یہ بھی حقائق ہیں !

اتوار 6 نومبر 2016

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

پاکستان کے بارے میں عالمی سطح پر جو پرسیپشن بن چکی ہے اس میں اور ریالٹی میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم خود اس پرسیپشن کو بدلنا نہیں چاہتے۔ ہمارے صرف تین چار بڑے بڑے مسائل ہیں اگر وہ مسائل حل ہو جائیں تو بہت جلد ہماری یہ پرسیپشن غلط ثابت ہو جائے ۔ دنیا میں اس وقت ساٹھ اسلامی ممالک ہیں اور پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ ان سب کی قیادت کرے اور پاکستان کا مستقبل ان سب سے روشن ہے ۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم بہت جلد مایوس ہو جانے والی قوم ہیں ، پاکستان سے ہماری یہ توقع کہ آذادی کے صرف پچاس سال بعد یہ عالمی طاقتوں کی صف میں کھڑا ہو جاتا یہ اس ملک کے ساتھ ناانصافی ہے ،ہمیں اس ملک کو تھوڑا وقت دینا چاہیے ، یہ ملک اپنی عمر اور قد سے بڑھ کر ترقی کر رہا ہے ، ہمارا دفاع ناقابل تسخیر ہے ، ہم ایٹمی ممالک کی صف میں کھڑے ہیں اور ہمارے پاس دنیا کی بہترین فوج موجود ہے ، جنوبی ایشیا کا کوئی مسئلہ پاکستان کی شمولیت کے بغیر حل نہیں ہو سکتا اور ہم امریکہ و روس دونوں عالمی طاقتوں کے لیے مجبوری بن چکے ہیں اور مستقبل کی عالمی طاقت چین ہم سے بنا کر رکھنا چاہتا ہے ۔

(جاری ہے)

دنیا کے ساٹھ اسلامی ممالک کا کوئی مسئلہ ہو تو دنیا کی نگاہیں ہمارے طرف اٹھتی ہیں ،ایران سعودیہ تنازع ہو یا افغانستان کا مسئلہ دنیا بہر حال ہماری طرف دیکھتی ہے ۔ دہشت گردی اس وقت دنیا کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے لیکن پاکستان نے کافی حد تک اس مرض پر قابوپا لیا ہے،ہم اس مرض سے بچ نکلے ہیں لیکن دنیا ابھی تک اس چیلنج سے نمٹنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے ،برطانیہ جیسا ملک دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ہم سے مدد کا طلبگار ہے۔

آپ مانیں یا نا مانیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی معاشرہ بڑی تیزی سے اعتدال کی جانب بڑھ رہا ہے ، ہمارے ہاں ماضی میں شدت پسندی کا جو رجحان تھا وہ کافی حد تک کم ہوا ہے ،لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرنے لگے ہیں ،ایک دوسرے کی مساجد میں بلا خوف و خطر چلے جاتے ہیں اور ہماری نوجوان نسل نے سرکاری اور پرائیویٹ ادارو ں میں نیا خون بھر دیا ہے ،پرانے اور بوڑھے لوگ اداروں سے نکل رہے ہیں اور نئی نسل نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں ،یہ نوجوان نسل اپنے عہد کے مسائل کو بھی جانتی ہے اور یہ ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کی بھر پور صلاحیت بھی رکھتی ہے اس لیے اب پٹوار خانے سے پارلیمنٹ تک اور صحت سے لے کر تعلیم تک ہر جگہ تبدیلی نظر آ رہی ہے ۔

پاکستان نے 69سالوں میں اپنی عمر اور اپنے قد سے بڑھ کر کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔ دنیا میں کو ئی ملک ، کوئی قوم اور تہذیب ایسی نہیں جس نے اپنی پیدائش کے فورا بعد کا میابی کے جھنڈے گاڑ دیئے ہوں ، افراد ہوں ، اقوام یا ملک سب کو ارتقاء کے پل سے ضرور گزرنا پڑتا ہے۔ آج آپ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست بنائیں اور ا س کے بعد ان ممالک کی تاریخ اور ان کی ترقی کا جا ئزہ لیں آپ کو نظر آئے گا یہ تمام ممالک مسائل کے دریا عبور کر کے اس مقام تک پہنچے ہیں ، ان تما م ممالک نے مشکلات کی ندیاں عبور کی ہیں اور یہ تمام ممالک کرپشن، لاء اینڈ آرڈر، خانہ جنگی اور آمریت کے پہاڑ کاٹ کر موجودہ مقا م تک پہنچے ہیں ۔

فرانس اٹھارویں صدی تک دنیا کا بدترین ملک تھا ، 1789تک فرانس میں بادشاہی نظام تھا اور عوام فاقوں سے مر رہے تھے ۔ بادشاہ نے اپنی ایک مجلس شوری بنا رکھی تھی جس کا کام صرف ٹیکس نافذ کر نااور عوام کا خون چوسنا تھا۔ 1789تک سینٹ کے اجلاس کو بلائے ہوئے 116سال گزر چکے تھے یعنی 116سالوں سے سینٹ کا کو ئی اجلاس ہی نہیں ہو ا تھا ۔ عوام نے اپنی الگ اسمبلی بنا لی اور قومی اسمبلی کا لفظ پہلی بار یہیں استعمال ہوا ، عوامی راہنما ایک ٹینس کو رٹ میں اکھٹے ہوئے اور ملک کے لیئے ایک نیا دستور مرتب کر لیا ، دستور مرتب ہوا تو عوام اس کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے اور بادشاہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس دستور پر دستخط کرے ، بادشاہ نے انکار کیا تو عوام اسے زبردستی اٹھا کر لے آئے اور اس سے دستخط کروا لیئے ۔

آج فرانس اگرفرانس ہے تو اس فرانس کے پیچھے ایک لمبی کہانی اور ایک طویل جد و جہد ہے۔ آپ کو اٹھارویں صدی کے فرانس اور 2016کے پاکستان کے مسائل ایک جیسے نظر آئیں گے۔ آپ انڈیا کی سن لیں ، دنیا کے انتہائی غریب ترین ممالک میں انڈیا کا پہلا نمبر ہے ، انڈیا میں 1.2بلین لوگ آج بھی بجلی سے محروم ہیں ، دنیا کے ایک تہائی غریب انڈیا میں رہتے ہیں ، تقریبا 38فیصد انڈین خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں،کم عمری کی شادیوں میں انڈیا سب سے آگے ہے ،راجھستان،مدھیہ پردیش،اتر پردیش،بہار، جھاڑ کھنڈ، اڑیسہ اور مغربی بنگال انڈیا کے وہ علاقے ہیں جو دنیا کے غریب ترین خطوں میں شمار ہوتے ہیں ۔

دنیا میں سب سے ذیادہ ریپ کیسز انڈیا میں ہو رہے ہیں ۔ انڈین معاشرہ اخلاقی طور پر پاکستانی معاشرے سے بہت پیچھے ہے ، انڈین میڈیا پاکستانی میڈیا کا مقابلہ نہیں کر سکتا ، پاکستانی فوج انڈین فوج سے کہیں آگے ہے ، آئی ایس آئی اور راء میں زمین آسمان کا فرق ہے ، پاکستانی پارلیمنٹ انڈین پارلیمنٹ سے ذیادہ متحرک،باشعوراور مہذب ہے ۔ بس انڈیا کی کرکٹ اور اس کی فلم انڈسٹری نے انڈیا کا اصل چہرہ دنیا سے چھپایا ہوا ہے ورنہ حقیقت بڑی خوفناک ہے۔

پاکستان کی آبادی تقریبا بیس کروڑ کی حدوں کو چھو رہی ہے ،صرف کراچی شہر کی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے ، لاہور شہر بھی ڈیڑھ کروڑ افراد کو اپنے دامن میں سمائے بیٹھا ہے،ظاہر ہے جس شہر کی آبادی ڈیڑھ کروڑ ہو گی اس کے مسائل بھی اسی لحاظ سے ہوں گے ، جس ملک پر بیس کروڑ عوام کا بوجھ ہو گا اس کے مسائل بھی اسی لحاظ سے ہو ں گے ، اس ملک میں ٹرانسپورٹ ، سڑکیں ، بازار، ریلوے ، ایئر پورٹس، شاپنگ مالز، گھر، فلیٹ ، سیوریج سسٹم ،صاف پانی، غذائی اجناس اور ضروریات زندگی کے مسائل بھی اسی حساب سے ہوں گے ۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا ملک جس کی آبادی بیس کروڑ، جس کی فوج دس لاکھ، جس کے ہمسائے انتہائی ”شریف“، جس کی شرح خواندگی ساٹھ فیصداور جس کو اپنا میزائل سسٹم اور ایٹمی سسٹم اپ گریڈ رکھنا ہو اس ملک کے مسائل دنوں میں حل ہو جائیں ؟ شاید ایسا نہیں ہو سکتا اور اگر ہم ایسا کر تے اور سوچتے ہیں تو شاید ہم غلط ہیں ۔ ا ن سب حقائق کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پاکستان ایک آئیڈیل ریاست ہے یقینا مسائل ہیں لیکن ان مسائل کو اصل تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔

میں نوجوان نسل سے درخواست کروں گا کہ آپ جن جن اداروں میں جا رہے ہیں وہاں جا کر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں ،ہم سے پہلے جو طبقہ اور نسل تھی انہوں نے درختوں کے پتوں اور ٹوٹے پھوٹے فرنیچر سے کا م شروع کیا تھا ، انہیں ایک ایسا ملک ورثے میں ملا تھا جس کے پاس وسائل تھے نہ افراد،مشینری تھی نہ ساز وسامان ،ڈاکٹر تھے، انجینئر تھے نہ سائنسدان ،فیکٹریاں تھیں ،ملیں اور نہ کارخانے ،سڑکیں تھیں نہ ریلوے ،دفاتر تھے نہ سرکاری ملازمین ، جہاز تھے ، ایئر پورٹ اورنہ بندرگاہیں اور حد تو یہ تھی کہ ا س کے پاس اپنا کوئی آئین اور دستور بھی نہیں تھالیکن اس کے باوجود یہ لوگ ہمیں ایک ایٹمی پاکستان دینے میں کامیان ہو گئے ہیں اور اب اگلی ذمہ داری ہماری ہے ، ہم نے اپنے حصے کا کام کرنا ہے اور اب ہمارا دور شرو ع ہو چکا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :