جب جموں خون آشام ہوا

جمعہ 4 نومبر 2016

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

ہمارا خیال تھا کہ یہ صرف چند دنوں کی بات ہے اور جلد ہی حالات بہتر ہوجائیں گے اور ہم پھر سے اپنے گھروں میں واپس چلے جائیں لیکن بد قسمتی سے وہ دن کبھی نہ آیا اور ہم لوگ اپنے وطن واپس جانے کی آرزو لیکر ایک کرکے اس دنیا سے رخصت ہورہے ہیں۔جموں سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والوں کی اکثریت کی یہی سوچ تھی۔ جموں کشمیرسے اپنے گھر وں کو چھوڑ آنے والے کبھی بھی اپنے وطن کو بھلا نہ سکے اور بہت سے تو یہ وصیت کرکے اس دنیا سے جاتے تھے کہ اگر اْن کا انتقال ہوگیا تو انہیں بطور امانت دفن کیا جائے اور جب بھی موقع ملے تو اْن کے جسد خاکی کو اپنے وطن کی مٹی کے سپرد کردیا جائے۔

اسلامیان جموں پر قیامت ٹوٹی اور ڈھائی لاکھ سے زیادہ مسلمان کے خون سے جموں کی سرزمین رنگین ہوئی۔

(جاری ہے)

۱۹۴۶ء کے انتخابات اور تقسیم ہند کے منصوبہ کے بعد پنجاب کے تقسیم کی باتیں ہونے لگیں لیکن ریاست جموں کشمیر چونکہ برطانوی ہند میں شامل نہ تھی بلکہ ایک دیسی ریاست تھی جسے قانون آزادی ہند کے تحت اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا پورا اختیار تھا کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک ساتھ الحاق کا فیصلہ کرے یا پھر اپنی خودمختاری کا اعلان کرلے۔

مہاراجہ کشمیر ریاست کو خودمختار رکھنا چاہتا تھا اور اْسے کانگرس کی بجائے مسلم لیگ کی ریاستوں کے بارے میں پالیسی اپنے اور ریاست کے لئے فائدہ مند میں نظر آتی تھی اسی لیے اْس نے ۱۲ اگست۱۹۴۷ء کو ریاست جموں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ جوں کا توں (سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ) معائدہ کیا جس کی صورت میں دفاع، امورخارجہ، پوسٹل سروس، مواصلات اور کسٹم وغیرہ کے حکومت پا کستان کے کنٹرول میں چلے جانے سے ریاست جموں کشمیر کے لوگ بھی مطمئن ہوگئے۔

۱۴ اگست کو ریاست بھر میں پاکستان کی آزادی کا دن بہت خوشی سے منایا گیا اور مہاراجہ نے خود پاکستانی پرچم کو سلامی دی لیکن یہ خوشی زیادہ دن نہ قائم رہ سکی اور ریاست کے مختلف حصوں سے شورش کی خبریں آنا شروع ہوگئیں۔ گاندھی، نہرو، پٹیل اور دوسری کانگریسی قیادت کبھی بھی کشمیر کو ہاتھ نہیں جانے دینا چاہتی تھی اور انہیں ماؤنٹ بیٹن کا پورا تعاون حاصل تھا۔

قیام پاکستان کو بھی ایک ہفتہ ہی ہوا تھا کہ پونچھ کے علاقہ سے ریاستی حکومت کے خلاف مسلح کاروائیوں کا سلسلہ ریاست کے دوسرے تک پھیلنا شروع ہوگیا جس کے رد عمل میں دوسری جانب سے بھی جوابی کاروئیوں کا آغاز ہوگیا۔ بھارتی سامرج ریاست جموں کشمیر کو ہر قیمت میں ہڑپ کرنے کا فیصلہ کرچکا تھا۔ جموں کے مسلمان ان حالات کے لیے نہ تو تیار تھے اور نہ ہی اس کشت و خون کا تصور کر سکتے تھے۔

جموں اگرچہ مسلم اکثریتی علاقہ تھا مگر بھارت کے ساتھ سرحد ہونے کی وجہ سے ہندووں اور سکھوں کے جتھے منظم انداز میں حملہ آور ہونے لگے۔ اگرچہ اکتوبر کے وسط تک جموں شہر کے حالات پر امن تھے مگر دیہات کے علاقوں سے لوگ حفظ ماتقدم کے طور پر پاکستان کی جانب پناہ کی تلاش میں جانے لگے۔ میرے اپنے خاندان کے افراد کا کہنا ہے کہ ہم نے ذوالحج کا چاند پاکستان اور جموں کی سرحد پر دیکھا تھا جو پندرہ اکتوبر کی تاریخ ہوگی۔

اس کے بعد جب کشمیر پر ۲۲ کتوبر کو قبائلی حملہ شروع ہوا تو پھر جموں میں بھی قتل و غارت میں شدت آتی گئی۔ ۳۲ اکتوبر کو جموں کے ایک قصبہ میراں صاحب میں ڈوگرہ سپاہیوں اور جن سنگھیوں نے مسلمانوں کے مجمع پر شدید فائرنگ کرکے ہزاروں افراد کو شہید کردیا۔مسلمانوں کے گھروں پر حملے شروع ہوگئے اور ہزاروں مسلمان عورتیں کو اغواہ کرلیا گیا جن میں مسلم کانفرس کے صدر چوہری غلام عباس اور قائمقام صدر چوہدری حمید اللہ کی بیٹیاں بھی شامل تھیں۔

۲۶ اکتوبر کو جبری الحاق کا بہانہ بنا کر بھارتی فوج جموں کشمیر میں داخل ہوگئی۔ ۳ نومبر کو پٹیالہ سے مزید فوجی کمک جموں آگئی اور ۴ نومبر کو بھارتی وزیر دفاع سردار بلدیو سنگھ اور وزیر داخلہ سردار پٹیل مزید منصوبہ بندی کے لیے جموں آئے۔۵ نومبر کو مسلمانوں کو کہا گیا کہ اگر وہ پاکستان جانا چاہتے ہیں تو پولیس لائن پہنچ جائیں جہاں سے انہیں ٹرکوں اور گاڑیوں میں بھر کرلے جایا گیا مگر راستہ ہی میں انہیں شہید کردیا گیاصرف لوگ ہی اپنی جانیں بچا سکے۔

اگلے روز پھر جموں کے مسلمانوں کو قافلہ کی صورت میں پاکستان پہنچانے کی غرض سے روانہ کیا مگر انہیں بھی راستہ میں شہید کردیا گیا۔ اس قدر ظلم و بربریت کی مثال چشم فلک نے شائد پہلے نہ دیکھی ہوگی۔ عورتوں نے کنوؤں میں چھلانگیں لگا کر جان دے کر اپنی عزت بچائی۔ بچ نکلنے والے جب وہ واقعات سناتے تھے تو ر ونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے۔اس وقت کی قیادت اگر بالغ نظری اور مستعدی سے کام کرتی تو ممکن ہے کہ یہ قیامت صغریٰ بپا نہ ہوتی۔

ریاست جموں کشمیر اور پاکستان کے مابین جوں کا توں معائدہ ہونے کے باوجود باہمی تعلق کو مضبوط نہ بنایا گیا بلکہ سیالکوٹ سے جموں کے لیے ریل گاڑی بند کر دی گئی۔ قبائلی حملہ اگر ناگزیر بھی تھا تو اسے سیالکوٹ سے کٹھوعہ اور جموں کی جانب کیوں نہ کیا گیا۔ بھارت سے آنے والی صرف ایک شاہراہ کو کٹھوعہ کے قریب بند کرکے جموں کے مسلمانوں کو کیوں نہ بچایا گیا۔

اکتوبر کے وسط کے بعد جب جموں میں مسلمانوں پر حملے شروع ہوئے پھر بھی قبائلیوں کو جموں کی جانب کیوں نہ متحرک گیا گیا۔ مسلم کانفرس جموں کی قیادت کیوں حالات کا ادراک نہ کرسکی۔ قائد اعظم کے منع کرنے کے باوجود مسلم کانفرس کی قیادت نے کیوں بلاوجہ محاذ آرائی شروع کی جس کے نتیجہ میں جماعت کے صدر چوہدری غلام عباس، آر ساغر اور دوسرے جیل میں ڈال دیئے گئے۔

لاکھو ں انسانوں کا خون بھی بہا اور ریاست بھی جبری تقسیم ہوگئی لیکن اْن شہداء نے اپنے خون سے جو شمع روشن کی تھی وہ آج بھی روشن ہے اور جموں کشمیر کی تیسری نسل نے بھی اس جبری تقسیم کو تسلیم نہیں کرتی اور وہ مادر وطن کی آزادی کے لیے آج بھی متحرک ہیں اور اْس دن کی نہ صرف آرزو رکھتے ہیں بلکہ اس کے لیے مصروف جدوجہد ہیں جب آ ملیں گے سینہ چاکان وطن سے سینہ چاک۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :