وزیر اعظم صاحب! جو کہا سچ کر دکھائیں

منگل 23 اگست 2016

Azhar Thiraj

اظہر تھراج

جب کسی کا برا وقت آتا ہے۔ سچ منہ سے خود بخود نکلنا شروع ہوجاتے ہیں، اپنے ہی بچھائے جال میں پھنستا جاتا ہے،یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں خزاں آکرپتے جھاڑتی ہے تو بہار میں نئی کونپلیں بھی پھوٹتی ہیں،نئے پھول بھی کھلتے ہیں،اس ملک میں ماتم کدوں میں نوحے پڑھے جاتے ہیں تو شادیوں،خوشی کے موقعوں پر میٹھے گیت بھی سننے کو ملتے ہیں،سیاست الزامات،پراپیگنڈا،مخالفین کیخلاف بیان بازی تو عام سی بات سمجھی جاتی ہے،اگر یہ الزامات حقیقت کا روپ دھار لیں،الفاظ کے بجائے گولی سے بات کی جائے تو وہ سیاست نہیں رہتی دہشت گردی بن جاتی ہے۔


کراچی میں کل جو ہوا اس پر رونا بھی آتا ہے ،ماتم کرنے کو بھی جی چاہتا ہے،ایم کیو ایم کے احتجاجی کیمپ میں وہ ہواجو نہیں ہونا چاہیے تھا،اس کیمپ میں ایسا ہوا جس کے نہ ہونے کیلئے کئی جوانوں نے جوانیاں لٹا دیں،مقبول حسین جیسے سپاہیوں نے زبان کٹوا کر ساری عمر بھارتی جیلوں میں گزاردی لیکن پاکستان مردہ باد کا نعرہ نہیں لگایا،یہ کیسی سیاست ہے جو اپنے ملک ،اپنی دھرتی ماں کیخلاف کی جارہی ہے،بھلا کوئی اپنی ماں کو گالی دیتا ہے؟
جو زبان حق پرستی اور فوج کے قصیدے پڑھتی نہیں تھکتی تھی آج وہی زبان ماں پاکستان کیخلاف شعلے اگلتی رہی،بانیان پاکستان ہونے کے نام نہاد دعوے دار گالیاں بکتے رہے،،جو برسوں تک جرنیلوں کے بوٹ پالش کرتے رہے آج بے نقاب ہونے پر انہی کو دھمکیاں دے رہے ہیں،مجھے ان کی زبان ان کے رویے پر حیرت نہیں بلکہ میں اس بات پر ششدر ہوں کہ ایسے شخص کو چھوٹ کیوں دی جاتی رہی،صرف یہ ایک شخص الطاف حسین ہی مجرم نہیں بلکہ اس کا ساتھ دینے والا،اس کے ہرکہے گئے لفظ کا دفاع کرنیوالا مجرم ہے۔

(جاری ہے)


پاکستان لسانیت جیسے موذی مرض میں عرصہ دراز سے مبتلا ہے،اس کی وجہ سمجھنا یا سمجھانا ذرا مشکل سا کام لگا ہے ،الجھاوٴ ہے اور تناوٴ سی کیفت ہوجاتی ہے،مگر یہ ایسی کڑوی حقیقت ہے جسے نا چھپایا جاسکتا ہے اور نا کھلے لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے،یہ مرض اس قدر خطر ناک نوعیت اختیار کر چکا ہے کہ دینی جماعتوں میں بھی اس کا تاثر ملنے لگا ہے۔

اقتدار میں ہوں یا جن کہ پاس اختیارات ہوں یقیناًوہی اکثریت میں بھی ہونگے، انہیں اس بات پر دھیان دینے کی کبھی ضرورت نہیں پڑتی،اب اگر آپ کو آپ کے گھر میں ہی محدود کر دیا جائے یا حدود کی بیڑیاں ڈال دی جائیں۔نیوٹن کہ قانون کہ مطابق ہر عمل کا ردِ عمل ہوتا ہے۔اسی طرح زنجیر جو پہناوٴ گے جھنکا ر تو ہوگی۔سیاسیات کو ذاتیات سے دور رکھنا چاہئے۔

آپ کی ذمہ داری ملکی سطح کی ہے۔تنقید برائے اصلاح کی جائے۔تخریبی سیاست سے اجتناب کیا جائے۔ایسے عوامل سے سختی سے نمٹا جائے جو سیاسی جماعتوں کہ نام پر لوگوں کو دھمکاتے پھرتے ہیں۔
ہمارے بڑوں نے ملک سے گند صاف کرنے کا پروگرام بنا ہی لیا ہے تو اسے منطقی انجام تک پہنچایا جائے،وزیر اعظم صاحب ! آپ نے بہت خوب کہا ہے کہ وطن کی سلامتی اور وقار پر کوئی آنچ نہیں آنے دینگے، پاکستان کیخلاف کہے گئے ایک ایک لفظ کاحساب ہوگا،وطن کی سلامتی اوروقارپرکوئی آنچ نہیں آنے دیں گے،میاں صاحب آپ سے اپیل ہے اسے سچ کردکھائیں،ملک کے کونے کونے کو پاک کردیں،امن کی شمع جلائی ہے تو جلتی رہے۔

دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجانا چاہیے،دہشگرد منصورہ میں ہوں یا بلاول ہاوٴس یا کسی پختون کے گھر یا پھر رائیونڈ کے کسی محل میں ،بنی گالہ کے ہائیڈ آؤٹ میں ہوں یا بلوچستان کے پہاڑوں پر،کہیں بھی سب کے سب دہشتگرد ہیں،ان کے خلاف بلا تفریق کارروائی ہونے دی جائے،پھر کسی کی ہمت نہ ہو کہ ہماری ماں(پاکستان)کو گالی دے،ہمارا کھا کر ہمیں ہی آنکھیں نہ دکھا پائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :