ایسے نہیں چلے گا !

پیر 5 دسمبر 2016

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

یہ 7اگست 1947کی صبح تھی،جناح دہلی کو ہمیشہ کے لیئے الوداع کہہ رہے تھے ،جہاز پر سوار ہوتے وقت جناح نے مڑ کر دہلی کی طرف دیکھا ،سرد آہ بھری اور حسرت آمیز لہجے میں بولے ”شاید میرے لیئے یہ دہلی کا آخری دیدار ہے “اور جہاز نے رینگنا شروع کر دیا، جہاز جب بلندی پر پہنچا تو جناح بولے ”آج سارا قصہ ختم ہو گیا “۔جناح نے دوپہر کا کھانا جہاز میں ہی کھایا اور اس کے بعد اخبا ر پڑھنے میں مصروف ہو گئے ۔

دہلی سے کراچی تک کا سفر اخبار پڑھتے ہو ئے گزرے ،جناح کے دائیں جانب اخباروں کا بنڈل پڑا تھا وہ اس سے ایک اخبار اٹھاتے ،اس کی ورق گردانی کرتے اور اسے بائیں جانب رکھتے جاتے تھے ۔ جہاز کراچی کے قریب پہنچ چکا تھا ،جناح نے نیچے نظر دوڑائی ،ہر طرف انسانوں کا ہجوم ا ن کے استقبال کے لیئے چشم براہ تھے ،مجمع میں اکثر لوگوں نے سفید لباس پہنا ہوا تھا اور یوں محسوس ہو تا تھا جیسے نیچے کو ئی برفانی طوفان آیا ہوا ہو ۔

(جاری ہے)

عوام میں بڑی تعداد مہاجرین کی تھی اور وہ جذباتی انداز میں نعرے لگا رہے تھے ۔جہاز نے کراچی ایئر پورٹ پر لینڈ کیا ، جناح جہاز سے باہر نکلے ان کے بعد ان کی بہن فاطمہ جہاز سے باہر آئیں لوگوں نے قائد اعظم کو دیکھا توفضا ”قائد اعظم زندہ باد “اور پاکستان زندہ آباد “کے نعروں سے گونج اٹھی ۔جناح آگے بڑھے مسلم لیگی لیڈروں سے مصافحہ کیا تو کئی لیڈروں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔

ایئر پورٹ سے گورنمنٹ ہاوٴس تک ہر طرف عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا اور اس ہجوم میں وہ بوڑھی فاطمہ بائی بھی تھی جو بچپن میں جناح کو رات دیر تک پڑھنے سے منع کرتی تھی اور اس کے جواب میں جناح کہا کرتے تھے ”اگر میں بھی سو جاوٴں گا تو عوام کی راہنمائی کو ن کر ے گا “۔گورنمنٹ ہاوٴس پہنچ کر جناح سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے رک گئے ،اپنے بحری اے ڈی سی احسن کو پاس بلایا اور اسے مخاطب کر کے کہا ”مجھے امید نہیں تھی کہ پاکستان میری زندگی میں بن جائے گا یہ سب اللہ کا کرم ہے اور ہمیں اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیئے“۔

گورنمنٹ ہاوٴس پہنچ کر جناح نے اپنے اے ڈی سی کو ساتھ لیا اور اپنی قیام گاہ کا معائنہ کیا ۔اس سے پہلے گورنمنٹ ہاوٴس میں سندھ کے گورنر مقیم تھے ،جناح نے گورنمنٹ ہاوٴس کے ایک ایک کمرے کا جائزہ لیا ،اے ڈی سی کو ہدایات دیں ،ایک کونے کے متعلق کہا”یہ کونا میرے اور مس فاطمہ کے لیئے مخصوص ہو گا “چند کمروں کی طرف اشارہ کر کے کہا ”یہ کمرے اہم اور خصوصی مہمانوں کے لیئے مختص ہوں گے ۔

“دن ڈھلنے لگا تو جناح نے عملے کے ایک افسر کو حکم دیا ”ایک ریڈیوسیٹ یہاں لگوا دیں تا کہ میں شام کی خبریں سن سکوں“یہ نیا افسر تھا اور جناح کے مزاج سے ناآشنا تھا بولا ”سر آپ تھک گئے ہیں آپ آرام کریں میں صبح تک ریڈیو سیٹ لگوا دوں گا “جناح کو غصہ آگیا فورا بولے ”یہ کام فورا ،ابھی اور اسی وقت ہو نا چاہیے،تم ریڈیو سیٹ لگوا کر گھر جاوٴ گے اور آج کے بعد یہ بات ذہن میں بٹھا لینا کہ گورنمنٹ کے کاموں میں میرے ساتھ یہ ٹال مٹول ہرگز نہیں چلے گا “۔


اگر آپ میں سچ سننے کی ہمت ہے تو مجھے کہنے دیں کہ بنیادی طور پر ہم ایک کام چور ،سست اور آرام پرست قوم بن کر رہ گئے ہیں ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے سب کام خود بخود ہوتے چلے جائیں اور ہم بیٹھ کر مکھیاں مارتے رہیں ، آپ دیکھ لیں ہماری منتخب حکومت پچھلے تین سالوں سے مردم شماری نہیں کر وا سکی ،سپریم کورٹ چیخ رہی ہے لیکن حکومت گھوڑے بیچ کر سو رہی ہے ، پنجاب حکومت پچھلے کئی سالوں سے یونیورسٹیوں کے نئے وائس چانسلرز کا تقرر نہیں کر سکی ،یہی حال ہمارے عوام کا ہے ،ہم ہر واقعے کو ”انجوائے “کرتے ہیں، گورنمنٹ کو اس واقعے کا زمہ دار ڈکلیئر کرتے ہیں او رخود کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے سب ٹھیک ہے کی چادر اوڑھ کر سو جاتے ہیں ۔

ہم نے اپنے ہر کام کی ذمہ داری حکومت پر ڈال رکھی ہے اور ہم سجھتے ہیں گورنمنٹ ہماری چوبیس گھنٹے کی ملازم ہے ۔آپ ترقی یافتہ مما لک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو نظر آئے گا دنیا میں جن ممالک نے ترقی کی اس میں معاشرے کے ہر فرد کا عمل دخل تھا ۔چین او رجاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے ،1945کے بعد جا پان امریکہ کا مقروض ہو گیا تھا لیکن آج امریکہ جا پان کا اربوں ڈالر کا مقروض ہے اور آج جا پان سب سے بڑا مہا جن اور امریکہ سب سے ذیادہ مقروض ملک ہے ۔

ایک دور میں امریکی کمپنی آئی بی ایم کمپیوٹر کی دنیا میں سب سے آگے تھی اورا سے کمپیوٹر کی دنیا کا دیو کہا جا تا تھا ،آئی بی ایم والے جا پان کی کمپیوٹر بنا نے والی کمپنیوں کا مذاق اڑاتے ہو ئے کہتے تھے آئی بی ایم اگر چھینک بھی ما رے تو ساری جا پا نی کمپنیاں ہوا میں اڑ جا ئیں لیکن پھر ایک دور آیا کہ جا پانی ساری کمپیوٹر انڈسٹری پے چھا گئے اور آئی بی ایم سے ذیادہ ماہر کمپیوٹر مارکیٹ میں لا کر رکھ دیے ۔

جا پانیوں نے اپنی تما م تر توجہ سا ئنس ،ٹیکنالوجی اور اقتصادیا ت کی طرف مو ڑ دی،ہر جا پانی نے اپنے گھر میں ایک چھوٹی سی فیکٹری لگا ئی اور مصنوعات تیار کر نا شروع کر دیں ،وہ لو گ سولہ سولہ گھنٹے کا م کر نے لگے ،انہوں نے اپنا نظام تعلیم درست کیا ،نیا سلیبس ترتیب دیا ،ذہین اسٹوڈنٹس کو امریکہ اور یو رپ کی اعلی یو نیورسٹیوں میں تعلیم کے لیے بھیجا ،پرا ئمری کے اساتذہ کی تربیت کی ،لا ء اینڈ وٴرڈر کی صورتحال کو بہتر بنا یا اور پو ری جا پا نی قوم نے امانت ،دیانت ،وقت کی قدر اور وطن کی محبت کو اپنا ما ٹو بنا لیا ۔

پھر کیا ہوا ، صرف تیس سال بعد تاریخ بدل گئی اورہیرو شیما اور نا گا ساکی پھر جا پا ن بن گئے ۔جاپا نی مصنوعات امریکی ،یورپی اور ایشیائی منڈیوں میں راج کر نے لگیں اور الیکٹرونکس اور آٹو مو بائل کے شعبے میں جا پان دنیا کا امام بن گیا ۔خود امریکی اپنے ملک کی چیزیں چھو ڑ کر جا پانی مصنوعات کو ترجیح دینے لگے ،ہمیں بھی جاپانیوں کی طرح اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا ہو گا ،مملکت خدادااور دنیا کی سب سے ذہین قوم جیسے یوٹوپیائی تصورات سے باہر نکلنا ہو گا،ہمیں حقیقت کی آنکھ سے حالات کا مشاہدہ کرنے اور آئندہ بیس تیس سال کی پالیسی وضع کر کے جاپانیوں کی طرح محنت کرنی ہو گی ۔

جب تک قوم کا ہر فرد اس دوڑ میں شامل نہیں ہو گا تب تک تبدیلی نہیں آئے گی اورجب تک پاکستان کا ہر شہری اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کرے گا تب تک یہ ملک مضبوط نہیں ہو گا ۔جب تک ہماری حکو مت چھوٹی انڈسٹری کو فروغ نہیں دے گی تب تک ہمارا کسان ،مزدور ،ترکھا ن ،معمار،لوہار اور کاریگر خود مختار نہیں ہو سکے گا ۔اٹھارہ کروڑ عوام کو مچھلیاں پکڑ کر کھلا نا حکومت کا کام نہیں عوام کو خو د بھی احساس کر نا پڑے گا ،جا پانیوں کی طرح ہمارے عوام کو بھی اپنے گھروں میں فیکٹریاں لگا نی ہوں گی ،ہماری خواتین سارا دن گھر میں بیٹھ کر مکھیاں مارتی ہیں ،یہ مقامی سطح پر کو ئی بھی پرو ڈکٹ تیار کر سکتی ہیں ۔

ہمارے نوجوان سڑکوں پر گھو منے اور چوکوں چوراہوں پر محفلیں سجانے میں بڑے ماہر ہیں ،یہ ہر وقت شارٹ کٹ کے چکر میں رہتے ہیں اور کام کے کلچر کو اپنی توہین سمجھتے ہیں ،ہمیں اپنی سوسائٹی میں کا م کے کلچر کو پروموٹ کر نا ہو گا ۔اگر ہم،ہمارے حکمران اور ہمارے عوام واقعی چاہتے ہیں کہ ہم خود مختار اور خوشحال ہو جائیں تواب ایسے نہیں چلے گا، ہمیں آئندہ بیس سال کے لیے جا پا نی بننا ہو گا اورہمیں 2016میں رہتے ہو ئے 1945کی جاپانی پالیسیوں پر عمل کر نا ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :