جماعت اسلامی اس لیے کہ۔۔۔

منگل 1 نومبر 2016

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

جناب سلیم صافی نے اپنے ایک مضمون میں پاکستان میں دو پارٹیوں کی حکمرانی اور پاکستا ن کی عوام کے حالات درست نہ ہونے پر ایک قومی تجزیہ کار کے طور پر دلیلوں سے ثابت کیا ہے کہ پاکستان کے حالات صحیح سمت میں لے جانے کے لیے متبادل کے طور پر پاکستان میں حکمرانی کے قابل جماعت اسلامی کیوں نہیں؟ سلیم صافی کے تجزیہ اور اس پر شک وار جواب، جو فرخ سہیل گوئندی صاحب نے ”نہیں “کی شکل میں دیا ہے، لاہور کے ایک روز نامہ میں چھپا ہے ۔

اس پر شک وار تجزیہ کرنے سے پہلے دونوں حکمران جماعتوں کاجماعت اسلامی سے تقابلی جائزا پیش کرتے ہیں۔ شاید قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔مغربی جمہوریت جو پاکستان میں رائج ہے جہاں سے یہ آئی ہے وہاں مورثی سیاسی جماعتوں کا نام و نشان تک نہیں ہے۔

(جاری ہے)

جبکہ ہماری سیاسی پارٹیاں مورثی ہیں۔جماعت اسلامی اس خامی سے پاک ہے۔ پاکستان میں الیکشن کے ذریعہ سیاسی پارٹیاں حکمرانی حاصل کرتیں ہیں اس لیے ان میں بھی الیکشن ہونے چاہیے۔

سیاسی پارٹیوں میں اندرونی الیکشن تسلسل سے نہیں ہوتے ۔الیکشن کمیشن کے حکم پر برائے نام الیکشن کر کے خانہ پوری کی جاتی ہے، جماعت اسلامی میں اس کے قیام سے باقاعدگی سے اندرونی الیکشن ہوتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں میں پارٹی کے صدر سے مفاد اور ذا تی دوستی کی بنیاد پر عہدے تقسیم ہوتے ہیں ۔ جماعت اسلامی ایک دستوری جماعت سے۔ اس کے دستور کے مطابق چلانے والوں کو عہدوں پر لگایا جاتاہے۔

سیاسی پارٹیاں نہ تو دستوری ہیں نہ ہی کسی نظریہ پر ایمان رکھتی ہیں ان کا سب کچھ اقتدار ہے۔ جماعت اسلامی ایک دستوری اور نظریاتی جماعت ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ جماعت اسلامی اس لعنت سے پاک ہے۔ سیاسی پارٹیاں پاکستان کے دو قومی نظریہ کی صحیح حفاظت نہیں کرتی۔جماعت اسلامی دو قومی نظریہ کی محافظ ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے ہیڈ امیر ترین لوگ ہیں جنہیں ملک کے غریبوں کی پریشانیوں کا احساس نہیں۔

جماعت اسلامی کے منتخب امیر غریب اور نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں غربت کا احساس ہے۔ اس فرق کو سامنے رکھتے ہوئے گوئندی صاحب کے مضمون جو سلیم صافی کے مضمون ”ہاں“ کے جواب میں”نہیں“ کا جواب شک وار دیتے ہیں۔ اوپر بیان کی گئی جماعت اسلامی کی ڈھیر ساری خوبیوں کو گوئندی صاحب تسلیم کرتے ہوئے بھی سلیم صافی صاحب کی خواہشات سے تعبیر کرتے ہیں۔

جبکہ اس کا اصل تجزیہ یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد دو قومی نظریہ سے انحراف کر کے گوئندی صاحب جیسے کیمونسٹ، سوشلسٹ اور لبرلز نے نظریہ پاکستان کی حامی جماعت اسلامی کی مخالفت کی وجہ سے جماعت اسلامی تیسری قوت نہ بن سکی۔سلیم صافی صاحب نے شاید اپنے یاداشت کے مطابق جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے کارکنوں کی احتجاج کرنے کی صلاحیت کودوسری جماعتوں سے ممتاز کیا ہے جو صحیح ہے۔

۱۹۷۷ء کی تحریک کا میں چشم دیدہ گواہ ہوں جس میں تاریخی پہیہ جام ہڑتال ہوئی تھی۔ ساری تحریک جماعت اسلامی کے کارکنوں نے چلائی تھی۔ ہم جماعت اسلامی کے دفتر میں بیٹھے تھے تو فوج آئی اور کہا کہ کاغذ پر روزانہ حکومت کے خلاف خبر نامہ کون جاری کرتا ہے۔ دفتر انچارج نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوج کو کہا کہ حکومت نے خبروں پر پابندی لگائی ہوئی ہے اس لیے ہم یہ خبر نامہ کاغذ پرجاری کرتے ہیں۔

فوج نے ایک احتجاج میں لوگوں کے سامنے ایک لکیر کھینچی تھی کہ اس کو جو بھی کراس کرے گا اسے گولی مار دی جائے گی۔ جمعیت علمائے اسلام کے ایک عالم جو قومی اسمبلی کے امیدوار بھی تھے نے لا الہ الا اللہ پڑھتے ہوئے لکیر کراس کی تھی۔ پاکستان کے معروضی حالات کاذکرکرتے ہوئے گوئندی صاحب کہتے ہیں جماعت اسلامی اس لیے کامیاب نہیں ہوتی کہ اس کی رکنیت کا معیار ہے کہ پہلے صالح مسلمان بنو پھر جماعت اسلامی میں داخل ہو۔

مذہب بیزار ہر لبرل پاکستانی لوگوں کو معلو م ہونا چاہیے کہ جماعت اسلامی پاکستان میں حکومت الہیہ قائم کرنا چاہتی ہے جسے عرف عام میں اسلامی نظام یانظامِ مصطفے کہتے ہیں۔ ایسا نظام قائم کرنے کے لیے انسان کو کم ازکم اسلام کے بنیادی ارکان کا توپابند ہونا چاہیے۔ یہی تو جماعت اسلامی کا کم از کم معیار رکنیت ہے۔ تو اس میں کون سی ا نہونی بات ہے۔

گوئندی صاحب نے جماعت اسلامی کے طریقہ کو کیمونسٹ نظام سے جوڑ دیا ہے۔ بھائی! گوئندی صاحب اسلام کے ارکان اسلام کا نظام تو اسلام میں شروع سے قائم ہے جو جماعت اسلامی نے اپنے ہاں رائج کیا ہوا ہے۔ اگر کیمونسٹوں نے اس نظام کو اپنا یا تو جماعت اسلامی کو ان جیسا کہنا جماعت اسلامی سے زیادتی ہے۔گوئندی صاحب فرماتے ہیں۔جماعت اسلامی اپنے فلاحی کاموں کے ذریعے بھی پاکستان کی مقبول جماعت نہیں بن سکتی۔

جماعت اسلامی کہتی ہے کہ عوام پہلے پاک باز بن جائیں ۔ سراج الحق اور منور حسن جیسے بن جائیں تو جماعت اسلامی کی صالح قیادت ان پر حکمرانی کر سکتی ہے۔ ڈاکڑاسرار صاحب جماعت اسلامی سے علیحدہ ہو کر لوگوں کو صالح بنانے کے پروگرام پر کام کرتے رہے ہیں۔گو ئندی صاحب! یہ جماعت اسلامی کا قصور ہے کہ آپ تک جماعت اسلامی کا چار نکاتی پروگرام نہیں پہنچایا گیا یا پھر آپ نے اپنی آنکھیں بند کر کے کیمونسٹ، سوشلسٹ اور لبرل ازم کے حمام میں اپنے آپ کو ڈال لیا ہے ورنہ جماعت اسلامی نے شروع دن سے چار جہتی پروگرام، جس میں تطہیر افکار،تعمیرافکار،صالح افراد کی تلاش اور نظام حکومت کی تبدیلی حکومت پر کام کر رہی ہے۔

جماعت اسلامی گناہ گاروں کی جماعت ہے اس نے کبھی بھی فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ پیغمبروں کی سنت پر عمل کرتے ہوئے لوگوں کو اسلام پر چلنے کی دعوت دیتی ہے۔یہ ایسے لوگوں کی جماعت نہیں جو پہلے کیمونسٹ تھے۔ پھر امریکا کی طرف جھکاؤ کر لیا۔اب لبرل بن گئے۔گوئندی صاحب! یہ آپ سوچ سکتے ہیں کہ آپ لوگوں کو کس طرف بلا رہے ہیں اسلامی نظام یا دنیاوی نظام؟ جماعت اسلامی جن لوگوں کو اسلام کی طرف بلا رہی ہے یہی عوام جماعت اسلای کو منتخب کریں گے انشاء اللہ۔

گوئندی صاحب آخر میں جماعت اسلامی کی کامیابی کے لیے مشورہ دیتے ہیں کہ مسلمانوں کی اسلامی شعار کی طرف بلانے کو چھوڑ کر تعلیم اورروزگار کی فکر کرنی چاہیے۔ کاش کہ گوئندی صاحب سیرت کی کسی بھی کتاب پر غور کرتے۔ کیا رسول اللہ نے مکہ کے لوگوں کو یہ کہہ کر اپنے ساتھ ملایا تھا کہ تمھیں تعلیم اور روزگار مہیا کروں۔ نہیں نہیں! رسول اللہ نے ابو جہل کے ظالمانا نظام کو تبدیل کرنے کا کہا تھا۔

جب ابوجہل کا نظام ختم ہوا تو تعلیم اور روزگار خود بخود ملنے لگا تھا۔ اس پر ہی جماعت اسلامی چل رہی ہے۔ اے کاش! کہ گوئندی صاحب نے رسول اللہ کی اس حدیث کو بھی پڑھا ہوتا کہ تم میری لائی ہو شہریت کو نافظ کردو ۔تم زکوٰة لیے لیے پھرو گے تمھیں زکوٰة لینے والاکوئی نہیں ملے گا۔ مطلب سب لوگ خوشحا ل ہو جائیں گے۔جماعت اسلامی کو اپنی روش بدلنے کے مشورے سے پہلے اگر گوئندی صاحب ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کے طریقہ بھی سمجھا ہوتا ۔

سب نے ایک ہی روش پر کام کیا۔ اللہ کے بندوں کو بھولا ہوا سبق یاد کرایا تھا۔ جماعت اسلامی یہی کام کر رہی ہے یہی جماعت کا کیڈر ہے۔ جماعت اسلامی کبھی کیمونسٹ سرمایا دارانہ نظام اور کبھی لبرل نظام والے کیڈروں کی جماعت نہیں جو اپنا کیڈر بدلتے رہتے ہیں۔ آخر میں ایک مشہور شعرگوئندی صاحب کی نظر کرتا ہوں” اپنی ہی مٹی پر چلنے کاسلیقہ سیکھو۔سنگ مر مر پر چلو گے تو پھسل جاؤ گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :