ان قانون شکن بد معاشوں کے خلاف کوئی ایکشن لے گا؟

منگل 1 نومبر 2016

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

بد قسمتی کے ساتھ ہمارے ملک کا شمار بھی ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں قانون کی ”انے واہ“ دھجیاں بکھیری جاتی ہیں ۔ حکمرانوں سے لیکر عام عوام ،جہاں جس کا زور چلتا ہے اسے اپنی مرضی کے مطابق نافذ کر نے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جس کا واضح ثبوت کچھ روزقبل سپریم کورٹ میں خوردونوش کے حوالے سے ایک کیس ہے، جب انہیں رپورٹ پیش کی گئی کہ مارکیٹ میں فروخت ہونے والے معروف کمپنیوں کے دودھ کا یہ حال ہے کہ ایک ہزار لیٹر دودھ سے کئی ہزار لیٹر تیار کیا جا تا ہے جس پر فاضل جج نے سختی سے ان انسان دشمنوں کے خلاف ایکشن لینے کا حکم صادر کیا۔

لیکن اتنے سخت آرڈر کے باوجودنہ تو ما لکان کی صحت پر کچھ اثر ہوا اور نہ حکام بالا کی غیرت جاگی ۔نتیجہ یہ کہ مارکیٹ میں ان کمپنیوں کے دودھ کی کھلے عام فروخت جاری ہے۔

(جاری ہے)


ابھی کچھ ہی روز قبل اس کا ایک اور نظا رہ ، لاہور کے جی۔پی۔او چوک میں تحریک انصاف کے وکلا کی طرف سے حکومت کے خلاف احتجاج کے دوران دیکھا گیا جب مظاہرین کی جانب سے ٹائر جلا کر پنجاب اسمبلی سے جی پی او چوک کی طرف آنے والی سڑک بلاک کر دے گئی جس کے نتیجے میں کچھ راہگیروں نے جو اپنے مریضوں کو ہسپتال ، بچوں کو سکول سے گھر اور ضروری کام کے لئے اس اکلوتے رستے سے گذرنا چاہتے تھے تو کالے کوٹ میں ملبوس شاہد نسیم عرف گلو بٹ نے بھی قانون کی ایسی کی تیسی کرتے ہوئے، بچوں کو سکول سے گھر لے جانے والے موٹر سائیکل سوار شہری کو زار دار تھپڑرسید کر دیا۔

میرے نزدیک تو یہ وکیل دوہرے گناہ کا مرتکب ٹہرا ہے ۔پہلا یہ کہ اس نے چار سال لگا کر قانون کی تعلیم حاصل کر نے کے باوجود بھی اپنے آپ کو قانون سے بالا تر سمجھا اور دوسرا یہ کہ اس نے بچوں کی موجودگی میں ان کے باپ کے منہ پر تھپڑ مار کے انہیں تا زندگی نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ یہ گناہ ایسا ہے جس کی کوئی معافی نہیں کیونکہ اپنی نظروں کے سامنے اپنے بے گناہ باپ کو تھپڑ کھاتے ہوئے و جس نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہوئے ہیں اس کی کسک پوری زندگی ان کے سینوں میں پلتی رہے گی اور پھر جس کے نتیجے میں وہ معاشرے کے قابل انسان بننے کی بجائے خدانخواستہ کسی اور رستے کے مسافر بھی بن سکتے ہیں ۔


قارئین ! ویسے تو آئے روز سر کاری ہسپتالوں میں کچھ ڈاکٹروں کی خود ساختہ تنظیموں کی طرف سے قانون شکنی اور بدمعاشی کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں میو ہسپتال لاہور میں بد معاش ڈاکٹر ز ایسوسی ایشن کے غنڈوں نے جس طرح مریض اور اس کے لواحقین پر تشدد کرتے ہوئے مسیحائی کا بھرم اور انسانی حقوق کے تما م تقاضوں کو اپنے گھونسوں اور لاتوں کی نوک پر رکھا۔

شکر ہے کہ اس دفعہ محکمہ صحت کو بھی کچھ ہوش آیا جنہوں نے واقعے پر انکوائری کمیٹی بنا نے کا اعلان کیا اور ایک اور اچھی بات کہ انکوائری کمیٹی نے بھی دوسری انکوائریوں کمیٹیوں جو صرف فائلوں تک ہی محدود رہتی ہیں کے بر عکس ملزمان کا تعین کرتے ہوئے ان کے خلاف کاروائی کی ۔جس کے نتیجے میں ایک دفعہ پھر بدمعاش ڈاکٹرز ایسو سی ایشن کے غنڈوں نے اپنے مفادات کی خاطر پچھلے کئی دنوں سے کئی سر کاری ہسپتالوں کے ان ڈور اورا ٓؤٹ ڈور بندکئے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ملک کے دور دراز کے علاقوں سے علاج کی خاطر آنے والے غریب مریضوں کو جس پریشانی اور ذہنی کوفت کا سامنا کر نا پڑرہا ہے اس کا حساب کون دے گا؟۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اربا ب اختیار کی طرف سے ان کی غنڈہ گردی کے خلاف کئی عرصہ سے طویل خاموشی کی وجہ سے یہ بد معاش عناصر اس قدر طاقتور ہو چکے ہیں کہ متعلقہ ہسپتال کے ایم۔ایس اور انتظامیہ بھی ان غنڈوں کے آگے بے بس و لاچار دکھائی دیتے ہیں ۔
قارئین کرام !تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ ترقی ان قوموں کے نصیب میں لکھی جاتی ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور حکمرانوں سے لیکر عام آدمی بھی قانون کو معتبر اور معزز جانتا ہو ۔

لوگ اپنی ذاتیات کو قانون پر نچھاور کرتے ہوئے ایک اچھے شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہیں لیکن ہمارے ہاں جس کسی کا بھی بس چلتا ہے وہ قانون کو ذاتیات پر نچھاور کرتے ہوئے لوگوں کی عزتوں کو پامال کر دیتا ہے۔ اپنے مفادات کے لئے ہزاروں غریب مریضوں پر علاج کے دروازے بند کر دیتے ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ عدلیہ ، حکومت اور ار باب اختیار، ملک میں قانون کی حکمرانی کو قائم کر نے کے لئے اپنا اپنا کردار اداء کریں اور نہتے ،معصوم اور بے گناہ لوگوں پر ہاتھ اٹھانے اور غریب مریضوں کو ذلیل و خوار کر نے والے قانون شکن، غنڈہ گرد عناصر کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے قانون کی رٹ قائم کی جائے۔

کچھ بعید نہیں کہ اگر ہم اس میں کامیاب ہو گئے تو ہمارا شمار بھی دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی فہرست میں آجائے اور اگر ہم یونہی قانون شکنی کے رستے پر گامزن رہے تو میٹرو، بڑے بڑے پل ، سڑکوں اور ملک کو پیرس بنا نے والے دعووں کے باوجود بھی ہمارا حال تباہ حال قوموں میں ہی شمار کیا جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :