الشیخ علی الہجویری اور معاصر عالم اسلامی

منگل 22 نومبر 2016

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

نفرت، عدم برداشت ،حسد اور کینہ ، ایسی تما م لعنتیں ہمارے معاشرے میں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں ۔ جس کی وجہ سے قتل و غارت گری، ظلم ، کرپشن اورنا ا نصافی جیسی کئی برائیاں جونک کی طرح معاشرے کے حسُن کو چوستی چلی جا رہی ہیں۔ حالات کی ستم ظریفی کے ساتھ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اب کہیں بھی وہ خانقاہیں، ادارے اور لوگ دکھائی نہیں دیتے جو لوگوں کی باطنی تر بیت کرتے ہوئے حسد، کینہ اور نفرت جیسی لعنتوں کو ختم کر کے روح کی پاکیزگی کا کام سر انجام دیا کرتے تھے ۔


محسن انسانیت جناب حضرت محمد ﷺ سے شروع ہوانے والا یہ سلسلہ جو اصحاب کرام ، تابعین، اولیا کرام سے ہوتے ہوئے جناب سید نا علی الہجویر  سے ملتا ہے ، غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان ادوار میں لوگوں کو سختی ،ترشی اور زبردستی کے ساتھ سمجھانے کی بجائے محبت، ایثار اور سینے کے ساتھ لگا کر ،ان کی ا صلاح کی جاتی تھی۔

(جاری ہے)

دکھ کے مارے، حالات کی ستم ظریفیوں کے تھپیڑے سہتے اور دنیا کے دھتکارے ہوئے لوگوں کو ان کے آستانوں پر سکون میسر آتا اور یوں ان کے سینوں میں نفرت، حسد، کینہ اور عدم برداشت کی جگہ محبت، اخوت اور ایثار کا جذبہ پروان چڑھتا۔


برصغیر میں یہ تاریخی کارنامہ جن اولوالعزم شخصیات نے سر انجام دیا ،جناب سیدنا علی الہجویر کو ان میں نمایاں مقام حاصل ہے ۔بلکہ آپ کی کتاب کشف المحجوب کو بھی یہ مقام حاصل ہے کہ اسے اولیا ء کرام اور صوفیا حضرات نے اپنی تصانیف میں تصوف کا مآخذ قرار دیا ہے ۔ اولیا اللہ میں سے سید نا علی الہجویر  کو بھی یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کی وفات سے کئی سو سالوں کے بعد بھی آپ کا مزار اقدس مر کز تجلیات و پناہ گاہ خلق خدا ہے ۔

لوگ اب بھی اپنے دکھوں کا مداوا کرنے یہاں آتے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ حرمین شریفین کے بعد علما ء و صلحا ، بادشاہوں و حکمرانوں اور تما م شعبہ زندگی کے عوام وخواص کی سب سے زیادہ حاضری آپ کے مزار پر ہوتی ہے جہاں سے لوگ فیوض و برکات کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ایک اور ایسی چیزیہاں دیکھنے کو ملتی ہے وہ وسیع و عریض لنگر خانہ ہے ۔

۔ میرا مشاہدہ ہے کہ دنیا کے کسی بادشاہ کے دروازے پر اس قدر مہمان نوازی نہیں ہوتی جتنی آپ کے مزار شریف پر ہوتی ہے ۔ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں غریب و سفید پوش لوگ اپنی بھوک مٹاتے دکھائی دیتے ہیں ۔
اس سال آپ کے عرس مبارک پر محکمہ مذہبی امور کے ڈائریکٹر جنرل، ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نے آپ کی تعلیمات کو عام کر نے اور آج جب امت مسلمہ ہر طرف مصائب و مشکلات اور تذبذب وتشکیک کا شکار ہے تو ان حالا ت میں علی الہجویر  کے حیات بخش فر مودات اور ان انقلاب آفرین تعلیمات سے روشنی حاصل کرنے کی غرض سے سہ روزہ عالمی کانفرنس بعنوان ”الشیخ علی الہجویری اور معاصر عالم اسلامی“کا انعقاد کر رکھا تھا جس میں نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا سے معروف علمی و روحانی شخصیات نے سیدنا علی الہجویر  کی تعلیمات اور افکار پر وشنی ڈالتے ہوئے بہت خوبصورت باتیں کیں۔

پہلے دن کے افتتا حی سیشن اور استاد العصرپروفیسر احمد رفیق اختر کے پروگرام میں مجھے بھی شرکت کر نے کا اعزاز حاصل ہوا ۔روحانی کیفیات کا ایک ایسا جذبہ روح و جسم میں اتر کر طبیعت میں سر شاری کی سی حالت پیدا کر رہا تھا اور پھر مجھ سمیت کئی لوگ مایو سی اور نا امیدی کی بد بوداراور کانٹے دار شاہراہ کی بجائے روحانیت، محبت اور امید کی شاہراہ کے مسافر بن چکے تھے ۔

اتنی خوبصورت محفل کو اس کی شان و شوکت اور عقیدت و احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اورانتہائی عمدگی کے ساتھ تما م امور کی سر انجامی بے شک طاہر رضا بخاری کا ہی کمال ہے ۔
قارئین کرام !الشیخ علی اہجویری  اور معا صر عالم اسلامی کے عنوان سے انعقاد پذیر سہ روزہ کانفرنس اس بات کا ثبوت ہے کہ معاشرے کو تباہی کی جانب لے جانے والی نفرت، حسد، کینہ اور عدم برداشت جیسی لعنتوں کو ختم کر نے میں اولیاء اللہ کے فر مودا ت کو عام لوگوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے جس کے لئے ایسی محفلوں کا انعقاد یقینا ایک قابل تحسین عمل ہے جس کے لئے محکمہ مذہبی امور، ڈاکٹر طاہر رضا بخاری ، ایڈمنسٹریٹر دا تا در بار ڈاکٹر نور محمد اعوان اور ان کی پور ی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :