غریب ہی گنہگار کیوں ۔۔؟

اتوار 24 جولائی 2016

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

سرسے پاؤں تک پسینے سے پانی پانی ہوکر گلہ اس کاخشک ہوچکا تھا۔۔وہ باربار ماتھے پر رومال پھیرکرپسینہ پونجھ رہاتھا ۔۔مگرتپتی دھوپ اورقیامت خیزگرمی کے باعث پسینہ روکنے کانام ہی نہیں لے رہاتھا۔۔وہ ایک ہاتھ سے کام کرتا اوردوسرے سے پسینہ پونجھتا ۔۔میں پچھلے کئی منٹ سے یہ منظر اپنی گنہگار آنکھوں سے دیکھ رہاتھا۔۔کام کے ساتھ اس کے موبائل کی گھنٹی بھی مسلسل بج رہی تھی ۔

۔جب تک وہ کھمبے پر کام میں مصروف تھا تب تک موبائل کمبخت نے انہیں ایک لمحے کے لئے بھی آرام سے کام کرنے نہیں دیا۔۔کھمبے سے اترنے تک موبائل مسلسل چیخ رہاتھا۔۔کھمبے سے اترکرزمین پرپاؤں رکھنے کے ساتھ ہی اس نے السلام وعلیکم کہتے ہوئے موبائل کان سے لگایا ۔۔کال ختم ہونے کے بعد اس نے موبائل جیب میں ڈالا ہی تھا کہ وہ پھر دودھ پیتے بچے کی طرح بول پڑا۔

(جاری ہے)

۔اس نے پھر موبائل جیب سے نکالا اوردوبارہ کان سے لگایا۔۔اس بار بھی غالباً کوئی کمپلین تھی ۔۔میں آتا ہوں ۔۔یہ کہتے ہوئے اس نے موبائل جیب میں ڈالا ۔۔ابھی موبائل نے جیب کاصحیح طرح دیدار بھی نہ کیاہوگا کہ پھر کسی کمپلین سے چیخ اٹھا۔۔اس نے ایک بارپھر بغیر کسی انتظار کے اپنی نرم وملائم گفتگو سے موبائل کوخامو ش کرایا۔۔موبائل جیب میں رکھتے ہوئے وہ اپنے ساتھی سے کہنے لگے آج رات پھر جندروچ ہے ۔

۔پتہ نہیں کہاں کہاں بجلی خراب ہے۔۔ اس نے ایک سانس میں کئی علاقوں کے نام گنے ۔۔کہیں ٹرانسفارمر خراب ہے ۔۔کہیں تاریں گری ہوئی ہیں اورکہیں ٹرانسفارمر کے لنک اڑے ہوئے ہیں ۔۔ان سب علاقوں کی بجلی اب ٹھیک کرانی ہیں۔۔یہ سنتے ہوئے میں نے حیرانگی سے پوچھا۔۔آپ دونوں کے علاوہ اس شہرناپرساں میں کوئی اور لائن مین نہیں ۔۔اس نے ٹھنڈی آہ بھری ۔

۔معصوم نظروں سے کھمبے کی طرف دیکھا۔۔پھر گویا ہوئے ۔۔سر۔۔کاغذات اوردفتروں میں تولائن مین بہت ہیں مگر کام کرنے کیلئے دوہم اوردواورہیں ان چار کے علاوہ اورکوئی نہیں ۔۔ان کھمبوں پرچڑھنااورموت سے ہروقت کھیلناہمارے جیسے غریبوں کی قسمت میں ہی لکھاہے۔۔ہمارے انڈرتقریباًساڑھے تین سوٹرانسفارمر۔۔ہزاروں میٹراورکھمبے ہیں ۔۔صبح ایک کونے سے شروع ہوتے ہیں توبرق رفتاری سے کام کرتے ہوئے کہیں بڑی مشکل سے دوسرے کونے میں پہنچتے ہیں ۔

۔کام سے فراغت توہماری قسمت میں ہی نہیں ۔۔ایمرجنسی تلوارکی طرح ہروقت ہمارے سروں پرلٹکتی رہتی ہے۔۔چھٹی کے بعدبھی کوئی پتہ نہیں ہوتاکہ کس ٹائم بلاواآجائے۔۔چین ہے نہ سکون ۔۔صرف کام اورکام ہے۔۔میں نے کہامحکمے والے اورلائن مین کیوں بھرتی نہیں کرتے۔۔کہنے لگے ۔۔سرجی ۔۔لگتاہے آپ میری بات نہیں سمجھیں ۔۔یہ جودفتروں میں پاؤں پرپاؤں رکھ کربیٹھے ہیں ۔

۔وہی تومحکمے نے لائن مین بھرتی کئے ہیں نہ ۔۔کاعذات میں توہمارے لائن مین پورے ہیں ۔۔میں نے پوچھاوہ پھرکھمبوں پرکیوں نہیں چڑھتے۔۔؟وہ کام کیوں نہیں کرتے۔۔؟ کہنے لگے۔۔سرجی وہ ہمارے جیسے غریب۔۔بے آسرا۔۔یتیم ۔۔فقیر۔۔مسکین اورشریف تھوڑے ہیں ۔۔وہ توافسروں کی آنکھوں کے تارے ہیں۔۔کئی سیاسیوں کے چہیتے ہیں۔۔کوئی نواب اورکوئی خان ہیں ۔

اورہاں ان میں کئی توافسروں کے رشتہ داربھی ہیں۔اف توبہ۔۔ توبہ ۔۔وہ کبھی کھمبوں پرچڑھیں گے۔۔؟وہ افسراورسیاستدان جنہوں نے ان کوبھرتی کیاہے کیاوہ اپنی آنکھوں کے ان تاروں کوکبھی کھمبے پرچڑھتے دیکھنابرداشت کریں گے۔۔اسی وجہ سے توانہوں نے ان کودفاترمیں کرسیوں پربٹھایاہے تاکہ ان کی عزت پرکوئی حرف نہ آئے۔۔پسینے سے شرابوراس غریب اوربدقسمت لائن مین کی یہ باتیں سن کرمیں مسئلے کی تہہ تک پہنچ چکاتھا۔

۔دوسراانہوں نے جلدی جانابھی تھااس لئے میں نے ان کوگفتگومیں مزیدالجھانے کی کوشش نہیں کی ۔۔ان کے جانے کے بعدمیں کافی دیرتک سوچتارہا۔۔کیاغریب ہی ہمیشہ نوکرہوتے ہیں ۔۔؟کیامحکمہ واپڈا۔۔صحت۔۔تعلیم۔۔ٹرانسپورٹ۔۔پولیس سمیت دیگرمحکموں میں پابندی سے تنخواہیں لینے والے برگرفیملیوں کے نام نہاد خان اورنواب نوکرنہیں ہوتے ۔۔؟کیاسیاستدانوں کے چہیتوں اورافسروں کے رشتہ داروں پرنوکری کااطلاق نہیں ہوتا۔

۔؟ہمارے حکمران اورسیاستدان تبدیلی تبدیلی کے نعرے توبڑے زوروشورسے لگارہے ہیں مگرافسوس نظام کوبگاڑنے کاوہ خودکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔۔فرسودہ اورطبقاتی نظام نے سرکاری اداروں سمیت آج اس پورے ملک کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں ۔۔ملک کے جس کونے ۔۔جس محکمے ۔۔اورجس ادارے میں بھی دیکھاجائے وہاں طبقاتی اورسرمایہ دارانہ نظام دم ہلاتاہوادکھائی دیتاہے۔

۔اس ملک میں امیروں کے بچے نوکر ہوکربھی خادم کہلاتے ہیں جبکہ غریب کے بچوں کوچپڑاسی۔۔چوکیدار۔۔لائن مین۔۔پی این معلوم نہیں اورکیاکیانام دےئے جاتے ہیں ۔۔اوپرگریڈوں میں بھرتی ہونے والے غریبوں کے بچوں سے تودفتروں میں صفائی ستھرائی کاکام لیاجاتاہے جبکہ ان سے نیچے گریڈوں میں بھرتی ہونے والے افسروں کے رشتہ داروں۔۔سیاستدانوں کے چہیتوں اوربرگرفیملیوں سے تعلق رکھنے والے شہزادوں کوگھومتی کرسیوں پربٹھایاجاتاہے۔

۔غریب کے بچے کواوئے کہہ کرپکاراجاتاہے جبکہ چہیتوں اورآنکھوں کے تاروں کو،،منا،،صاحب ۔۔سرجی وغیرہ کے القابات دے کریادکیاجاتاہے۔۔ جس ملک میں امیروغریب میں یہ تفریق ہو۔۔جہاں غریب کونوکر۔۔غلام اورامیرکوحکمران سمجھاجائے وہاں تبدیلی نہیں تباہی آتی ہے۔۔ہم نے غریب کوحقیراورنوکرسمجھ کراس ملک کوتباہی کے دہانے پرلاکھڑاکردیاہے۔۔

یہ جوتھوڑابہت نظام سیدھا۔۔ترقی کاعمل جاری۔۔اورملک آگے بڑھ رہاہے یہ اسی غریب کی مرہون منت ہے۔۔جسے ہم حقیر۔۔فقیر۔۔یتیم۔۔مسکین ۔۔چپڑاسی ۔۔لائن مین۔۔چوکیداراورپی این کہہ کرپکارتے ہیں ۔۔یہی غریب اگرہاتھ پیچھے کریں توہم میں اتنی ہمت نہیں کہ ہم ترقی کے سفرکوایک لمحے کے لئے بھی جاری رکھ سکیں ۔۔ملک میں حقیقی تبدیلی کیلئے ہمیں اپنی ذات سے احتساب کاآغازکرکے سب سے پہلے اس طبقاتی نظام کومنوں مٹی تلے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کرناہوگا۔

۔محکمہ واپڈا۔۔صحت۔۔تعلیم۔۔ٹرانسپورٹ۔۔پولیس سمیت دیگرمحکموں میں جس طرح کوئی غریب نوکرہے اسی طرح کسی افسرکارشتہ دار۔۔ان کی آنکھوں کاتارااورکسی سیاستدان کاچہیتابھی نوکرہی ہے۔۔جوکام اس غریب نے کرناہے وہی کام افسرکے اس رشتہ دار۔۔آنکھوں کے تارے۔۔نورے اورسیاستدان کے چہیتے نے بھی کرناہوگا۔۔کالے چشمے لگانے۔۔تولیامارنے اورمالش پالش سے اب کام نہیں چلے گا ۔

۔کیونکہ جب تک غریب کی طرح امیرکابیٹانوکرنہیں بنتااس وقت تک اس ملک میں تبدیلی نہیں آئے گی ۔حقیقی تبدیلی کے لئے امیراورغریب کوایک صف میں کھڑاکرناہوگا۔۔اگرایک غریب ملازم ہوکر سوباربجلی کے کھمبے پرچڑھ سکتاہے توکوئی امیرزادہ کیوں نہیں ۔۔؟افسروں ۔۔خانوں ۔۔نوابوں اورسیاستدانوں کواگراپنے چہیتوں کی اتنی فکرہے توانہیں پھراپنے محلوں میں صوفوں پرکیوں نہیں بیٹھاتے۔

۔؟غریب کواللہ نے غریب پیداکیاہے ۔۔ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتاکہ ہم ان کی مجبوری سے ناجائزفائدہ اٹھائیں ۔۔قانون سب کے لئے برابرہوناچاہئے۔۔جوقانون کسی غریب کونوکربناتاہے اسی قانون میں امیربھی نوکربنتاہے۔۔میٹھامیٹھاہڑپ اورکڑواکڑواتوں کایہ کھیل اب مزیداس ملک میں نہیں چلے گا۔۔حکمرانوں کوظلم یاانصاف میں سے کسی ایک کاان انتخاب کرناہوگا۔

۔حکمرانوں نے اگرظلم کاکھیل اب بھی نہیں چھوڑاتوپھرانہیں تباہی وبردبادی سے کوئی نہیں بچاسکے گا۔۔ اللہ تعالیٰ کوظلم ذرہ بھی پسندنہیں۔۔جولوگ ظلم کونہیں چھوڑتے ان کاانجام پھرفرعون ۔۔قارون اورابوجھل کی طرح ہوتاہے ۔۔حکمرانوں کوایک بات یادرکھنی چاہئے کہ ظلم کی رات چاہے جتنی بھی لمبی ہوآخرایک نہ ایک دن ضرور سحرہونی ہے۔۔اللہ ہمیں ظالموں کے ظلم اورشیریروں کے شرسے بچائے۔۔آمین یارب العالمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :