اس دور کے بیرسٹر سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے

اتوار 24 جولائی 2016

Ammar Masood

عمار مسعود

رات کے بارہ بجے ہیں ۔ کشمیر کے الیکشن کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج بڑی حد تک مکمل ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے واضح اکثریت سے میدان مار لیا ہے۔ پیپلز پارٹی حکومت میں ہونے کے باوجود رسوا ہو گئی ہے۔ تحریک انصاف کے دعوے ، وعدے اور نعرے کہیں پاتال میں دفن ہو گئے ہیں۔ ابھی تک کہیں سے دھاندلی کی آواز سنائی نہیں دی۔ انتخابات کی شفافیت کا یہ عالم تھا کہ ایک جسٹس صاحب کو اپنا اصل شناختی کارد پیش نہ کر سکنے کی پاداش میں ووٹ نہیں ڈالنے دیا گیا۔

ہر پولنگ سٹیشن پر فوج کا چاک و چوبند عملہ نہائیت فعال طریقے سے اپنی زمہ داریاں نبھا رہا تھا۔ توقع کے برعکس پولنگ کے دوران امن و مان کی صورت حال قابو میں رہی۔ کہیں کوئی اکا دوکا واقعات تو بد نظمی کے سنے گئے مگر مجموعی طور پر یہ مرحلہ خیر و خوبی سے طے پاگیا۔

(جاری ہے)

ان انتخابات کا سب سے بڑا سیٹ بیک پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار بیرسٹر سلطان محمود کی شکست رہا۔

بیرسٹر صاحب اس سے پہلے سات دفعہ الیکشن جیت چکے ہیں۔ کشمیر کے صدر بھی رہے اور کشمیر میں اپنے سیاسی رسوخ کی بنا پر بہت اہمیت کی حامل شخصیت ہیں۔ انکی اس بڑے پیمانے پر شکست لوگوں کو حیران کر رہی ہے۔
لوگ حیران ہوتے ہیں مگر سمجھتے نہیں۔ بات کی جائے تو گالم گلوچ پر اتر آتے ہیں۔سمجھانے والے کے خاندان بھر کو توم ڈالتے ہیں۔ لفافہ ، سفارشی، لوٹا اور رشوت خورجیسے القابات سے نوازتے ہیں مگر بات سمجھتے نہیں۔

لوگوں کو اب یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ تحریک انصاف اب وہ نہیں جو دو ہزار تیرہ میں تھی۔ یہ وہ جماعت نہیں ہے جس نے دو ہزار گیارہ میں مینار پاکستان پر تاریخ کا ایک بہت بڑا جلسہ کر کے روایتی سیاسی پارٹیوں کی مسند اقتدار کو ہلا دیا تھا۔ یہ وہ جماعت بھی نہیں ہے جو تبدیلی کا نعرہ لگاتی تھی۔ یہ وہ جماعت بھی نہیں ہے جو موروثی سیاست اور اقرباء پروری کے خلاف تھی۔

یہ وہ جماعت بھی نہیں جو انصاف اور ہر سطح پر انصاف کا جھنڈا بلند کرتی تھی۔ یہ وہ جماعت بھی نہیں ہے جو دنوں میں لوگوں کے حالات بدلنا چاہتی تھی۔ یہ وہ جماعت بھی نہیں ہے جس نے کرپشن کو نوے دن میں ختم کرنا تھا۔ یہ وہ جماعت نہیں ہے جس نے کرپٹ سیاستدانوں، پراپرٹی مافیا اور رشوت خور افسروں کا احتساب کرنا تھا۔یہ وہ جماعت بھی نہیں جس نے جس نے غربت ، لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کو دنوں میں ختم کرنا تھا۔

لوگ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے ووٹر بدل گئے ہیں ۔ ووٹر وہی ہیں جماعت بدل گئی ہے۔ قیادت کا ذہن بدل گیا، ترجیحات بدل گئی ہیں۔ تو جیہات بدل گئی ہیں ۔ ترغیبات بدل گئی ہیں۔
دو ہزار تیرہ سے لے کر اب تک عوام کی نظر میں تحریک انصاف بہت مختلف ہو گئی ہے، اب تحریک انصاف وہ جماعت ہے جو انصاف، اصول، اور اعمال کو بالائے طاق رکھ کر ہر قیمت پر برسر اقتدار آنا چاہتی ہے۔

اب تحریک انصاف وہ جماعت بن گئی ہے جو ہر ساعت کسی نادیدہ اشارے کی منتظر رہتی ہے۔ عوامی امنگوں کے بجائے کسی کے ایما پر کام کرتی ہے۔ کبھی ایمپائر کی انگلی سے امید لگائی جاتی ہے ، کبھی مارشل لاء کے آنے پر مٹھائیوں کی تقسیم کی بات کی جاتی ہے، اور کبھی ترکی کے انقلاب کو نشانہ بناتی ہے۔ اب تحریک انصاف وہ جماعت ہو گیئی ہے جو اپنی ہی پارٹی کے انتخابات میں شفافیت نہ لا سکی۔

ان اانتخابات کو بھی رشوت، اقرباء پروری اور دھونس دھاندلی سے نہ بچا سکی۔ اب تحریک انصاف وہ جماعت بن گئی ہے کہ جس کے پاس ہر چیز کا جواز اور جواب صرف دھرنا ہے۔ امید کی کوئی کرن ، اثبات کا کوئی پہلو،
ترقی کا کوئی کارنانہ اس جماعت کے نام ساڑھے تین سال میں نہ ہو سکا۔ بس ایک نفرت کی سیاست ہے جو ہر لمحہ شعار بن گئی ہے۔ تحریک انصاف اب وہ جماعت بن گئی ہے جو ایک صوبے کو معاملات نہ چلا سکی۔

اسکو غربت سے نہ بچا سکی۔ اس میں ترقی نہ لا سکی۔ اس میں کرپشن کو جڑسے نہ مٹا سکی۔ یہ وہ جماعت بن گئی ہے جو اپنے زیر انتظام بلدیاتی انتخابات مین خون خرابے کو نہ روک سکی، اپنے اقلیتوں کے وزیر کو اپنے ہی لوگوں سے نہ بچا سکی۔ اپنی بچیوں کے لیئے سکول کھلوانے میں بھی ناکام رہے، شدت پسند مذہبی گروہوں کو روکنا تو دور کی بات اپنی اسمبلی کو انکے لیئے تیس کڑوڑ کی خطیر رقم دینے سے نہ روک سکی۔

خیبر پختنخواہ میں تین سو پچاس ڈیم نہ بنا سکی، ایک ارب درخت نہ لگا سکی، خواجہ سراوں کو سرعام گولیاں لگنے سے نہ بچا سکی۔تحریک انصاف اب وہ نہیں رہی جس کے لیئے لوگوں نے دو ہزار تیرہ میں ووٹ دیئے تھے۔
کشمیر کے الیکشن میں جو کچھ ہوا یہی ہونا تھا۔ اگر خان صاحب لندن میں میچ نہ دیکھتے تو صورت حال مختلف ہوتی۔ اگر خانصاحب فوج کے آنے پر مٹھائیاں تقسیم کرنے والا بیان نہ دیتے تو صورت حال مختلف ہوتی ۔

اگر خاں صاحب صرف آخری دو دن الیکشن کمپیئن میں شامل ہونے کے بجائے ایک منظم طور پر الیکشن میں حصہ لیتے تو صورت حال مختلف ہوتی۔ اگر پاناما لیکس پر پیپلز پارٹی سے الحاق نہ ہوتا تو صورت حال مختلف ہوتی۔ اگر انڈین چینل پر تیسری شادی کا شوشا نہ چھوڑا جاتا تو صورت حال مختف ہوتی۔ اگر دھرنوں کے سوا بھی کوئی کام کیا ہوتا تو صورت حال مختلف ہوتی۔

اگر ایمپائر کی انگلی پر ہی اکتفا نہ کیا ہوتا تو صور ت مختلف ہوتی۔ اگر خیبر پختونخواہ کی حالت سنور گئی ہوتی تو صورت حال امختلف ہوتی۔اگرخان صاحب کی سیاست میں جہاز کی اہمیت اتنی نہ ہوتی تو صورت حال مختلف ہوتی۔
لاکھوں لوگوں نے دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں، میں نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا، تبدیلی کو ووٹ دیا تھا، نئے پاکستان کو ووٹ دیا تھا۔

امن و امن کو ووٹ دیا تھا۔ موروثی سیایست کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ اقراباء پروری کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ اقلیتوں کے حق میں ووٹ دیا تھا۔خواتین کو حقوق کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ تعلیم اور صحت کو ووٹ دیا تھا۔ کرپشن فری پاکستان کو ووٹ دیا تھا۔ لیکن ہر آنے والے وقت کے ساتھ وہ لاکھوں لوگ اب شرمندہ نظر آتے ہیں ، ایک دوسرے سے نظریں چراتے ہیں، خود کو کوستے ہیں۔

اپنی کم علمی اور نادانی کا ماتم کرتے ہیں۔ کشیر کے الیکشن کی طرح ہر الیکشن کے بعد چپ کرجاتے ہیں۔اپنی نظروں میں گر جاتے ہیں۔ خاموشی سے اپنی سیاسی کم عقلی پر مر جاتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو جب ترنگ میں ہوتے تو اپنی شہرت کے زعم میں کہتے تھے کہ میں اگر کھمبے کو بھی ٹکٹ دے دوں تو وہ بھی الیکشن جیت جائے ۔ تحریک انصاف وہ جماعت بن گئی ہے کہ جو جیتے جاگتے ، معروف ، مشہورانسان کو ٹکٹ دیتی ہے اور اس کو بے جان، بے حرکت اور بے اثر کھمبا بنا دیتی ہے۔ کشمیر کے الیکشن اس بات کا ثبوت ہیں۔ بیرسٹر سلطان محمود کی شکست اس بات کا ثبوت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :