ایک تھپڑ۔۔بھولا ہوا سبق

اتوار 23 اکتوبر 2016

Farrukh Shahbaz Warraich

فرخ شہباز وڑائچ

یہ لیاقت آباد،کراچی میں واقع نادرا آفس کا بیرونی منظر ہے جہاں کچھ بے ہنگم سی قطاروں میں مردوں اور عورتوں کا ہجوم ہے ایسے میں ایک خاتون رپورٹر نمودار ہوتی ہے،چلاتی ہے،چیختی ہے غور سے دیکھیں اس شخص کو ،کیمرہ مین سمجھ جاتا ہے کہ اب اس گستاخ شخص کا چہرہ دکھانا مقصود ہے جس نے خاتون صحافی کو صحیح طرح سے جواب نہیں دیا۔کیمرہ دکھاتا ہے کہ ایف سی اہلکار کھڑا ہے رپورٹر اس کے قریب جاتی ہے اپنی ساری طاقت جمع کر کے چیختی ہے ”کیا تمہارے گھرمیں ماں بہن نہیں ہے“ ایک لمحے کے لیے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ اہلکار دنیا کا سب سے بڑا گناہ گار ہے اور لیڈی رپورٹر ایک فرض شناس جج ہے جو آج اس خونخوارمجرم کو سزا دے کر ہی چھوڑے گی وقت آگے بڑھتا ہے اگلے ہی لمحے خاتون صحافی طیش میں آتی ہے اس کا غصہ فطری ہے کیونکہ صحافی کا کام ہے سوال پوچھنا اور لوگوں کا کام ہے جواب دینا،سوال چاہے جیسا بھی ہو،دن ہو یا رات آپ پر جواب دینا لازم ہے۔

(جاری ہے)

خاتون صحافی نے جواب نہ پا کر سیکورٹی اہلکار کو کندھے سے پکڑ کر جنجھوڑا اہلکار آگے بڑھ گیا پیچھے مڑ کہ سوالیہ نظروں سے صحافی کی طرف دیکھنے لگا اور پھر ایک زناٹے دار تھپڑ کی گونج نے مجمع پر خاموشی طاری کردی اس تھپڑ کی گونج خاتون صحافی کے منہ پر کم سوشل میڈیا پر زیادہ محسوس کی گئی۔یہ اس ویڈیو کا منظر ہے جس پر سوشل میڈیا پر لوگ دن رات بحث کر رہے ہیں۔

اس ویڈیو کو کچھ دیر کے لیے بھول جائیں کچھ میڈیا کی اداؤں پر غور کیجیے اس رپورٹر کو یاد کیجیے جس نے بیٹے کی میت پر روتی ماں سے پوچھا تھا ”آپ کیسا محسوس کر رہی ہیں“۔وہ دوپہر آج بھی اپنی تپش سمیت لوگوں کے حافظے میں محفوظ ہے جب کیمرہ مینوں کے سامنے ایک شخص نے اپنے آپ کو جلا کر بھسم کر لیا لیکن ہم فوٹیج بنانے میں مصروف رہے۔چند دن پہلے منظر عام پر آنے والی ویڈیو تو آپ کو یاد ہو گی جس میں ایک شخص کو تھانے میں نیم بے ہوشی کی حالت میں بار بار دکھایا گیا اور بتایا جاتا رہا یہ پولیس تشدد کا شکار ہوا ہے،سارا دن ٹی وی یہ مناظر آن ائیر ہوئے تو سوشل میڈیا سے لے کر گلی محلوں میں پولیس کے خلاف نفرت کا ایک عجیب منظر نظر آیا،شام کو ایک نیا کلپ الیکٹرانک میڈیا پر دکھایا جانے لگا جس کے مطابق وہی شخص پہلے پولیس سے بدتمیزی کرتا ہے صرف اسی پر بس نہیں کرتا اکیلا ہی دو پولیس والوں سے ہاتھا پائی شروع کردیتا ہے۔

ایک واقعہ اور سن لیجیے ہمارے صحافت کے استاد بتاتے ہیں جب ایک لڑکی سے گاؤں کے کچھ بدمعاشوں نے جنسی زیادتی کی تو اس وقت کے حکمران نے اس واقعے کا نوٹس لیا اور اس لڑکی کے گھر کیمروں اور مائیکوں سمیت صحافیوں کی بارات لے کر پہنچ گیا،بوڑھے باپ سے سیاستدان نے انصاف دینے کا وعدہ کیا تو بوڑھے باپ نے کیمروں کی طرف دیکھتے ہوئے سیاستدان کو جواب دیا جس بات کا علم آج تک صرف اس گاؤں کو تھا آج آپکی وجہ سے پورے ملک کو پتا چل گیا آپ نے میری عزت کا جنازہ نکال دیا۔

زیادہ دور مت جائیے ایک سال پہلے کی بات ہے جب ایک سینئر پروفیسر کو نیب نے ایک کرپشن کیس میں گرفتار کیا تو میڈیا نے اس پروفیسر کا ایسا ٹرائل کیا کہ اس کے بچے ذہنی مریض ہوگئے،اس پروفیسرکی بیوی راہ جاتے لوگوں سے اپنے شوہر کی رہائی کے لیے التجائیں کیا کرتی تھی۔اب میڈیا میں برپا اس ہنگامے کی کچھ اہم وجوہات پر نظر ڈالتے ہیں
#ہماری درسگاہیں صحافت کے طلباء کو صحافتی اخلاقیات سکھانے میں پیچھے رہ گئیں ہیں۔


# میڈیا کی آزادی کا چرچا تو عام کیا گیا مگر اس کی حدود و قیود پر کبھی بات نہیں ہوئی۔
#پرنٹ میڈیا میں کسی حد تک چیک اینڈ بیلنس کی پالیسی ہے مگرالیکٹرانک میڈیا میں صحافیوں کی اخلاقی تربیت کا کوئی بندوبست نہیں۔
# ایک تاثر قائم ہو چکا ہے کہ میڈیا کسی کو جواب دہ نہیں جو ہر گزرتے روز کے ساتھ پختہ ہورہا ہے۔
#کسی چینل میں ایڈیٹوریل بورڈ کا کوئی تصور نہیں جو فیصلہ کر سکے کونسی خبر معاشرتی اقدار کے منافی ہے۔


اس شعبے کا تقدس برقرار رکھنے کے لیے حکومت، اہل دانش، صحافتی اداروں کی انتظامیہ،تنظیموں اور صحافتی فورمز کو مل بیٹھ کر میڈیا کے حوالے سے کچھ قواعد و ضوابط طے کرنے ہوں گے۔ جب تک کوئی پالیسی بنا نہیں لی جاتی کہ کونسا لفظ نشر ہونا چاہیے،کیمرہ لے کر کہاں گھسنا ہے کہاں نہیں اس طرح کے افسوس ناک واقعات ہوتے رہیں گے۔اس واقعے میں میڈیا کے لیے بہت بڑا سبق پوشیدہ ہے اگر ایک تھپڑ سے بھولا ہوا سبق یاد آجائے تو یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے۔۔!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :