قوت ارادی اور نظر کا قانون
جمعہ 23 دسمبر 2016
(جاری ہے)
معروف روحانی سکالراور سلسلہ عظیمیہ کے سربراہ خواجہ شمس الدین عظیمی اپنی کتاب ”ٹیلی پیتھی سیکھئے “ کے صفحہ بارہ پر رقمطراز ہیں کہ ”آدمی دراصل نگاہ ہے، نگا ہ یا بصارت جب کسی شے پر مرکوز ہوجاتی ہے تو اس شے کو اپنے اندر جذب کر کے دماغ کے سکرین پر لے آتی ہے اور دماغ اس چیز کودیکھتا اور محسوس کرتا ہے اور اس میں معنی پہناتا ہے ، نظر کا قانون یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کو اپنا ہدف بناتی ہے تو دماغ کی اسکرین پر اس شے کا عکس پندرہ سیکنڈز تک قائم رہتا ہے اورپلک جھپکنے کے عمل سے یہ آہستہ آہستہ مدھم ہو کر حافظہ میں چلا جاتاہے ۔ اور دوسرا عکس دماغ کی سکرین پر آجاتا ہے۔ اگر نگاہ کو کسی ہدف پر پندرہ سیکنڈ سے زیادہ مرکوز کیا جائے تو ایک ہی ہدف بار بار دماغ کی اسکرین پر وارد ہوتا ہے اور حافظہ پر نقش ہوتا رہتا ہے۔ مثلا ہم کسی چیز کو پلک جھپکائے بغیر مسلسل ایک گھنٹہ تک دیکھتے رہیں تو اس عمل سے نگاہ قائم ہونے کا وصف دماغ میں پیوست ہو جاتا ہے اور دماغ میں یہ پیوستگی ذہنی انتشار کو ختم کردیتی ہے۔ہوتے ہوتے اتنی مشق ہوجاتی ہے کہ شے کی حرکت صاحب مشق کے اختیار او رتصرف میں آجاتی ہے۔اب وہ شے کو جس طرح چاہے حرکت دے سکتا ہے ۔ مطلب یہ کہ نگاہ کی مرکزیت کسی آدمی کے اندر قوت ارادی کو جنم دیتی ہے اور قوت ارادی سے جس طرح چاہے انسان کام لے سکتا ہے۔ٹیلی پیتھی کا اصل اصول بھی یہ ہی ہے کہ انسان کسی ایک نقطہ پر نگاہ کو مرکوز کرنے پر قاد رہوجائے۔نگاہ کی مرکزیت حاصل کرنے میں کوئی نہ کوئی ارادہ بھی شامل ہوتا ہے ۔ جیسے جیسے نگاہ کی مرکزیت پر عبور حاصل ہوتاہے اسی مناسبت سے ارادہ مستحکم اور طاقتورہوجاتا ہے۔ ٹیلی پیتھی کرنے والا کوئی شخص جب یہ ارادہ کرتا ہے کہ اپنے خیال کو دوسرے آدمی کے دماغ کی سکرین پر منعکس کر د ے تو اس شخص کے دماغ میں ہمارا ارادہ منتقل ہوجاتا ہے۔وہ شخص اس ارادے کو خیال کی طرح محسوس کرتا ہے ۔ اگر وہ شخص ذہنی طور پر یک سو ہے تو یہ خیال تصور اور احساسات کے مراحل سے گز رکر مظہر بن جاتا ہے“۔
ان واقعات اور نظر کے قانون سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ انسان کی زندگی میں توجہ کے ارتکاز اور قوت ارادی کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ ہمارے ارد گرد ایسے ہزاروں واقعات بکھرے پڑے ہیں کہ جب کسی معذور یا کم زور انسان نے اپنی قوت ارادی کے بل بوتے پر ایسے کام بھی کر دکھائے جو بظاہر نا ممکن نظر آتے ہیں ۔ ایک خاتون کا دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کو سر کر لینا، ٹانگوں سے معذور شخص کا دوڑ کے مقابلے میں اول آنا،غبی اور کم عقل ہونے کی بنا پر سکول کے نکال دیئے گئے بچوں کا عملی زندگی میں بڑی بڑی ایجادات کرنا،ملازمت سے نکال دیئے گئے افراد کا صنعتی اور کاروباری محلات کھڑے کر دینا ، ایسے افراد جن کو ڈاکٹرز لاعلاج قرار دے چکے ہیں ان کا زندگی کی دوڑ میں کامیابی سے لمبے عرصے تک شامل رہنا یہ سب ایسے واقعات ہیں جن کو عقل تسلیم نہیں کرتی لیکن بہرحال یہ واقعات حقیقت بھی ہیں اور ہمارے لئے انسپائریشن کا سبب بھی ۔ مشہور زمانہ سائنس دان سٹیفن ہاکنگ کی مثال ہمارے سامنے ہے جن کی آنکھوں کی پتلیوں کے علاوہ جسم کا ہر حصہ مفلوج ہے لیکن ان کی کارکردگی روزانہ دس کلومیٹر جاگنگ کرنے والے کئی سائنسدانوں سے بہتر ہے۔موجودہ دور میں فیس بک کے بانی کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح اس نے اپنی قوت ارادی ،ارتکاز توجہ اور مسلسل مشق سے” فیس بک “کو دنیا بھر کی ضرورت بنا دیا اور آج کروڑوں افراد دنیا بھر میں فیس بک کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ ان واقعات کو اگر ہم خالصتاََ سائنسی بنیادوں پر پرکھیں اور دماغ جو کہ خالق کائنات کی ایک محیرالعقول تخلیق ہے اس کی طاقت پر غور کریں توہمیں یہ سب واقعات حقیقی اور نارمل محسوس ہوں گے ۔
قارئین موجودہ دور میں ہر شخص بہت سے معاملات میں بے یقینی اور متزلزل ارادوں کے ساتھ کسی شعبے میں اپنی ناکامی کا رونا روتے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ جس کام میں وہ ناکام ہوئے ہیں ،درست سمت میں اگر تھوڑی سے محنت اورکی جائے تو کامیابی ان کے قدم چومنے کی منتظر ہے ۔ یہ درست ہے کہ انسان کی قسمت کا بھی اس کی زندگی میں انتہائی اہم کردار ہوتا ہے لیکن قدرت کسی کی محنت رائیگاں نہیں جانے دیتی ،قانون الہی کے مطابق محنت کا ثمر اللہ رب العزت کا وعدہ ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کیلئے مطلوبہ عناصرپوری تعدا دمیں مہیا نہ کئے گئے ہوں ۔ ہماری اس دنیا میں انفرادی مثالوں کے ساتھ ساتھ چین،جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ملکوں کی ترقی کی مثالیں بھی موجود ہیں کہ پستی اور گمنامی یا تباہی سے دوچار ہونے کے بعد ان قوموں نے کس طرح اپنے ارادے کی قوت سے خود کو دنیا کی ناقابل تسخیر اقوام میں شامل کر لیا ہے ۔ کاش ہماری قوم میں بھی انفرادی اور اجتماعی طور پر اس بات کا شعور اجاگر ہو اور ہم قدرت کی طرف سے دئیے گئے اپنے دماغ کی طاقت اور اہمیت کا ادراک کر لیں ۔ پھرپوری طاقت سے اپنے ارادے کو مثبت جہتوں میں استعمال کریں تاکہ ہماری قوم خود کو درپیش چیلنجزاور مشکلات سے نبرد آزما ہو کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکے اور یہ ملک اور خطہ امن و خوشحالی کی منزل سے ہمکنار ہو۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خواجہ محمد کلیم کے کالمز
-
صحت کے دشمن تعلیمی ادارے
جمعرات 10 جنوری 2019
-
سو دن، کرتار پورہ اور سشمادیدی کا ندیدہ پن
منگل 4 دسمبر 2018
-
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ دو دن
منگل 20 نومبر 2018
-
بابائے قوم محمد علی جناح کے نام ایک مکتوب
جمعرات 16 اگست 2018
-
لبیک ، لبیک ، لبیک یار سول اللہ ﷺ
پیر 30 جولائی 2018
-
دہشتگردی، سیاست اور قوم کا مستقبل
پیر 16 جولائی 2018
-
سیاسی کارکنوں کا احتجاج،اِشاریہ مثبت یا منفی ؟
ہفتہ 16 جون 2018
-
ماں جائی
بدھ 6 جون 2018
خواجہ محمد کلیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.