سندھ حکومت کا مدار س رجسٹریشن کا ترمیمی بل …خدشات،اثرات

پیر 26 ستمبر 2016

Qari Hanif Jalandhri

قاری حنیف جالندھری

سندھ حکومت کی جانب سے مدارس کی رجسٹریشن کے قانون میں ترمیم کا بل اسمبلی میں پیش کیا گیا جو کئی اعتبار سے حیران کن ،افسوسنا ک اور مضحکہ خیز ہے بلکہ اگر اس بل کو پاکستان پیپلز پارٹی کا خود کش حملہ یا مدارس دینیہ پر شب خون مارنے کی کوشش قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔واضح رہے کہ دینی مدارس نے کبھی بھی رجسٹریشن سے انکار نہیں کیا لیکن رجسٹریشن کے نام پر دینی مدارس کی مُشکیں کَسنے کی کوشش اور دینی مدارس کی انتظامیہ اور مدارس کے نمائندہ وفاقوں کے ساتھ کھلواڑ کی توکسی صورت اجاز ت نہیں دی جا سکتی ۔


سندھ حکومت کے ترمیمی بل کے حوالے سے چند سوالات ہیں جن کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر ذی شعور شخص فیصلہ کر سکتا ہے کہ سندھ حکومت کی اس مہم جوئی کے کس قدر منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔

(جاری ہے)


سب سے پہلی بات یہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں صرف دینی مدارس کی رجسٹریشن نہیں ہوتی بلکہ تمام تعلیمی ،رفاہی اور کاروباری ادارے کسی نا کسی شکل میں رجسٹریشن کے مرحلے سے گزرتے ہیں سادہ سی بات ہے کہ جیسے کسی بھی تعلیمی یارفاہی ادارے کی رجسٹریشن ہوتی ہے اسی طرح دینی مدار س کی بھی رجسٹریشن کر لی جائے اور انہی قواعد وضوابط اور طریقہ کار کو بروئے کارلایا جائے جو دیگر اداروں کے لیے رائج ہیں لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اول تو بہت سی سرگرمیوں پر حکومتی نگاہ ہوتی ہی نہیں ،ہوتی بھی ہے تو محض سرسری اور ساری تان آکر دینی مدارس پر ٹوٹتی ہے ۔

دینی مدارس کو بدترین امتیازی رویوں کا سامنا کرناپڑتا ہے ۔ مدارس دینیہ کے ساتھ جرائم پیشہ عناصر جیسا رویہ روا رکھا جاتا ہے جو نہایت افسوسناک اور کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس ترمیمی بل کے ذریعے نصف صدی سے زائدعرصے بلکہ قیام پاکستان کے وقت سے قائم مدارس کو بھی بیک جنبش قلم غیر رجسٹرڈ مدارس کی فہرست میں شامل کر کے از سر نو رجسٹریشن کروانے کا پابند قراد یا گیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایسے ادارے جن کی خدمات کا ساری دنیا اعتراف کرتی ہے اور جن میں زیرتعلیم رہنے والے علماء کرام سے پوری دنیا کے مسلمان استفادہ کرتے ہیں، جو ادارے اسلامی جمہوری پاکستان کی پہچان ہیں ان کے بارے میں یہ طرز عمل اپنا نا کہاں کا انصاف ہے؟۔ہمارے ہاں آئے روز حکومتیں اور پالیسیاں بدلتی رہتی ہیں اگر یہ سلسلہ ایک مرتبہ شروع کرلیا گیا تو پھر یہ روز کی رسم بن جائے گی اور دینی مدارس درس وتدریس میں مشغول رہنے کے بجائے رجسٹریشن کے بکھیڑوں میں ہی الجھے رہیں گے۔


تیسرا سوال یہ ہے کہ جب وفاقی او ر قومی سطح پر مدار س کے حوالے سے مذاکرات کاسلسلہ جاری ہے اور مدارس کے نمائندہ فاقوں کے قائدین صدرپاکستا ن ،وزیر اعظم پاکستان ،چیف آف آرمی اسٹاف ،ڈی جی آئی ایس آئی ،وفاقی وزیر داخلہ ،وزیر مذہبی امور اور وزیر تعلیم (اور ان کی متعلقہ وزارتوں) سے ملاقات اور مذاکرات کے ایک طویل سلسلے کے بعد باہمی اعتماد اور اتفاق رائے کے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں ایسے میں سند ھ حکومت کی طرف سے اچانک رجسٹریشن کے حوالے سے ترمیمی بل کا پنڈورہ باکس کھولنا حیران کن اور ناقابل فہم ہے۔

اسی طرح جب سندھ حکومت کی طرف سے ایک کوآرڈینیشن کمیٹی تشکیل دے دی گئی تھی اس میں سب اسٹیک ہولڈر کی نمائندگی موجود تھی اور اس بات پر اتفاق بھی پایاگیا تھا کہ مدارس کے بارے میں کوئی بھی قدم اس کمیٹی کی مشاور ت اور اسے اعتماد میں لیے بغیر نہیں اٹھایاجائے گا لیکن پھر بدقسمتی سے اپنے ہی معاہدوں اور اپنے ہی وضع کردہ ضابطوں کواپنے ہی پاوٴں تلے روند ڈالاگیا ۔


چوتھا سوال یہ ہے ایک ایسے وقت میں جب خارجی طور پر پاک بھارت جنگ اور محاذ آرائی کا ماحول ہے اور داخلی طور پر دہشت گرد تنظیموں اور پاکستان مخالف عناصر کی سرکوبی کا مرحلہ بخیر وخوبی سرہونے کو ہے خاص طور پر سند ھ میں موجود بہت سے مسائل حل ہونے کے قریب ہیں ایسے میں سندھ حکومت کی جانب سے دینی مدار س کی رجسٹریشن کے حوالے سے ایک انتشار وفساد کی بنیاد رکھ کر پوری قوم کی یکسوئی کو متاثر کرنا اتنا بھی سادہ معاملہ نہیں رہتا جتنا اس کو باور کروایا جاتا ہے۔


پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اسلام کی بنیاد اور کلمہ طیبہ کے نعرے پر اس لیے بنایا گیا تھا کہ یہاں دینی تعلیم کے مراکز کے قیام پر قدغنیں عائد کی جائیں اور مدار س کا قلع قمع کرنے کے منصوبے بنائے جائیں ؟ اس ترمیمی بل میں کسی بھی نئے مدرسہ کے قیام کو ایس پی کے این او سی ، سندھ بلڈنگ اتھارٹی کے منظور شدہ نقشے اوردیگر کئی ایسی شرائط کے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کا مقصدصرف اتنا ہے کہ اب کوئی نیا مدرسہ قائم ہی نہ ہو سکے اور قانون کی خلاف ورزی اور امن وامان کو خراب کرنے کے الزام کی صورت میں بغیر شنوائی کے حکومت اور ضلعی رجسٹرار کے ہاتھ میں ایک ایسی تلوار تھمانے کی کوشش کی گئی ہے جس کے ذریعے وہ کسی بھی مدرسہ کا سر بآسانی قلم کر سکے یوں یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی طرح کا ایک ایسا مبہم اور خفیہ ہتھیار ہو گا جس کا کسی کو بھی نشانہ بنایا جا سکے گا ۔


ان چند سوالات کے علاوہ بھی بہت سے سوالات ہیں جن کی وجہ سے ملک بھر میں تشویش اور اضطراب پایا جاتا ہے ۔جب سے اس ترمیمی بل کا غلغلہ بلند ہوا اس وقت سے مختلف لوگوں کی طرف سے اپنے خدشات اور جذبات کا اظہار کیا جا رہا تھا ۔راقم الحروف سفر حج پر تھا اس دوران بھی کئی لوگوں نے رابطہ کرکے تشویش کا اظہارکیا ۔اس مبارک سفر سے واپسی پر تھکن سے چور چور ہونے اور ناسازی ء طبع کے باوجود اس بل کے حوالے سے مختلف حضرات سے رابطے شروع کیے، اتحاد تنظیماتِ مدار س کا ہنگامی اور غیرمعمولی اجلا س طلب کیا اس موقع پر تمام مکاتب فکر کی قیادت نے اس مضحکہ خیز ترمیمی بل کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سختی سے مسترد کر دیا اور جمعہ کے دن کو یوم احتجاج کے طو ر پر منانے کا اعلان کیا ۔

یہ محض آغاز تھا ہماری خواہش اور کوشش ہے کہ حکومت ہمارے اس احتجاج کا سنجیدگی سے نوٹس لے خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت اس ساز ش کو سمجھے جو ان کے نووارد اور ناتجربہ کار وزیر اعلی ٰ کے ذریعے مذہبی طبقات اور دینی مدارس کی قیادت سے محاذ آرائی کی شکل میں سامنے آرہی ہے۔اور بلا تاخیر اس ناقابل فہم ،حیران کن،اسلام دشمن اور مدارس مخالف بل کو واپس لے ورنہ مدارس کی قیادت کسی بھی راست اقدام پر مجبور ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :