عظموں ہجڑا اور ججا بدمعاش

منگل 22 نومبر 2016

Syed Badar Saeed

سید بدر سعید

بری ہے یا بھلی ہے لیکن یہ امت سرکار دو عالم کی ہے ۔قوم لوط پر عذاب آیا تھا جسے قیامت تک کے لئے سبق بنا دیا گیا ۔ ہم اس لئے بھی بچ گئے کہ اس امت کے لئے رحمت دو عالم ﷺ کی راتیں اٹھے ہاتھ اور بہتے اشکوں کے ساتھ گزری ہیں ۔ سیالکوٹ میں خواجہ سراؤں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ پورے ملک کا المیہ ہے ۔ کے پی کے میں خواجہ سراؤں کو قتل تک کیا گیا ۔

سندھ میں بھی ان کے لئے حالات اچھے نہیں ہیں ۔ سرکار نے سرکاری ملازمتوں میں ان کے لئے کوٹہ مخصوص کر رکھا ہے لیکن خبر یہ ہے کہ ان سیٹوں پر بھی خواجہ سرا ملازمت کے لئے درخواست نہیں دیتے ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم فوری نوعیت کے فیصلہ تو سنا دیتے ہیں لیکن بنیادی مسائل بھول جاتے ہیں ۔ خواجہ سراؤں کے لئے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ ایک اچھا فیصلہ ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اچھی ملازمتوں کے لئے ان کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے ۔

(جاری ہے)

کسی خواجہ سرا کے لئے تعلیم حاصل کرنا کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ ہم سب کو ہے ۔ وہ معاشرہ جو طلاق یافتہ جو چین سے جینے نہ دے ۔ جس معاشرے میں منگنی ٹوٹنے پر لڑکی کے ساتھ خاندان کے ہی برتاؤ میں فرق آ جائے اورمائیں اس سے اپنے بیٹے کی شادی پر آمادہ نہ ہوں ۔ اس معاشرے میں کسی ہجڑے بچے کا تعلیم حاصل کرناآبلہ پا تپتے صحرا میں سفر کرنے کے مترادف ہے ۔

کڑوا سچ یہ ہے کہ جن چند ہجروں نے تعلیم حاصل کی ان کا کہنا ہے کہ نجی اداروں میں انٹرویو دینے گئے تو انہیں مختلف فون نمبرز کی چٹ تھمانے کی کوشش کی گئی ۔ یہ ہمارے معاشرے کا وہ ادھورا پن ہے جسے اسی معاشرے کے ادھورے لوگ وقتاً فوقتاًبے نقاب کرتے رہتے ہیں ۔
ہجروں کے متعلق کئی باتیں زبان زد عام ہیں ۔کسی کا کہنا ہے کہ ان پر خدا کا عذاب نازل ہواہے تو کسی کے مطابق ان کی دعا یا بددعا لازمی قبول ہوتی ہے ۔

دونوں فکر کے حامل لوگ انہیں دو مختلف انتہاؤں پر لے جاتے ہیں ۔ ہم انہیں ایک انسان سمجھنے پر ہی آمادہ نہیں ہوتے ۔ مورخ بتاتا ہے کہ مغل بادشاہوں کے دور میں زنان خانے کے محافظ ایسے ہجرے ہوتے تھے جن سے تلوار زنی میں جیتنا کسی عام جنگجو کے بس کی بات نہ تھی ۔ جدیددنیا بتاتی ہے کہ ہجرے معاشرے کے ایک عام فرد کی طرح معاشرے کے اہم جز کے طور پر اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔

یورپ میں یہ عام شہریوں کی طرح متحرک کردار ادا کر رہے ہیں ۔ ہمارے یہاں البتہ صورت حال مختلف ہے ۔ ہم اس شہر ظلمت کے باسی ہیں جہاں ہجڑے کو گناہوں کی پوٹلی کے سوا کچھ نہیں سمجھا جاتا ۔ ناچ گانے ، گناہوں کی زندگی یا پھر بھیک مانگنے کے سوا ہم نے انہیں کوئی کردار ادا ہی کب کرنے دیا ہے ۔
خدا کے احکامات یاد آتے ہیں ۔اسلام نے انسان کو اپنے نفس پر قابو پانے کا کہا ہے ۔

ہم البتہ اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے لئے دوسروں کو گناہوں کی پوٹلیاں قرار دے کر قتل کر دیتے ہیں ۔ سیالکوٹ میں جو ہوا اس نے مہر لگا دی کہ اگر ہجڑے ادھورے ہیں تو مکمل ہم بھی نہیں ہیں۔اخلاقی طور پر ہم تباہ ہو چکے ہیں ۔ یہاں ججابدمعاش خواجہ سراؤں کے اڈے پر آتا ہے ۔ اسلحہ کے بل پر انہیں ہراساں کرتا ہے ۔ انہیں برہنہ کر کے تشدد کرتا ہے اور پھر اس تشدد کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ بھی کر دیتا ہے ۔

ایسے واقعات کے بعد سب سے پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ قانون کہاں ہے ۔ ججا بدمعاش کے ذہن میں بھی یہی ہو گا کہ ہمارے معاشرے میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ۔ اسے کوئی گرفتار نہیں کرے گا اور اگر کسی نے اس کی جانب آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو وکیل اس کی ضمانت کروا لے گا۔ میں نے سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیلتی یہ ویڈیو دیکھی تو میرے ذہن میں بھی سب سے پہلے یہی سوال آیا کہ پولیس کیا کر رہی ہے ۔

جذبات کے دھارے میں بہتے ہوئے میں اس پر ایک سٹیٹس لکھنے ہی لگا تھا کہ خیال آیا پہلے پتا کر لوں ۔ مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ پولیس نے ججا اور اس کے چار ساتھیوں کو گرفتار کر لیا ہے ۔ سچ کہوں تو ہمیں تھانہ صدرسیالکوٹ کے ایس ایچ او اور ان کی ٹیم کو سراہنا چاہیے جنہوں نے فورا ہی کارروائی کرتے ہوئے ہمیں احساس دلا دیا کہ قانون موجود ہے ۔ میں نے ا س کیس سے متعلقہ پولیس رپورٹ بھی دیکھی ہے ۔

جس کے مطابق ملزمان پر 5 دفعات لگائی گئی ہیں ۔ ججا بدمعاش کے مقدمے کا مدعی ایک ہجرہ ہے ۔یہ اسی ہجڑے کا ڈیرہ تھا جہاں اعجاز عرف ججا بدمعاش آتا تھا ۔ مدعی نے اپنی رپورٹ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ملزمان ان کو نہ صرف گناہ پر مجبور کرتے تھے بلکہ تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ ان سے بھتہ بھی لیتے تھے ۔ ان سے ہزاروں روپے اور موبائل فون بھی چھین لئے گئے ۔


صاحبو ! ایک ہجڑہ شہر کے بدمعاش کے مدمقابل آ کھڑا ہوا ہے ۔ یہ ججی بدمعاش اور عظموں ہجڑے کی لڑائی نہیں ہے ۔ یہ ہمارے معاشرے کی جنگ ہے ۔فیصلہ ہونے کو ہے ۔ اگر ججی بدمعاش جیت گیا توان تمام افراد کی جیت ہو گی جو کمزوروں پر تشدد کر کے اپنا ادھورا پن چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگر عظموں ہجڑا جیت گیا تو یہ ان کی جیت ہو گی جو ججی جیسے بدمعاشوں کو من مانی کی اجازت دینے کو تیار نہیں ۔

بھیڑیوں اور انسانوں میں سے ہمیں کسی ایک معاشرے کے علمبردار کے ساتھ کھڑا ہونا ہے ۔ پولیس نے عظموں ہجڑے کامقدمہ درج کر کے یہ پیغام دے دیا ہے کہ مظلوم اگر کمزور ہو تب بھی مقدمہ درج کروانا اس کا حق ہے اور پولیس اس کے ساتھ کھڑی ہو گی ۔ عظموں نے مقدمہ درج کروا کر ثابت کر دیا کہ ججا جیسے خودساختہ بہادروں کے لئے ایک ہجڑا ہی کافی ہے لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کہانی کو اس انجام تک کس نے پہنچایا ۔

اس انجام تک پہنچانے میں بنیادی کردار نہ ججا بدمعاش کا ہے اور نہ ہی عظموں ہجڑے کا ۔ کہانی کا یہ انجام اس تھانیدار کی بدولت ممکن ہوا جس نے ثابت کیا کہ پولیس ججا جیسے بدمعاشوں کی جیب میں نہیں ہے ۔ ججا بدمعاش جیسے لوگ گلی محلوں میں یہی بڑھک لگاتے ہیں کہ تھانیدار ان کی جیب میں ہے ۔ کسی تقریب یا صلح صفائی کے موقع پر تھانیدار کے قریب ہوکر اس کے ساتھ بنوائی گئی تصویر ایسی بڑھکوں کو حقیقت کا لبادہ پہنا دیتی ہے ۔ صورت حال اکثر اس کے برعکس ہوتی ہے جس کی تصدیق کوئی نہیں کرتا ۔ سچ کہوں تو عظموں ہجڑے نے یہ تصدیق کروا کر ثابت کر دیا کہ 20 کڑور میں ایک مرد بھی ہے جو ججا کے خلاف کیس کرنے کی ہمت رکھتا ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ یہ مرد عظموں ہجڑا نکلا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :