رینجرز اختیارات ا ور ٹال مٹول

جمعہ 22 جولائی 2016

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

کراچی منی پاکستان ہے اس میں پاکستان کیا پوری دنیا کے مسلمان ملکوں کے لوگ رہائش پذیر ہیں۔ اس لحاظ سے کراچی ایک منی مسلم ملک ہے۔کراچی پاکستان کی معاشی حب بھی ہے۔ کراچی پاکستان کو ۷۰ /فی صد ریونیو کما کر دیتا ہے۔پاکستان کے دشمنوں نے اسے تباہ برباد کرنے کی اسکیم بنائی ہوئی ہے۔ دشمن اسے ہمیشہ ڈسٹرب رکھنا چاہتا ہے جس میں دشمن کسی حد تک کامیاب بھی ہوا ہے۔

جب افغان جہاد کی برکت سے روس کے تتر بتر ہونے ،یورپ اور وسط ایشیا کی مسلم ریاستیں سفید ریچھ سے آزاد ہوئی تھیں توا مت مسلمہ کے عظیم دانشورا ورکراچی کے شہید حکیم سعید نے اپنے ایک خطاب میں تاریخی فقرے کہے تھے کہ” مسلمانوں! اللہ نے ایٹم بم تمھارے ہاتھوں میں دے دیا۔ اب تمھارا ظرف ہے کہ تم اپنے مفادات اور ترقی کے لیے اسے کیسے استعمال کرتے ہو“ حکیم سعید کا اشارہ مسلم ریاست قازقستان کی طرف تھا جو سابقہ روس کی ایٹمی ذخاہر سے مالا مال ریاست تھی۔

(جاری ہے)

اُن کی عقابی نظروں نے سمجھ لیا تھا کہ ان وسط ایشیائی مسلم ریاستیں کراچی کی بندر گاہ کو اپنے مال آزاد دنیا میں فروخت کرنے کے لیے استعمال کریں گی تو پاکستان اور ان ریاستوں کے لیے ترقی کے دروازے کھلے گے اور ایٹمی قوت کو یہ اپنے سیاسی استحکام کے لیے استعمال میں لائیں گے۔ مگر ایک بین الاقوامی سازش کے تحت امت مسلمہ کے اس دانشور کی اس سوچ سے فائدہ نہیں اُٹھانے دیا اور دشمنوں نے انہیں کراچی میں دن دھاڑے انکے مطب کے باہر شہید کر کے کراچی کو لہو لہان کر دیا گیا ۔

لسانی فسادات،آئے دن کی ہڑتالوں،ٹارگٹ گلنگ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان نے کراچی کو کہیں کا چھوڑا۔ ضرب عضب کی وجہ سے دہشت گردوں نے کراچی کا رخ کیا اور رہی سہی کسر پوری کی اور کراچی خوف کے سائے میں دبا رہا۔ پھرپاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے کراچی بدامنی پر از خود نوٹس لیا اور کہا کہ سیاسی پارٹیوں کے عسکری ونگ بھی اس میں ملوثہیں۔اس کے بعدسندھ حکومت کی درخواست پررینجرز کو کراچی میں امن و امان قائم کرنے کے لیے قانون کے مطابق اختیارات سونپے گئے۔

رینجرز نے ٹارگیٹڈ آپریشن کے تحت بلاتفریق کلعدم تنظیموں، جن میں خاص کر تحریک طالبا ن پاکستان، القاعدہ اور سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ کے لوگوں کو پکڑ کر قانون کے حوالے کرنا شروع کیا۔ تو کراچی میں امن و امان کی حالت بہتر ہوئی۔تحریک طالبان اور القاعدہ کے لاتعداد دہشت گرد پکڑگئے ان کو جیلوں میں ڈالا گیا مگر پاکستان کے قانون میں کچھ کمزریوں کی وجہ سے ان دہشت گردوں کی ضمانتیں منظور ہوتی ہیں اور وہ باہر نکل کر وہ پھر دہشت گردی کی وار داتیں کرنے لگتے تھے۔

پاکستان میں بین الالقوامی مجبوریوں کے تھے مجرموں کو موت کی سزا بھی رکھی ہوئی تھی۔آرمی پبلک اسکول پشاور میں تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے دہشت گرد حملے اور معصوم بچوں کی شہادت کے بعد تمام سیاسی پارٹیوں نے یک جان ہو کر بیس نکاتی ایکشن پالان طے کیا۔ پاکستان کی پارلیمنٹ اور سینیٹ نے فوجی عدالتوں کے قیام کا قانون پاس کیا اور اس کے تحت دہشت گردوں کو سزائیں ملنا شروع ہوئیں تو پاکستان میں امن و امان قائم کرنے میں بہتری آئی۔

دہشت گرد پاکستان کے مختلف علاقوں میں چھپنا شروع ہوئے جس میں کراچی بھی شامل ہے۔کراچی میں رینجرز کے ٹارگیٹڈ آپریشن نے دہشت گردی ختم ہوئی ۔کراچی کے عوام نے سکھ کا سانس لیا۔رینجرز دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو بھی گرفتار کر رہی ہے۔پچھلے سال بھی سندھ حکومت نے ڈاکڑ عاصم کی گرفتاری پر رینجرز کے اختیارات دینے میں معاملہ لٹکایا تھا۔

اس سال اسد کھرل کی قانون شکنی کی وجہ سے رینجرز کو اختیارات دینے میں ٹال مٹول سے کام لیا جارہا ہے۔حکومتی رویہ سے مایوس ہو کر ڈی جی رینجرز نے وفاقی وزیر داخلہ سے رابطہ قام کر کے صورتحال سے آگاہ کیا۔وزیر داخلہ نے رینجرز اختیارات میں توسیع کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ کو خط لکھ کر اپنے اختیارات استعمال کرنے کا کہا۔خط کے مندرجات کے مطابق اختیارات میں توسیع میں تاخیر سول آرمد فورسز کی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے۔

کراچی میں امن وامان کے لیے رینجرز نے کلیدی کردار اد کیا ہے۔ڈی جی رینجرز کو دزارت داخلہ نے کہا کہ وفاق اختیارات میں توسیع کے لیے اپنا آئینی و قانونی حق استعمال کرتا رہے گا۔ وزیر اعلی سندھ نے کہا ہے کہ ہم نے رینجرز کو کراچی میں امن وامان قائم کرنے کے لیے اختیارات دیے تھے اندرون سندھ کے لیے نہیں دیے تھے ۔رینجرز نے اپنے اختیارات سے تجاوز کر کیا ہے لاڑکانہ میں میں اسد کھرل کو گرفتار کرنے کی کوشش کی۔

حکومت سندھ کی کیسی عجیب منطق ہے کہ اگر مجرم کو کراچی میں گرفتار کرنے کے دوران مجرم اندرون سندھ بھاگ جائے تو اسے گرفتار کرنے کے اختیارات رینجرز کے پاس نہیں تو ایسے تو اندرون سندھ مجرم جمع ہونے شروع ہو جائیں گے اور امن و امان کیسے قائم ہو گا۔ حکومت سندھ ہر دفعہ ٹال مٹول سے کام لیتی ہے اب کہا جا رہا ہے رینجرز کو اختیارات دینے کے لیے اپنے چیئرمین سے اجازت لینا ہے۔

جو کبھی لندن اور کبھی دبئی میں ہوتے ہیں۔ سیاسی قیادت نے ہدایات دینے کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ کو ۲۲/ جولائی کو دبئی میں بلایا ہے ۔۲۰ /جولائی کی رات۱۲/ بجے رینجرز کے اختیارت کی مدت ختم ہو گئی تھی۔چا ہیے تو یہ تھا کہ حکومت سندھ ہفتہ پندرہ دن پہلے ہی سے اپنی سیاسی قیادت سے اجازت لے لیتی۔حالانکہ سندھ کی سیاسی قیادت کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ پہلے کیطرح اس دفعہ کوئی بھی سیاسی چال کامیاب نہیں ہو سکتی۔

وفاقی حکومت اور فوج دہشت گردی اور اس کے سہولت کاروں کو ختم کرنے کے لیے ایک پیج پر ہے۔ پوری قوم کا مطالبہ ہے کہ پاکستان اور کراچی سے دہشت گردی کو ہر قیمت پرختم کیا جائے۔ نا قابل تلافی اور بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہو چکاہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنی اپنی سیاسی مفادات کو ایک طرف رکھ کردہشت گردی اور کرپشن کے خاتمے کے لیے فوج کے شانہ بشانہ گھڑی ہیں۔ لہٰذا حکومت سندھ کو چاہیے کہ رینجرز کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فورناً اختیارات دے ورنہ وفاقی حکومت اپنے اختیارات استعمال کرنے پر مجبور ہو گی۔ سندھ حکومت کو چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے ہر دفعہ ٹال مٹول سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اس سے حکومت سندھ کی پاکستان میں بدنامی ہو رہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :