سیاسی یتیم !

ہفتہ 17 ستمبر 2016

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

آپ امریکی سیاست کی دلچسپ صورتحال ملاحظہ کریں ،امریکہ کے سیاسی نظام میں الیکشن اور حلف کے درمیان ڈھا ئی سے تین ماہ کا فاصلہ ہو تا ہے اور یہی ڈھائی تین ماہ امریکی سیاسی نظام کی خوبی ہیں۔امریکی سیاسی نظام میں یہ ڈھائی تین ماہ بہت قیمتی ہوتے ہیں اور اور اس تین ماہ کی مدت میں بہت اہم فیصلے کیئے جاتے ہیں ۔اس مدت میں نئی منتخب حکومت کو گزشتہ حکومت کی پالیسیوں کے بارے میں بریف کیا جاتا ہے ،دنیا بھر میں امریکی مفادات کے تحفظ کا طریقہ سکھایا جاتا ہے، نئے منتخب صدر کو مختلف قوموں اور ملکوں کے ساتھ ہونے والے معاہدات کی تفصیل بتائی جاتی ہے ،نئی حکومت کو دنیا کے دو سو ساٹھ ممالک کے ساتھ خارجہ پالیسی کے خدوخال سمجھائے جا تے ہیں ،امریکی جنگوں کی تفصیل بتائی جا تی ہے ، پروٹو کول کا تعین کیاجاتا ہے ،سی آئی اے اور ایف بی آئی کے خفیہ منصوبوں کی تفصیل بتائی جاتی ہے ،آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کا طریقہء کا ر سمجھایا جاتا ہے ،جیو پالیٹکس کے اصول بتائے جاتے ہیں ،عالمی دجالی ریاست کے قیا م کا طریقہء کا ر وضع کیا جاتا ہے ،امریکہ کے اندرونی معاملا ت کی کہانی سنائی جا تی ہے اور اسی عرصے میں نیا صد ر اپنے لیئے نئی کابینہ چنتا ہے ۔

(جاری ہے)

اسی عرصے میں نئی حکومت کو گزشتہ حکومت کی پالیسیوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے ،نئی کا بینہ کو تعلیم ،صحت،اقتصادیات اور ٹرانسپورٹ کے مسائل بتائے جاتے ہیں ،امریکی آئین اور قانون کی ورق گردانی کروائی جا تی ہے اور اسی عرصے میں نئی کابینہ کو سارا سسٹم سمجھادیا جاتا ہے ۔اسی عرصے میں نئی کابینہ کو معاشرتی مسائل ،سوسائٹی کے ایشواور ان کا حل بتایا جاتا ہے ۔

اسی عرصے میں نئی کابینہ کو عالمی سیاست اور عالمی سیاست میں امریکی کردار کا سبق پڑھایا جاتا ہے اور اسی عرصے میں دنیا میں جاری امریکی خفیہ آپریشنز کا تعارف کروایا جاتا ہے۔ان دو ڈھائی ماہ میں نئی حکومت کو وہ سب کچھ سمجھا دیا جاتا ہے جو ہماری حکومت پانچ سال حکومت کرنے کے بعد سیکھتی ہے ،ان دو ڈھائی ماہ میں گزشتہ حکومت کو اپنی کارکردگی سمیٹنے کا موقعہ مل جاتا ہے ،فوری نوعیت کے فیصلے کرنے میں آسانی ہوتی ہے ،حکومت کو فوری نوعیت کے دورے کرنے اور سامان منتقل کرنے کے لیئے وقت مل جاتا ہے ،بیرونی ممالک کے ساتھ سفارت کار ی متائثر نہیں ہوتی ،جانے والی حکومت اپنے جاری منصوبوں کو مکمل کر لیتی ہے ،الوداعی پار ٹیوں کے لیئے وقت مل جاتا ہے اور اسی عرصے میں گزشتہ حکومت اپنے بیرونی دوروں کو حتمی شکل دے دیتی ہے ۔

اسی عرصے میں سابق وزراء سرکاری رہائش گاہوں کو خالی کر دیتے ہیں ،بجلی ،پانی ،فون اور گیس کے بل جمع کروانے کے لیئے وقت مل جاتا ہے اور اسی عر صے میں نئے وزراء اپنے سامان کو سرکا ری رہائش گاہوں میں سیٹ کر لیتے ہیں ۔اس طرح امریکی سیاسی نظام میں انتقال اقتدار کا مرحلہ بڑی خوش اسلوبی سے طے پاجاتا ہے اور نئی حکومت بڑی آسانی سے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیتی ہے ،اس طرح انتقال اقتدار سے سیاسی سسٹم کو دھچکا بھی نہیں لگتا اور نگران حکومت کے قیام کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی ۔


اس کے برعکس آپ پاکستان کے انتقال اقتدار کے سسٹم پر نظر دوڑائیں ،ہمارے ہاں دوتین ماہ تک نگران حکومت کے قیام کے لیئے مذاکرات چلتے رہتے ہیں ،نگران حکومت کے قیام کے سلسلے میں منعقد ہونے والا ایک ایک اجلاس قوم کو دس دس لاکھ میں پڑتا ہے ،سیاسی فضا میں طوفان آجاتا ہے ،ملک میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور اس سارے پراسس میں لاکھوں کروڑوں روپیہ خرچ کر دیا جاتا ہے ۔

نگران حکومت اپنے عرصہء اقتدار میں قو می خزانے کا منہ کھول دیتی ہے ،من پسند افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کیا جاتا ہے اور جاتے جاتے یہ نگران حکومتیں اپنے لیئے تا حیا ت مراعات کے بل پاس کر لیتی ہیں ۔ ان مراعات میں اہل خانہ کے لیئے تا حیا ت ملک اور بیرون ملک طبی سہولیات کی مفت فراہمی ،تاحیات سکیورٹی گارڈ،تاحیات پرائیویٹ سیکرٹری،خانساماں اور ڈرائیور کی سہولت،تاحیات سرکاری گیسٹ ہاوٴسزمیں مفت رہائش،تا حیات سفارتی پاسپورٹ ،فری ٹیلی فون ،تین ممنوعہ اور چھ غیر ممنوعہ ہتھیاروں کے لائسنس،ملک کے تمام ایئر پورٹس سے فری پک اینڈ ڈراپ ،پروٹوکول کوریج اور ایئر پورٹ فورس کے خصوصی اجازت نامے شامل ہوتے ہیں ۔

آپ اپنے جمہوری سسٹم کی دوسری خرابی دیکھیں ۔ہمارے ہاں انتخابات ہوتے ہیں ،ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کے ذریعے حکومتیں بنتی ہیں اور اتحادیوں کو ساتھ ملانے کے لیئے وزارتیں بانٹ دی جاتی ہیں۔بی اے پاس کو ریلوے کا وزیر بنا دیا جاتا ہے ،میٹر ک پاس کو پی آئی اے کا محکمہ سونپ دیا جاتا ہے ، گاوٴں سے منتخب ہونے والے ایم این اے کو ٹرانسپورٹ کا وزیر بنا دیا جاتا ہے ،جسے بولنا نہیں آتا اسے وزیر اطلاعات و نشریا ت بنا دیا جاتا ہے اور جسے اقتصادیات کے مفہوم کا پتا نہیں ہوتا اسے خزانے کا وزیر بنا دیا جا تا ہے اور پھر جب یہ ”قابل “وزیر کچھ ہی عرسے میں اپنی وزارت کو قبر کے دھانے تک پہنچا دیتے ہیں تو ان کو تبدیل کر کے چھری نئے قصائی کے ہاتھ میں پکڑا دی جاتی ہے اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔

یہ حقیقت ہے کہ ہماری کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس ایسے قابل اور ٹرینڈ وزراء نہیں جو ملک کے تما م شعبوں کو سنبھال سکیں ،ہمارے ہاں جو بھی جماعت اقتدار میں آتی ہے وہ سب سے پہلے گزشتہ حکومت کی پالیسیوں اور اس کے جاری کردہ ترقیاتی منصوبوں پر پابندی لگاتی ہے اوریوں جانے والی حکومت کے تمام اچھے کا م سیاست کی بھینٹ چڑ ھ جاتے ہیں ۔یہ ملک گزشتہ پینسٹھ سالوں سے حکمرانوں کے لیئے ایک سیاسی تجربہ گاہ بنا ہوا ہے اور ہر نیا لیڈر اس تجربہ گاہ میں نت نئے تجربات کر رہا ہے ۔

ہما را المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں حکومتوں کے بدلنے کے ساتھ ساتھ منصوبے اور پالیسیاں بھی بدل جاتی ہیں اور یہی ہمارے سسٹم کی بنیا دی کمزوری ہے ۔امریکہ اور برطانیہ میں ایسا نہیں ہو تا ،ان ممالک میں ہر جانے والی حکومت نئی حکومت کو اپنی پالیسیوں ،ترقیاتی منصوبوں اور خارجہ پالیسی سے آگا ہ کر دیتی ہے اور یوں وہاں سسٹم کو دھچکا نہیں لگتا اور نظام پہلے کی طرح چلتا رہتا ہے ۔

امریکہ ،برطانیہ،اٹلی ،جرمنی اور یورپ کے دیگر کئی ممالک میں تو اپوزیشن بھی باقاعدہ اپنی کابینہ تشکیل دیتی ہے جو ایک طرف حقیقی کابینہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھتی ہے اور دوسری طرف وہ خود سیکھ رہی ہوتی ہے کہ حقیقی کابینہ کے فرائض واختیارات کیاہیں ،حقیقی کابینہ کہاں غلطیاں کر رہی ہے اور اقتدار میں آکر ان غلطیوں سے کیسے بچنا ہے ،یہ ساری صورتحال ان ممالک کے سیاسی سسٹم کو مضبوط رکھتی ہے اور یوں وہاں حکومتوں کے آنے جانے سے کو ئی خاص نقصان نہیں ہوتا ۔

ہماری سیاسی جماعتوں اورسیاسی لیڈروں کو اب جمہوریت کا یہ سبق سیکھنا ہو گا ،یہ ملک گزشتہ اڑسٹھ سالوں سے سیاسی یتیم ہے اور اب اس ملک کو ایسے حکمرانوں اور لیڈروں کی ضرورت ہے جو اس ملک کی اڑسٹھ سالہ یتیمی کا احساس دور کر سکیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :