خبردار جمہوریت کوخطر ہ لاحق ہے

جمعرات 3 نومبر 2016

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

”یار ایک بات تو بتاؤ؟یہ جمہوریت کس کو کہتے ہیں؟؟
”میرے خیال میں ایسا نظام جس میں عوام ہی سب کچھ ہوں، یعنی عوام کی حکومت ہو، عوام کیلئے اورعوام کے ذریعے“
”نہیں یار ! میں اپنے ہاں جو چوں چوں مربہ قسم کی جمہوریت کی تشریح پوچھ رہاہوں؟؟
” ارے ہاں یار!!! یہ وہ جمہوریت ہے جو آدھاتیتر ،آدھا بٹیر ہے ، مگر یہ عام آدمی کو بھی پتہ نہیں ہوتا کہ کب بٹیر سے تیتر اور تیتر سے بٹیر بن جاتی ہے،لیکن تم نے تشریح کیوں پوچھی؟؟؟
”یار اس لئے پوچھ رہاہوں کہ ہماری جمہوریت بہت کچی اورڈھیلی سی ہے اورہربات پر خطرہ لاحق رہنے لگتا ہے کہ کہیں ٹوٹ پھوٹ کاشکار نہ ہوجائے“
”یار کھل کر بول ،تو کیاکہناچاہتاہے“
”دیکھوناں! اگر کوئی سوال کرے کہ وزیراعظم ایوان میں کیوں نہیں آتے؟ فوراً ”بھاگ لگے رہن “کے قسم کے مشیر کہتے ہیں ”ششش !آہستہ بولو کہیں جمہوریت کو خطرہ لاحق نہ ہوجائے، کوئی سوال کرے کہ عوامی ووٹوں سے منتخب ہونیوالے وزیراعظم کا مزاج شاہانہ ہے تو پاس کھڑا ”سیاسی چوبدار جواب دیتاہے”آہستہ بولو کہیں سوئی ہوئی جمہوریت کی آنکھ نہ کھل جائے اوراس نے تو رو رو کروہ حال کرلینا ہے کہ بس کیابتاؤں، اس بیچاری کو سونے دو ، یہ سوتی رہے گی تو ہماری قسمت جاگی رہے گی“ اگر کوئی سوال کرے کہ ”منتخب وزیراعظم کا ہی بوجھ سرکار نے اٹھانا ہے یا انکے خیش قبیلے کی ذمہ داری بھی سرکاری خرچے سے پوری ہونی ہے؟؟ جواب ملتا ہے ”بکواس نہ کرو ،تمہارے ان ریمارکس سے جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوسکتاہے“ کوئی پوچھے وزیراعظم تو چلو وزیراعظم ہیں انہیں دو اڑھائی سو لوگوں نے منتخب کیا لیکن کیا ان کی بیٹی کو حق حاصل ہے کہ وہ وزیراعظم کے اختیارات استعمال کرے“ جواب ملتا ہے ”تم جمہوریت کے دشمن ہو، تم جمہوریت کو گراکر آمروں کو لانا چاہتے ہو، تم فوج کے ایجنٹ ہو، تم پاکستان کی ترقی کے دشمن ہو“ ،اس لئے تو پوچھ رہاہوں کہ”آخرجمہوریت ہے کیا؟ اورا س کی جان کس حکومتی طوطے میں چھپی ہوتی ہے؟؟ وہ طوطا آخر کیا کھاتاہے؟ چوری تو ظاہر ہے نہیں کھائے گا کیونکہ آخروہ شاہی خاندان کا طوطا ہے، ظاہر ہے کہ سونے کے نوالے چگتا ہوگا، لوہے کے فیکٹریوں کا مالک طوطا بھی لوہے اورسونے کی آمیزش سے تیار شدہ بیڈ پر آرام کرتاہوگا؟
”یار تم توخواہ مخواہ باؤلے ہورہے ہو، سیدھی سی بات ہے کہ ہم لوگ ایک اسلامی جمہوری ملک میں رہ رہے ہیں جہاں نہ تو اسلام ہے اورنہ ہی جمہوریت“
”نہیں یار! لیکن دعوے کیوں کئے جاتے ہیں جمہوریت کے؟؟دیکھو ناں ،برطانیہ کے وزیراعظم یورپی یونین سے علیحدگی کے خواہشمند نہیں تھے لیکن عوام کی اکثریت نے ریفرنڈم میں ان کی خواہش کے خلاف ووٹ دیدیا۔

(جاری ہے)

وزیراعظم جان گئے کہ عوام انہیں نہیں چاہتے لہٰذا وہ مستعفی ہوگئے “ اگرہمارے جمہوریت ہے تو پھر برطانیہ میں کیا ہے؟؟
”یار اسی لئے تو کہہ رہاہوں کہ تم باؤلے ہو ، تم جمہوریت کانام آتے ہی آس پاس کے ملکوں کی طرف دیکھتے ہو، مگر اپنے گھر کی حالت نہیں دیکھتے،میرے بھائی یہ پاکستان ہے جہاں سب چلتاہے اور ظاہر ہے کہ جہاں سب چلتاہے وہاں کچھ نہیں چلتا؟؟
”لیکن پھر بھی ہم جمہوری ملک کہلاتے ہیں اور اقوام عالم میں ہمیں اسی نام سے ہی یاد کیاجاتاہے ؟؟“
”یار ایک تو میں تمہاری جمہوریت کی راگنی سے تنگ آگیاہوں، ایک بارجو کہہ چکاہوں کہ جمہوریت نہیں ہے بادشاہت ہے بابا،بس ہرچار پانچ سال بعد نیا بادشاہ تبدیل ہوتارہتاہے، بس عوام کا کام ووٹ دینا اورپھر پانچ سال تک رونا ، یہی جموریت ہے؟؟
”لیکن عوام ووٹ تو جمہوریت کیلئے دیتے ہیں ، اپنے حقوق کیلئے دیتے ہیں ، پھر ․․․․․․․․“
”اگر اب تم نے جمہوریت کانام لیاتو میں تمہارامنہ نوچ لونگا، ارے ،یہ جمہوریت ہے جہاں وزیراعظم پارلیمنٹ کا بھی جواب دہ نہیں اگرپارلیمنٹ میں بھی ان سے سوال کیاجائے تو جمہوریت کوخطرہ لاحق ہونے لگتاہے، جہاں عام آدمی اپنے ہی ووٹوں سے منتخب ہونے والے شخص کیخلاف اس لئے احتجاج نہیں کرسکتے کہ انہوں نے جسے رہبر سمجھ کر ووٹ دیا وہ خائن نکلا “ تف ہے ایسی جمہوریت ہے پر؟؟؟
”چلو مان لیا کہ بادشاہ اوران کے دربان تو اس نظام کو جمہوریت کہتے ہیں لیکن وہ والے کیوں کہتے ہیں جو حکومت میں نہیں؟؟
”یار تم اتنی سی بات نہیں سمجھتے ! وہ جو جمہوریت کے چمپئن ہیں ان کاخیال یہ ہے کہ اس شاہ کے بعد ان کی بادشاہی آئے گی ۔

اس لئے وہ سوئی ہوئی قوم کو یقین دلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ”حضرات اسی کانام ہی جمہوریت ہے“
”لیکن یار ․․․․․․․․․اچھا چھوڑ نہیں پوچھتا ، تو ناراض ہوجائیگا کہ جمہوریت․․․․․․․؟؟؟؟
”ایک تو تمہاری سوئی ہی جمہوریت پر اٹکی ہوئی، یہ جو اسلام آباد میں لوگوں کوڈنڈے سوٹوں سے ہانکا جارہا ہے اورپنجاب بھر میں لاٹھی چارج جاری ہے یہ سب بھی جمہوریت ہے ، اپنوں کو کھلی چھوٹ اور دوسروں کو پانچ پانچ کی شکل میں بھی اکٹھے نہیں ہونے دینا ، یہ جمہوریت کا ہی قانون ہے، یقین نہیں آتاتو ،ذرا بازو پر دو رنگی پٹی باندھ کر باہر نکل ،اگر واپس آگیاتو سمجھ لینا کہ جمہوریت ہے نہ آیاتو پھر تمہاری قسمت؟؟؟ جمہوریت جمہوریت جمہوریت۔

۔۔۔اخ․․․․․․․․․․
”یار تمہیں جمہوریت سے خدا واسطے کا بیرکیوں ہے؟؟
”مجھے جمہوریت سے بیر نہیں بلکہ ان جمہوروں سے بیر ہے جو نام تو جمہوریت کالیتے ہیں مگر کام آمروں جیسے کرتے ہیں بلکہ بیچارے فوجی آمر تو خواہ مخواہ بدنام ہیں یہ تو اس سے بھی گئے گزرے ہیں؟؟
”یار خدا کا خوف کرو، کیوں آمریت اورجمہوریت کو اکٹھاکررہے ہو“‘
” میں کب اکٹھا کررہاہوں، تمہارے جمہوریت کے نام لیوا حکمرانوں کا مزاج کیا آمرانہ نہیں ہے؟؟ یہ لمبی لمبی لائنوں میں لگے تمہارے منتخب عوامی نمائندگان کے چہروں پر واضح لکھا ہے ”غلام ابن غلام“ کیا جمہوریت میں کبھی ”غلام“ کاتصورپایاجاتا ہے ؟؟ نہیں ناں․․․․مگر ہماری جمہوریت غلام پیداکرتی ہے، یہ جو اسمبلی میں بیٹھے ہیں ان کے خصوصیات میں واضح لکھاجاتاہے کہ ” یہ اول نمبر کا غلام اوردوسرے کو دوئم نمبر کی غلامی کا اعزاز حاصل ہے یعنی جو جس قدر غلامی میں استقامت رکھتاہے وہی سب سے زیادہ رتبہ پاتا ہے،یقین نہیں آتاتو محض تین ساڑھے تین سالہ ریکارڈ دیکھولو،
##رانا ثنااللہ کی انوکھی منطق###
رانا ثنا اللہ کاشمار ان سیاستدانوں میں ہوتاہے جنہیں میڈیا پرآنے اور اپنی بات دوسروں کوسنانے کا بہت شوق ہے ،قسم لے لیں جو کبھی سنجیدہ بات بھی ان کے منہ سے نکلی ہو، ابھی کل ہی پرویز خٹک کے قافلہ کی اسلام آباد پر تجزیہ گھولتے ہوئے ارشاد فرمارہے تھے کہ ”یہ کیابات ہوئی کہ بندہ دوسرے صوبہ سے اٹھ کر وفاقی دارالحکومت پرچڑھائی کرنے آجائے“ موصوف اسلام آباد کو وفاقی دارالحکومت کہہ تو گئے مگر انہیں پتہ نہیں تھا کہ اسلام آباد وفاق کامرکز ہے اور سبھی صوبوں کیلئے اس کی حیثیت برابر ہے، یہ پنجاب حکومت کے زیرنگیں علاقہ نہیں کہ کے پی کے باسیوں کادوسرے صوبے کے باسی قرار دیاجائے۔

اسلام آباد پر جتنا حق پنجاب والوں کا ہے اتنا ہی کے پی کے کا، وزیراعظم کو ایسے لوگوں کی خبر لینی چاہئے جو خواہ مخواہ صوبوں میں دوریاں پیداکررہے ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :