پاکستان کا نظام عدل: ارباب اختیار کے لئے لمحہ فکریہ

منگل 25 اکتوبر 2016

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

ویسے تو پاکستان کی جیلیں ایسے معصوم اور بے گناہ لوگوں سے بھری پڑی ہیں جو اپنے نا کردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں ۔ جس کے پیچھے لوگوں کا غیض و غضب جس کو تقویت پہنچانے کے لئے ایف۔آئی۔آر میں اصل ملز مان کے ساتھ مزید دسیوں لوگوں کا نام بھی دے دیا جا تا ہے، پولیس والوں کی حرام خوری ،گواہان کا منافقانہ رویہ، وکلا ء کی بے ضمیری اورصدیوں پرانا وہی گھسا پٹا نظام ہے جس کی وجہ سے یا تو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے مزید کیس لڑنے کے لئے لوگوں کے پاس نہیں ہوتے اور وہ یونہی موت کا انتظار کرتے کرتے جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے اپنی سانسیں پاکستان کے عدالتی نظام کے نام کر جاتے ہیں اور جو قرض لے کر یا کسی اور ذرائع سے رقم جمع کر کے اپنا کیس لڑنے کی استطا عت رکھتے ہیں تو تاریخ پر تاریخ کی وجہ سے اُن کا حال بھی انہی لوگوں جیسا ہو تا ہے جو بالآخر اپنے حق میں آنے والے عدالتی فیصلے کے وقت یا تو اپنی سانسیں پوری کر چکے ہوتے ہیں یا پھر اس نفسیاتی طور پر اتنے مفلوج ہو چکے ہوتے ہیں کہ کسی قابل نہیں رہتے۔

(جاری ہے)


حالیہ ایک ماہ کے دوران دو ایسے واقعات منظر عام پر آئے ہیں جو پاکستان کے عدالتی نظام کی شفافیت کو شکوک و شہبات میں مبتلا کرتے ہیں کہ یہ کیسا نظام ہے جس میں بڑے بڑے چور تو باعزت بری ہو جاتے ہیں جبکہ بے گناہوں اور معصوموں کو اپنی نے گناہی ثابت کر نے کے لئے کئی سال لگ جاتے ہیں ۔ اس کی ایک مثال غلام قادر اور غلام سرور ہیں جن پرالزام تھا کہ انہوں نے دیگر ملزمان کے ساتھ مل کر ضلع رحیم یار خان کی حدود میں گاؤں رانجے میں عبد القادر اور اسکے بیٹے اکمل کو قتل کر نے کے بعداپنی بیٹی سلمیٰ کو بھی قتل کیا تھا۔

ٹرائل کورٹ نے نامزد ملزمان میں سے 6کو بری جبکہ ملزم غلام فرید کو دو بار عمر قیداور غلام قادر اور غلام سرور کو 3،3بار سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا۔ لاہور ہائیکورٹ نے بھی ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا جس پر اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی اور 2010سے اب تک کئی سالوں پر محیط دورانیے کے بعد 6، اکتوبر کو جب جسٹس آسف سعید کھوسہ کی سربراہی میں فل بینچ نے جب کیس کی سماعت کی تو عدالت کی نشاندہی پر ایک گواہ جس نے یہ بیان دیا تھا کہ جب وہ موقع واردات پر پہنچا تو عبدا لقادر اور اکمل قتل ہو چکے تھے ،پر کی گواہی پر سوال اٹھا یا کہ جن ثبوتوں کی بنیاد پر 6ملزمان بری ھو گئے ان ثبوتوں پر 2، افراد کو سزائے موت کیسے دی جا سکتی ہے ۔

جس کی روشنی میں عدالت نے ملزمان غلام قادر اور غلام سرور کو تینوں افراد کے قتل کے الزام سے بری کر دیا ۔ لیکن جب میڈیا نے ان دونوں کے بارے میں معلوم کیا تو بڑی افسوسناک صورتحال سامنے آئی ۔ انکشاف ہوا کہ 2015میں ان دونوں ملزمان کو پھانسی کے تختہ پر چڑھا دیا گیا ہے ۔
ایسا ہی ایک واقعہ اس سے کچھ روز پہلے رونما ہوا تھا جب سپریم کورٹ نے ہی 19سال سے بے گناہی کی سزا بھگتنے والے سزائے موت کی قیدی مظہر حسین کو بری کر نے کا حکم جاری کیا لیکن یہ حکم نامہ قیدی کے گھر والوں کو مزی اذیت میں مبتلا کر گیا۔

مظہر حسین بھی رہائی کا پروانہ ملنے سے دوسا ل قبل ہی ،پاکستان کے عدالتی نظام کے خلاف شکایات کے انبار لے کر اپنے رب کے حضور پیش ہو چکا تھا۔ یاد رہے !مظہر حسین کو 1997میں ایک شخص کے قتل میں اسلام آباد کی سیشن عدالت نے سزائے موت اور تین لاکھ روپے جر مانے کی سزا سنائی ۔ سپریم کورٹ کے جسٹس آصف کھوسہ کی سر براہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کے دوران استفسار کیا کہ ملزم کے 19سال ضائع ہو نے کا ذمہ دار کون ہے؟نظام عدل سچ کے بغیر نہیں چل سکتا، سب سے پہلے جھوٹی گواہی دینے والوں کے خلاف کاروائی ہونی چاہئیے۔


لیکن جسٹس صاحب کے علم میں یہ بات کیسے آئے کہ پاکستان کا نظام عدل اب صرف جھوٹ کے سہارے چل رہا ہے ۔ ماتحت عدالتوں میں ججوں کی بولیا ں لگتی ہیں اور سب سے زیادہ بولی دینے والا وکیل اس جج سے اپنی مرضے کے فیصلے لکھواتا ہے ۔بے ضمیر اور زیادہ سے زیا دہ پیسے جمع کر نے اور اپنی اولادوں کو حرام کھلانے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے والے وکلا اور ججوں کے آپسی گٹھ جوڑ سے مظہر حسین، غلام قادر اور غلام سرور جیسے بیسیوں لوگ اب بھی جیلوں کی سلاخون کے پیچھے اپنے نا کر دہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں ۔

جسٹس دوست محمد نے بھی فیڈرل جوڈیشل اکیڈ می میں خطاب کرتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیا کہ ہمارا جسٹس سسٹم انتہائی مہنگا اور جوڈیشل پراسس اکتا دینے والا ہے ۔ انسانی زندگیوں اور معاشرہ کو بچانے کے لئے کریمنل جسٹس اصلا حات انتہائی ضروری ہیں۔
قارئین ! لاہور ہائیکورٹ کے جیف جسٹس جناب منصور علی شاہ نے عدالتی نظام میں اصلا حات لانے کے لئے انقلابی بنیادوں پر کام شروع کیا ہے جس کے تحت انہوں نے کئی ججوں کو معطل اور سزا سنائی اور اس میں مزید بہتری لانے کے لئے عمل پیرا ہیں۔

اگر نظام عدل کے ارباب اختیار عدالتی نظام کی شفافیت میں واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں جسٹس منصور علی شاہ جیسے لوگوں کی خدمات لیتے ہوئے آج سے ہی تبدیلی کا آغاز کر نا چا ہئیے۔ خدانخواستہ اگر اب بھی ہمارے عدالتی نظام میں میرٹ پر انصاف کی فراہمی کے حوالے سے کوئی تبدیلی نہ آئی اور معصوم اور بے گناہ لوگ اسی طرح مرتے رہے تو اہل اختیار کو یاد رکھنا چاہئیے کہ ان کے خلاف رب کی بارگاہ میں ایسی بیسیوں اپیلیں جمع ہو رہی ہیں اور روز قیامت جس دن انبیا علیہ السلام جیسی بڑی بڑی بر گذیدہ ہستیاں خوف کے مارے کانپ رہی ہوں گی ، اُس روز ، بے گناہی کے جرم میں موت جیسی سزا کاٹنے والے لوگوں کے ہاتھ ہونگے اور ہمارے گریبان اور پھر اس کے بعد ان اپیلوں کی بھی سماعت ہوگی تو جبار و قہار کی بارگاہ میں جمع ہو رہی ہیں ۔

وہ ایسا دن ہو گا جب کوئی کسی کا دوست، سفارشی اور رشتہ دار نہ ہو گا ، اُس دن بادشاہی صرف اللہ جبار و قہار کی ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :