تاریخ کا سبق !

اتوار 11 ستمبر 2016

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

رضا شاہ پہلوی ایرانی فوج میں معمولی آفیسر تھا ،اس نے1920کی دہائی میں فوج میں بغاوت کی اور چار سال کے اندر آخری قاچار بادشاہ احمد شاہ قاچار کو معزول کر کے ملک کا صدر بن گیا ۔وہ ایران کو جدید ریاست بنانا چاہتا تھا ،اس نے بڑے پیمانے پر صنعتیں قائم کیں ،ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر کیا ،لوگوں کو روز گار دیا اورعوام کو صحت کی سہولیات مہیا کیں ۔

1935میں اس نے ملک کا نام تبدیل کر کے فارس سے ایران رکھ دیا ،1939میں دوسری جنگ عظیم ہو ئی تو ایران بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکا ،ایران کا جھکا وٴ جرمنی کی طرف تھا چناچہ روس اور برطانیہ کی فوجوں نے ایران پر چڑھائی کر دی ،رضا شاہ گرفتار ہوا ،اسے جلا وطن کیا گیا اور اس نے اپنی بقیہ زندگی جنوبی افریقہ کے شہر جو ہانسبرگ میں انتہا ئی کسمپرسی کی حالت میں گزاری اور یہیں اس کا انتقا ل ہوا ۔

(جاری ہے)

رضا شاہ کے بعد اس کا بیٹا محمد رضا شاہ تخت نشین ہوا، جنوری 1942میں اتحادی افواج اور ایران کے درمیان ایک معاہدے ہر دستخط ہو ئے اور چھ ماہ ماہ کے اندر اتحادی فوجوں نے ایران خالی کر دیا ۔دوسری جنگ عظیم ختم ہو ئی تو زندگی معمول پر آنا شروع ہو گئی، شاہ یہ حقیقت جان چکا تھا کہ اگر اسے اقتدار میں رہنا ہے تو اسے مغربی آقاوٴں کوخوش رکھنا پڑے گا چناچہ اس نے ”سفید انقلاب “کا علان کر دیا اور اس انقلاب میں ہر وہ کام کیا جس کا آج سے چالیس پچاس سال پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔

ڈاڑھی پر پابندی لگا دی گئی ، برقعہ پہننا قانونی جرم ٹھہرا ، شراب ،زنا اور رقص و سرود کو قانونی حیثیت حا صل ہو گئی ، اسکول ،کالج اور یو نیورسٹی میں سکرٹ کو لازمی قراردے دیا گیااور گانے بجانے کی تعلیم لازمی قرار دے دی گئی ۔شاہ کے دور میں ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت حاصل تھی اور شاہ کے دو قریبی جرنیلوں کے بیٹوں نے آپس میں شادی بھی رچائی تھی اور شاہ خود بھی اس شادی میں شریک ہوا تھا ،سرکاری سطح پر اس شادی کی دعوت ولیمہ بھی ہوئی تھی اور شاہ کی پو ری کابینہ نے اس دعوت سے لطف اٹھایا تھا ،شاہ کے دور میں کالج اور یونیورسٹی میں شراب عام ملتی تھی اور خواتین کی خرید وفروخت کی حوصلہ افزا ئی کی جاتی تھی ،عالمی میڈیا شاہ کو امریکی گورنر کے نام سے لکھتا پڑھتا تھا اورشاہ کے دور میں ایران امریکی کالونی تھی،اس نے بیالیس ہزار امریکیوں کو مفت ویزے جاری کیئے اور انہیں ایران میں کھلم کھلا گھومنے پھرنے کی اجازت دی ۔

شاہ کو اپنے اقتدار پر اس قدر اعتماد تھا کہ اس نے اپنی پہلی دو بیویوں کو صرف اس لیئے طلاق دی تھی تا کہ اس کا کو ئی ولی عہد پیدا نہ ہو سکے ۔اس نے اپنے لیئے ایک ایسا محل بنوایا جس میں دنیا کی تمام نایاب اشیا اکٹھی کی گئیں ،وہ خود کو ایران کا شہنشاہ سمجھنے لگا تھا اور 1971میں اس نے فارسی شہنشاہیت کے ڈھائی ہزار سالوں کی تکمیل کا باقاعدہ جشن منایا اور حد یہ ہوئی کہ اس نے اسلامی ہجری تقویم کو ختم کر کے شمسی تقویم کو نافذ کر دیا ۔

عوام شاہ کے ان غیر اسلامی اقدامات کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ،جلاوطن راہنما آیت اللہ خمینی نے عوام کی قیادت کی اور ایران میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہو گئے ،خمینی نے آگے بڑھ کر اسلامی انقلاب کا نعرہ لگا دیا ،عوام کا غصہ آسمان کی حدوں کو چھو رہا تھا ،عوام نے شا ہ کے محل کا محاصرہ کر لیا ،شاہ چھپتا چھپاتا ایران سے فرار ہوا ،پانامہ کے راستے مصر پہنچا ،انور سادات کا مہمان بنا اور27جولائی 1980میں قاہرہ کے ایک معمولی ہسپتال میں انتقال کر گیا ۔

وفات کے وقت شاہ کی جو دولت بیرونی بینکوں میں جمع تھی وہ دس ہزار ملین پاوٴنڈ سے ذیادہ تھی ۔آج پہلوی خاندان امریکہ کی ریاست میری لینڈ میں گمنامی کی زندگی گزار رہا ہے ۔
تاریخ بڑی ظالم ہوتی ہے اور یہ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتی مگر ہمارے حکمران شاید تاریخ سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں ، آپ تاریخ کا انتقام ملاحظہ کریں ۔قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات ہوئی تو خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل بنا دیا گیا ۔

ابھی دو سال بمشکل گزرے تھے کہ لیاقت علی خان کو راوالپنڈی میں گولی مار دی گئی ۔خواجہ ناظم الدین نے گورنری چھوڑ کر وزارت عظمی کے پیچھے دوڑ لگا دی ،تقدیر نے ساتھ دیا اور خواجہ صاحب وزیر اعظم بن گئے ۔غلام محمد کو ان کی جگہ گورنر جنرل بنا دیا گیا۔غلام محمدگورنری ملنے کے بعد ”بادشاہ“بن گئے اور انہوں نے خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر دیا ،خواجہ صاحب اس وقت جمعے کی نماز کے لیئے جا رہے تھے جب انہیں ان کی برطرفی کی خبر دی گئی ،خواجہ صاحب پر یہ خبر بجلی بن کر گری اور وہ چند لمحوں کے لیئے زمین میں گڑ کر رہ گئے ۔

خواجہ صاحب نے گورنر جنرل سے شکوہ کیا ”سر!جب میں گورنر جنرل تھا اور لیاقت علی وزیراعظم تو میں نے تو ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا تھا “غلام محمدنے بڑی حقارت سے خواجہ صاحب کی طرف دیکھا اور بولے ”نا تم لیاقت علی خان ہو اور نا میں خواجہ ناظم الدین“ اور اس کے بعد خواجہ ناظم الدین کبھی وزیراعظم ہاوٴس میں نظر نہیں آئے۔غلام محمد نے محمد علی بوگرہ کو نیا وزیر اعظم مقرر کیا،کچھ ہی عرصے بعد غلام محمد بیمار ہوئے اور ان کے نامزد کردہ وزیر اعظم نے انہیں دو ماہ کے لیئے رخصت پر بھیج کر ان کے سیاسی کردار کا ہمیشہ کے لیئے خاتمہ کر دیا ،گور نر جنرل جب ایوان اقتدار سے نکلے تو ان کی بے بسی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اور وہ ایوان صدر سے نکلتے ہو ئے پاگلوں کی طرح چیخ و پکار کر رہے تھے ۔

غلام محمد کے بعد اسکندر مرزا کو گورنر جنرل بنایا گیا ،اسکندر مرزاکو اقتدار کی شراب بہت اچھی لگا اور انہوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیئے مختلف حیلے بہانے شروع کر دیے ،اس کے لیئے اسکندر مرزا نے ایوب خان کا سہارا لینے کی کوشش کی اور انہیں اپنی کابینہ میں شامل کر لیا ،ایوب نے صرف تین دن بعد اسکندر مرزا کو ایوان اقتدار سے رخصت کر کے ملک میں مارشل لاء لگا دیا،اسکندر مرزا بڑی خاموشی سے ایوان اقتدار سے نکلا اور بقیہ عمر لندن کے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں گزار دی ،ایوب خان نے فوجی وردی کا سہارا لیتے ہوئے دس سال حکومت کی اور سارے سیاست دانوں کے ناک میں دم کیئے رکھا ،ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا ”سیاسی متبنیٰ“بنایا تھا اور اور انہیں اپنا وزیر خارجہ مقرر کیا تھا اسی بھٹو نے معاہدہ تاشقند کے نعد ”ایوب کتا ہائے ہائے “کے نعرے لگوائے اور ایوب خان کو ٹف ٹائم دیا ،یحی خان نے ایوب خان سے استعفی لے کر اسے ایوان اقتدار سے رخصت کر دیا ،جاتے ہوئے ان کی گاڑی کے ساتھ سوائے دو سکیورٹی گارڈزکے اور کوئی نا تھا اور وہ ایوان صدر سے نکل کر سوات کی پہاڑیوں میں گم ہو گئے ،ایوب خان کی گاڑی جب ایوان صدر سے نکلی تو اسی کے ساتھ ساتھ ان کے اقتدار کا جنازہ بھی نکل گیا تھا ۔

بھٹو کے قلم نے ضیاء کو آرمی چیف بنایا تھا اور اسی ضیاکے قلم نے بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا ۔اورتاریخ کا خوفناک انتقام نوے کی دہائی کے بعد شروع ہوتا ہے ،نوازشریف نے جنرل جہانگیر کرامت سے استعفا لے کر اور جنرل علی قلی خان کو مسترد کرتے ہوئے پرویزمشرف کو آرمی چیف بنا یا تھااور کچھ ہی عرصے بعد وہی پرویزمشرف نواز شریف کے زوال کا پیغام لے کر آیا ۔تاریخ ایسے حکمرانوں اور ایسے عبرتناک کرداروں سے بھری پڑی ہے لیکن شاید نواز شریف ،زرداری ،بلاول اور عمران خان نے تاریخ پڑھی ہی نہیں یا وہ تاریخ سے سبق سیکھنا ہی نہیں چاہتے،چلیں انتظار کر یں تاریخ ایسے کرداروں اور ایسے حکمرانوں کو خود ہی سبق سکھا دیا کرتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :