب کی زد میں نہیں آتے۔

اِن کے بچے گھروں سے بے گھر نہیں ہوتے۔ اِن کو در بدر کی ٹھوکریں نہیں کھانا پڑتیں۔ تو اِن لوگوں میں دُوسروں کے لیٴے ہمدردی اور درد کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔ہر بار کی طرح اِس سال بھی کئی علاقے سیلاب کی نظر ہو جائیں گ۔ غریب عوام کا مال مویشی سب سیلاب میں بہہ جایٴے گا۔ اِن حُکمرانوں میں سے کُچھ مُنافقت کی عملی صُورت بَن کر منظرِ عام پر نموُدار ہوں گے اور چند منٹ سیلاب کے پانی میں کھڑے ہو کر تصاویر اُتروائیں گے ، غریب لوگوں کو جھُوٹی تسلیاں دینے کے بعداپنی بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر اپنے اپنے پُرتعیش محلوں میں واپس لوٹ جائیں گے اور پھر سے اپنی توجہ سڑکیں اور پُل بنانے کی طرف مرکوز کر دیں گے۔

بے حسی اور نا اہلی کا یہ عالم ہے کہ اِ ن کادھیان سڑکوں اور پُلوں کے علاوہ کہیں پر جاتا ہی نہیں اور یہ بات کہنے میں کوئی عار محسوُس نہیں ہو رہی کہ ہمارے حُکمران وہ دُکاندار ہیں جو اپنے نفع کے علاوہ کُچھ نہیں سوچتے۔ جس مُلک کے حُکمران اپنے گھروں کے واش رُوم پر خُون پسینے کی کمائی صرف کردیتے ہوں اُن کا غریب عوام سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ اگر ہم اسی طرح چُپ چاپ حُکمرانوں کے ظُلم سہتے رہیں تو ہماری آنے والی نسلیں بھی اِن کی غُلام ہی رہیں گی۔
اَب تو عطاء کردے کوئی مردِ حق یارب
جلتے خیموں سے یہ لوگوں کی صدا آتی ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :