خدارا کسی کی تو سن لیں !

اتوار 28 اگست 2016

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

پہلی جنگ عظیم کے بعد ہندوستانی سیاست میں جو نام ابھر کر سامنے آئے ان میں جناح اور گاندھی کا نام نمایاں ہے ۔محمد علی جناح اگرچہ بیسویں صدی کے شروع میں سیاست میں ”ان “ ہو چکے تھے مگر گاندھی کا نام ہندوستانی سیاست میں پہلی جنگ عظیم کے بعد سامنے آیا ،جناح اور گاندھی کا مشن اگرچہ ایک تھا لیکن ان دونوں کے مزاج اور مذاق میں بعدالمشرقین تھا اورشاید یہی وجہ تھی کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد گاندھی جنا ح کے سب سے بڑے حریف کے طور پر سامنے آئے ۔

گاندھی نے جنوبی افریقہ سے واپسی پر صرف دو سال میں ہندوستانی سیاست میں وہ ہلچل پید اکر دی تھی جو دوسرے لیڈر پچھلے دس سالوں میں نہیں کر پائے تھے ۔مہاتما گاندھی اگرچہ میدان سیاست کے شہسوار تھے لیکن ان کی نجی زندگی بہت سادہ اورفطرت کے قریب تھی ۔

(جاری ہے)

وہ واقعی ایک انسان دوست شخص تھے اور ان کا بچپن اور جوانی انتہائی سادگی میں گزری تھی۔جنو بی افریقہ کے قیام کے دوران اکثر انہیں قبض اور سر درد رہتا تھا ،انہوں نے کسی اخبار میں اس کا علا ج پڑھا کہ صبح کا ناشتہ ترک کر دیا جائے ،گاندھی نے یہ نسخہ آزمایا لیکن کو ئی فرق نہ پڑا ،ان کے ایک جرمن دوست نے بتا یا قبض کا واحد علا ج ”رجوع باالفطرت “ ہے ،اس کا طریقہ یہ تھا کہ گاندھی جی ایک باریک کپڑے کی پٹی لے کر اس پر صاف مٹی کی تہہ جماتے اور اسے پانی میں تر کر کے پیٹ پر باندھ لیتے تھے،گاندھی جی نے اپنی خود نوشت سوانح حیات میں لکھا ہے کہ یہ نسخہ تیر بہدف ثابت ہوا اور قبض سے میری جان چھو ٹ گئی ۔

اس کے علا وہ گاندھی جی کی فطرت تھی کہ وہ جب تک کسی تحریک یا کام میں خود کو اذیت میں نہ ڈالتے اس وقت تک انہیں اس کام میں مزہ نہیں آتا تھا اور وہ اس کام کو ادھورا سمجھتے تھے اس کے برعکس جناح ایک اصول پسند اور قانونی آدمی تھے اور ٹو دی پوائنٹ بات کر تے تھے ،گاندھی اپنی سیاسی زندگی میں کئی بار جیل گئے ،ماریں کھائیں ،بھو ک ہڑتال کی لیکن جناح ایک دفعہ بھی جیل نہیں گئے اور نہ کبھی بھوک ہڑ تال کی ،جناح کی زندگی نزاکتوں سے پر تھی ،اچھا کھانا ،اچھا پہننا اور اچھی جگہوں پر رہنا ۔

گاندھی جی روحانیات پر بھی یقین رکھتے تھے اور ان کا ہر کام وجدان اور روحانیت کے تابع ہوا کر تا تھا جبکہ جناح کے ہاں روحانیت ،جذباتیت اور عقلیت کا کو ئی نام نہیں تھا ۔جناح آخر تک اپنے بے پناہ عزم اور قوت استدلال کی بنیاد پر لڑتے رہے جبکہ گاندھی جی اپنے وجدان ،جذب اور روحانیت کی روشنی میں اپنے پیرو کا روں کی راہنمائی کر تے رہے ۔ایک دفعہ دونوں لیڈروں میں کسی مسئلے پر اختلا ف ہو گیا ،جناح کا خیال تھا کہ گاندھی جی نے کسی معاملے میں وعدہ شکنی کی لیکن گاندھی جی اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے،جناح کے سیکرٹری نے کہا ”سر گاندھی جی کا کہنا ہے انہوں نے وعدہ شکنی نہیں کی بلکہ ان کی روحانی قندیل نے انہیں اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کیا ہے “جناح اصولی آدمی تھے فورا غصے میں آ گئے اور چیخ کر بولے ”روحانی قندیل کی ایسی کی تیسی ،یہ شخص ایمانداری سے کیوں نہیں تسلیم کر لیتا کہ اس سے غلطی ہو ئی ہے “
ہمارے وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شرف بھی گاندھی جی کے سیاسی جانشین ہیں اور وہ بھی گاندھی کی طرح اپنی روحانیت اپنے ”اخلاص “ اور عوام کی خدمت کی قسمیں کھا رہے ہیں ،آپ پچھلے آٹھ سال کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو ہر روز عوامی ہمدردی اور عوام کے مسائل حل کرنے کے نئے بیانات ملیں گے لیکن پنجاب کے عوام آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں وہ 2007میں کھڑے تھے۔

جناب وزیر اعلی صاحب آپ باالکل ٹھیک کہتے ہیں آپ واقعی اس صوبے اوراس عوام کے ساتھ مخلص ہیں اور آپ دس کروڑ پنجابیوں کو اپنے اس ”اخلاص “ کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں ۔صوبے میں روزانہ دس بیس بچے لاپتا ہو رہے ہیں مگر اس کے باوجود آپ مخلص ہیں ،مہنگا ئی کا سورج آسمانوں سے باتیں کر رہا ہے مگر اس کے باوجود آپ مخلص ہیں ،مزدور کو روٹی نہیں مل رہی مگر آپ پھر بھی مخلص ہیں ،دالوں اور سبزیوں کی قیمتوں کو پر لگ گئے مگر آپ مخلص ہیں ،روٹی چھ سے دس روپے تک بک رہی ہے مگر آ پ مخلص ہیں ،عوام اپنے پیاروں کو ہسپتالوں میں لے کے دھکے کھا رہے ہیں مگر آپ کے اخلاص میں کو ئی فرق نہیں آتا ، ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے لے کر پولیس تک کرپشن اپنے عروج پر ہے مگر اس کے باوجود آپ مخلص ہیں ،لوگوں کو اپنے جائز مسائل حل کروانے کے لیے بھی پیسے دینے پڑتے ہیں اس کے باوجود آپ مخلص ہیں اور پنجاب کے دس کروڑ عوام ہسپتالوں میں دھکے کھا رہے ہیں لیکن آپ پھر بھی مخلص ہیں ۔

میاں صاحب آپ جو کچھ کر رہے ہیں یہ سب بعد کی باتیں ہیں پہلے آپ عوام کو گھر دیں ،مکان دیں ، ہسپتال دیں ، پینے کا صاف پانی دیں ، بجلی دیں ، راشن دیں ، نوکریاں اور کارو بار دیں ، فری تعلیم دیں،پہلے آپ عوام کی عزت نفس کو بحال کریں انہیں قطاروں میں کھڑا کرنے کی بجائے سہولیات ان کے گھر تک پہنچائیں ، ان کے پیاروں کی جان بچائیں ، معیاری اور سستی ٹرانسپورٹ دیں ، بزرگ شہریوں کو عزت و احترام دیں ،آٹا ،گھی ، دالیں ،پھل ، سبزیاں عوام کی پہنچ تک لائیں ،انہیں مچھلی نہ دیں مچھلی پکڑنے کا گر سکھائیں ۔

آپ مریضوں کو لاہور منتقل کرنے کے لیئے موٹروے نہ بنائیں بلکہ متعلقہ اضلاع میں ہسپتال بنا دیں ۔میاں صاحب آپ جو منصوبے شروع کرنے جا رہے ہیں یا شروع کر چکے ہیں ان سے دس کروڑ عوام کا کچھ بھلا نہیں ہو گا۔ پتا نہیں آپ کے سقراط،بقراط، افلاطون اور کالی داس آپ کو کیا رام کہانیاں سنا رہے ہیں لیکن اگر آپ حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو ایک دن بھیس بدل کر عوام میں آئیں عوام آپ کو کیسی کیسی صلواتیں سناتے ہیں آپ کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔

میاں صاحب خدارا اپنی ترجیحات بدلیں ۔ پنجاب کی آبادی دس کروڑ کی حدوں کو چھو رہی ہے لیکن اتنی بڑی آبادی کے لیئے ہسپتالوں کی تعداد کیا ہے آپ خود ہی دیکھ لیں ۔ پورے پنجاب میں صرف 34ڈسٹرکٹ ہیڈ کورٹر ہسپتال ، 88تحصیل ہیڈ کورٹر ہسپتال ، 109سول ہسپتال ، 293رورل ہیلتھ سنٹر ، 333ڈسپنسریاں اور 2473بنیادی ہیلتھ سنٹر ہیں ۔لاہور ڈویژن کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے لیکن اس دو کروڑ آبادی کے لیئے صرف 5ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال، 7تحصیل ہیڈ کورٹر ہسپتال ،34رورل ہیلتھ سنٹر اور246بنیادی ہیلتھ مراکز ہیں ۔

راوالپنڈی ڈویژن کی آبادی بھی دوکروڑ کے لگ بھگ ہے لیکن وہاں بھی صرف 3ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹرہسپتال،13تحصیل ہیڈ کورٹر ہسپتال ،29رورل ہیلتھ سنٹر اور268بنیادی ہیلتھ مراکز ہیں۔اسی طرح باقی ڈویژنوں کی صورحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور پیر ا میڈیکل اسٹاف کی سیٹیں خالی پڑی ہیں ۔ جنرل ڈاکٹرز کی 16000 سیٹوں میں سے 5297خالی پڑی ہیں ۔

اسپیشلسٹ کی 2514سیٹو ں میں سے 1414خالی ہیں ،ٹیچنگ کیڈرکی 3329سیٹوں میں سے 1385خالی ہیں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی 60000سیٹو ں میں سے 27000خالی پڑی ہیں ۔میاں صاحب آپ کسی دن پنجاب کے کسی ہسپتال میں جا کر اپنا علاج کروائیں،کسی تھانے میں جا کر ایف آئی آر درج کروائیں اور آپ مختلف ڈیپارٹمنٹس کے کلرکوں سے اپنا کوئی جائز کام کروا کر دکھائیں آپ کو اپنے اخلاص کی ساری اصلیت دکھائی دے جائے گی اور آپ کو یہ بھی معلوم پڑ جائے گا کہ پنجاب کی عوام آپ سے کیا چاہتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :