پیر فضل حق کے جواب میں

جمعہ 22 جولائی 2016

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

سواد اعظم اہل سنت کے حوالے سے ایک بات بڑے شدومد سے کیساتھ کہی جاتی تھی کہ اس مکتبہ فکر کے لوگ پاکستان کے نظریاتی محافظ ہونے کے ساتھ ساتھ افواج پاکستان کے سب سے بڑے حامی اورمعاون ہیں اور یہ بات کئی مواقع پر ثابت ہوئی کہ بے شمار آلام کے باوجود انہوں نے ہمیشہ صبروتحمل‘ برداشت اور اخلاص کامظاہرہ کیا جس کی وجہ سے عمل کے نتیجہ میں شدید ردعمل سامنے نہ آسکا اور اس عمل کی وجہ سے ملک کئی نقصانات سے بچا رہا اس دور کو علامہ احمد سعید کاظمی ‘قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمدنورانی صدیقی ‘ مجالد ملت مولاناعبدالستار نیازی کے نام سے یاد کیاجاتا ہے اگرتحریک پاکستان سے قبل کی بات کی جائے تو پیر سید جماعت علی شاہ کانام نامی اسم گرامی سامنے آتا ہے جنہوں نے حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کو اپنی اور اہل سنت کی طرف سے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی اور پھراس پر عمل بھی کرکے دکھایا۔

(جاری ہے)

خیروہ ماضی کی کہانیاں ہیں آج کے قصے کچھ مختلف دکھائی دیتے ہیں کیونکہ آج سواد اعظم اہل سنت کئی چھوٹے بڑے گروپوں اور جماعتوں میں تقسیم ہے ہرگروہ کی اپنی زبان اپناموقف اپناطرزعمل ہے جس کالازمی نقصان اہل سنت کو پہنچ رہا ہے دوسری جانب نظریہ پاکستان کی حفاظت کی جو ذمہ داری اس طبقہ کے سر تھی انہوں نے اس سے صرف نظر کرنا شروع کردیا ہے جس کے اثرات آج ملک میں واضح نظرآرہے ہیں دوسری جانب اندرونی بیرونی دشمنوں سے لڑائی میں افواج پاکستان کی حوصلہ افزائی کاباعث بننے والے اہل سنت آج کچھ مختلف روئیے کے حامل بن چکے ہیں‘ جس کا عملی مظاہرہ گذشتہ روز ایک احتجاجی ریلی کے دوران سامنے آیا جب پیر فضل حق نامی اہل سنت قائد نے جنر ل راحیل شریف کے حوالے سے غلیظ اور انتہائی قابل اعتراض زبان استعمال کی انہیں اعتراض اس مد میں تھاکہ راحیل شریف افواج پاکستان کے جرنیل ہیں انہوں نے ایدھی جیسے گندے اورغلیظ بندے کے تابوت کو سلیوٹ کیوں کیا ؟؟موصوف کا غصہ آسمان کو چھوتا نظرآیا اور یہ دیکھے اورسوچے بنا کہ ان کے یہ لفظ بذات خود ان کے اسلاف کے نظریات کی توہین کررہے ہیں۔

ان کے پہلو میں بیٹھے مفتی خادم حسین بھی چند ماہ قبل ممتا ز قادری کی شہادت پردئیے جانیوالے دھرنے میں ایسی ہی زبان کی وجہ سے میڈیا میں تنقید کا نشانہ بنتے رہے بلکہ سیاسی جماعتوں کے قائدین تک نے کہہ دیا کہ ایسی زبان تو ہم نے کبھی کسی کے لئے استعمال نہیں کی جیسا کہ مفتی موصوف فرمارہے ہیں۔پیر فضل حق ‘مفتی خادم حسین کو اکابرین اہل سنت میں ممتاز مقام حاصل تھا مگر اب یہ مقام انہی کی اپنی زبان کی بدولت متنازعہ حیثیت اختیار کرچکا ہے۔


پیر فضل حق کی خدمت میں عرض کریں گے کہ جس ایدھی کو افواج پاکستان کی جانب سے شاندار انداز میں الوداعی خراج تحسین پیش کیا گیا وہ صرف انسانیت کی خدمت پریقین رکھتاتھا اس نے یہ دیکھے بنا کہ جس کی وہ خدمت کررہا ہے وہ مسلمان ہے یا عیسائی ‘یہودی ہے یاہندو یا پھر کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھتا ہے اس نے حادثے میں زخمی ہونیوالے کسی بھی شخص کو ایمبولینس میں بٹھانے سے پہلے نہیں پوچھا کہ تم مسلمان ہو یا غیر مسلم یا پھر اگر مسلمان ہوتو پھر سنی ہو یاشیعہ‘ یااہل حدیث ہو یا دیوبندی اس نے انسان ہونے کے ناطے زخمی کو فوری طورپر ہسپتال پہنچاکر دم لیا۔

ایسا ہی جب کوئی مردو عورت اپنے گناہوں کے نتیجہ میں سامنے آنیوالے بچے کو ایدھی سنٹر کے دروازے پر چھوڑ جاتے تو کبھی ایدھی یا بلقیس نے اس بچے سے نہیں پوچھا کہ بیٹا مسلمان ہو یا غیر مسلم یا پھر بڑے ہوکر سنی بنو گے یا شیعہ یا دیو بندی۔ اس کا ایک ہی مشن تھا کہ انسانیت کی خدمت کرنا ۔بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ایدھی نے بعض ایسے لوگوں کی خدمت بھی کی جو کسی قابل اعتراض فرقہ سے تعلق رکھتے تھے ‘ ان کی اصلاح کیلئے عرض ہے کہ نبی کریم سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کرلیجئے ‘ منبر پر بیٹھا کوئی بھی عالم دین بخوبی بتاسکتا ہے کہ نبی رحمت ﷺ کو ”محسن انسانیت“ یا پھر ”رحمت للعالمین کیوں کہاجاتا ہے حالانکہ وہ تو ان لوگوں کیلئے باعث رحمت ہونا چاہیں تھے یا پھر انہیں محسن اسلام کہنا چاہیئے تھا (پیر فضل حق جیسے لوگوں کے عقیدے کے تناظر میں) مگر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تو پورے عالمین کیلئے رحمت بن کر آئے عالمین میں انسان چرند پرند‘ حیوانات ‘درخت آسمان زمین سبھی شامل ہیں۔

آپﷺ نے تکالیف ‘ایذابرداشت کیں مگر ان کے زبان سے ایک لفظ بھی ایسا نہیں نکلا جس سے کسی کو تکلیف ہو۔ رہی بات ایدھی کی تو انہوں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے انسانیت کی خدمت کافریضہ انجام دیا جس کی وجہ سے دنیا انہیں خادم انسانیت کے نام سے جانتی ہے۔ اسی ضمن میں راحیل شریف کی خدمات کو بھی خراج تحسین پیش کرنا ہوگا کہ انہوں ایسے وقت میں افواج پاکستان کی کمان سنبھالی جب منور حسن جیسے مذہبی دانشور کے قابل اعتراض فتوؤں کی وجہ سے فوجی جوان پریشانی کا شکارتھے موصوف نے طالبان کے مقابل لڑکر مارے جانیوالے پاکستانی فوجیوں کو شہید ماننے سے انکارکردیاتھا ۔

راحیل شریف نے نہ صرف افواج پاکستان کا مورال بلند کیا بلکہ دہشتگردی کے ناسور کوکچلنے کیلئے ابھی تک کردار اداکررہے ہیں۔ آج انہی کی بدولت افواج پاکستان دنیا کی دس بہترین افواج میں شامل ہوچکی ہے۔ یقینا پیر فضل حق بین الاقوامی میڈیا سے وابستہ ہوتے یا انہیں اس کی خبر ہوتی تو وہ اپنے منہ سے قابل اعتراض جملے نہ نکالتے۔ دوسری جانب ہم مفتی خادم حسین اورپیر فضل حق جیسے اکابرین کی خدمت میں یہ ضرور عرض کریں گے کہ خدارا اپنے اسلاف کی زندگیوں سے سبق سیکھیں‘ کسی کو گالی دیکر آپ کسی کا دل نہیں جیت سکتے ۔ دل جیتنے کیلئے کبھی کبھار شکست بھی قبول کرنا پڑتی ہے۔ گویا یہ ہار بھی جیت کا باعث بن جاتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :