چھوٹے صوبوں کاقیام ناگزیرکیوں۔۔۔۔؟

اتوار 25 دسمبر 2016

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

باباجی آپ صوبہ ہزارہ کیوں بناناچاہتے ہیں ۔۔؟مجھے اپنایہ سوال اوراس کاجواب پانچ چھ سال بعدآج بھی اچھی طرح یادہے۔یہ 2010یا2011کی بات ہے ۔سورج پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہاتھا۔دوپہردویاتین بجے کاوقت تھا۔نہ جان نہ پہچان کے عالم میں۔۔ میں اچانک ان سے ملنے اس کے غریب خانے پہنچ گیا۔۔دروازے پردستک دی ۔۔اندرسے آوازآئی ۔۔کون ۔۔؟میں نے دھیمی آوازمیںآ ہستہ سے جواب دیا۔

۔کہ کہیں کوئی بے ادبی نہ ہو۔۔قلم کاایک رکھوالا۔۔میرایہ جملہ سنتے ہی ۔۔وہ شیرکی طرح ایک گرج دارآوازمیں کہہ اٹھے۔۔آپ قلم کے رکھوالے۔۔ تومیں ہزارہ کارکھوالا۔۔آؤاندر۔۔میں دھڑکتے دل اورکانپتے ہاتھوں کے ساتھ دروازے کواندرکی طرف دھکیلتے ہوئے اندرداخل ہوا۔۔وہ بالکل سامنے ایک چارپائی پرٹیک لگائے بیٹھے کسی اخبارکامطالعہ کررہے تھے۔

(جاری ہے)

۔میں جونہی آگے بڑھا۔۔وہ روایتی اندازمیں چارپائی سے اٹھ کرمیری طرف آگے بڑھے ۔۔آؤقلم کے رکھوالے ۔۔کیاحال ہے تمہارا۔۔؟طبیعت ٹھیک ہے۔۔؟گھربارمیں خیریت ہے۔۔؟بیٹھنے کے ساتھ ہی وہ ایک سانس میں بہت کچھ ہی پوچھ گئے۔۔یہ قائدتحریک صوبہ ہزارہ باباسردارحیدرزمان سے میری پہلی ملاقات تھی ۔۔دوتین گھنٹے ملاقات کے بعدجب لفظ لفظ کاپوسٹمارٹم ہوچکاتھا۔

۔تب میں نے باباسے ایک بات پوچھی ۔۔باباجی ۔۔ آپ صوبہ ہزارہ کیوں بناناچاہتے ہیں ۔۔؟وہ میراسوال سن کرپہلے مسکرائے۔۔پھربولے۔۔اس لئے کہ ہرشخص اپنا۔۔گھربناناچاہتاہے۔۔پرندے بھی اپناگھربناتے ہیں ۔۔جانوربھی اپناگھربناتے ہیں ۔۔گھرجب اپناہوتوپھرانسان غلام نہیں رہتا۔۔پھرنہ کوئی طغنے دیتاہے۔۔نہ گالی دیتاہے۔۔نہ حق پرڈاکہ مارنے کی کوئی جرات کرتاہے۔

۔بیٹے آپ کونہیں پتہ۔۔اپناگھربھی اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہوتی ہے۔۔گھرکی قدروقیمت ان سے پوچھیں۔۔جن کے اپنے گھرنہیں ۔۔جوروزمکان کے مالکوں کے طغنے سنتے ہیں ۔۔جوروزاپنے ہی حقوق کیلئے ترستے اورتڑپتے ہیں ۔۔پھرکیاآپ نے یہ بات نہیں سنی۔۔؟دیوارکیاگری میرے مکان کی ۔۔لوگوں نے اسے راستہ ہی بنادیا۔۔مکان اپنانہ ہوتوپھرحقوق اپنے ہوکے بھی اپنے نہیں ہوتے۔

۔یہ حکمران اورسیاستدان قسم کے ظالم لوگ تومکان والوں کے حقوق بھی ہڑپ کرجاتے ہیں ۔۔پھرجن کااپناگھرہی نہ ہووہ توکسی کھاتے میں ہی شمارنہیں ۔۔باباکی ان باتوں کی تو مجھے اس وقت سمجھ نہیں آئی ۔۔لیکن آج جھاری کس سے کوہستان تک کھنڈرنماسڑکیں ۔۔واٹرسپلائی سکیموں کے پھٹے پرانے ۔۔زنگ آلودپائپ۔۔ٹینٹ نماسکولز۔۔بھوتوں کے بنگلوں جیسے سرکاری ہسپتال۔

۔روزگارکیلئے دردرکی ٹھوکریں کھانے والے نوجوان۔۔اپنے حقوق کیلئے ترسنے۔۔تڑپنے۔۔ اورچھوٹے چھوٹے مسائل کے حل کیلئے دردرکی خاک چھاننے والے عوام کودیکھ کرمجھے ان الفاظ کی حقیقت سمجھ آنے کے ساتھ اچھی طرح اندازہ ہورہاہے کہ ،،اپناگھر،،کیوں ضروری ہوتاہے۔۔صوبہ ہزارہ کی صورت میں اگرچھوٹے چھوٹے مسائل کے حل کیلئے آج دردرکی خاک چھاننے والے ان ہزارے والوں کااپناگھرہوتاتوکیاان کی یہ حالت ہوتی۔

۔؟اوروں کی طرح ہم نے بھی کبھی کھلے دل سے ملک میں نئے صوبوں کے قیام کی حمایت نہیں کی ۔۔ہم توسادہ سے لوگ ہیں ۔۔یہ سوچ کے کہ اتحادواتفاق میں ہی برکت ہے۔۔جس طرح گھرمیں ہم ایک ساتھ رہتے ہیں ۔۔اسی طرح اس ملک میں بھی صوبوں اورقوموں کی قیدسے آزاد اوربے نیازہوکرہمیں ایک ساتھ رہناچاہئے لیکن ہمیں تویہ نہیں پتہ ۔۔؟کہ اس ملک میں چور۔۔لٹیرے اورڈاکوبھی رہتے ہیں ۔

۔جن سے بچنے کے لئے اپناالگ تھلگ گھرضروری ہے۔۔ورنہ پھرجیناہی محال اورحرام ہوگا۔۔بابانے ٹھیک کہا۔۔اس ملک میں اپناگھرنہ ہوتوپھراپنے حقوق بھی اپنے نہیں رہتے۔۔وفاقی اورصوبائی کابینہ میں بھرپورنمائندگی کے باوجودآج اگرہزارہ کی یہ بدترحالت ہے تواس کی بڑی وجہ صوبہ ہزارہ کاعدم قیام ہے۔۔ ہزارہ الگ صوبہ بنتاتوکیااس کے حقوق اس طرح سلب کئے جاتے۔

۔یاسلب ہوتے۔۔؟موجودہ حکومت کوبرسراقتدارآئے ساڑھے تین سال سے زائدکاعرصہ گزرچکا۔۔لیکن کوئی بتائے توسہی ۔۔ان ساڑھے تین سالوں میں قومی اورصوبائی اسمبلی میں بھرپورنمائندگی کے باوجودجھاری کس سے کوہستان تک ہزارہ میں کونسابڑاپراجیکٹ شروع ہوا۔۔؟وزیراعلیٰ پرویزخٹک پشاوراورتحریک انصاف کے چےئرمین عمران خان بنی گالہ میں بیٹھ کرخیبرپختونخوامیں تبدیلی۔

۔تبدیلی کے نعرے توروزلگاتے ہیں لیکن ان دونوں کوکے پی کے میں ہزارہ نظرنہیں آرہا۔۔؟کیاواقعی صوبائی نقشے میں ہزارہ خیبرپختونخواکاحصہ نہیں ۔۔؟اگرہے توپھراس علاقے کونظراندازکرنے کاکیامطلب۔۔؟مفادات کی حدتک توپی ٹی آئی ۔۔مسلم لیگ ن۔۔پیپلزپارٹی ۔۔اے این پی۔۔جے یوآئی سمیت تمام سیاسی پارٹیوں کوہزارہ اورہزارے کے عوام سے بہت لاڈ اورپیارہے لیکن جب یہاں کے حقوق کی بات آتی ہے توپھران مفادپرست حکمرانوں اورسیاستدانوں کوہزارے والوں سے بڑے دشمن کوئی نظرنہیں آتے۔

۔باباسردارحیدرزمان کو شرافت اوربزرگی کے باوجود اگرآج حکمران اورسیاستدان اپنادشمن سمجھ رہے ہیں یاتصورکررہے ہیں تواس کی بڑی وجہ مفادپرستوں کاگریبان پکڑکران کے منہ میں ہاتھ ڈالناہے۔۔مفادپرست سیاستدانوں اورحکمرانوں کواچھی طرح اندازہ ہے کہ اگر ہزارہ صوبہ بن گیاتوپھران کاآٹاپانی بندہوجائے گا۔۔ہزارہ سے تعلق رکھنے والے سیاستدان بھی اسی خوف کے باعث صوبہ ہزارہ سے دوربھاگنے کی کوشش کررہے ہیں ۔

۔جس وقت صوبہ ہزارہ کی تحریک چلی ۔۔ان دنوں ایک سیاسی بزرگ سے میری ملاقات ہوئی۔۔میں نے صوبہ ہزارہ کے قیام کے بارے میں اس کی رائے جانناچاہی۔۔اس بزرگ نے ایک بات کہی۔۔بیٹے جب تک سیاستدان زندہ ہیں تمہیں کسی صوبے کیلئے کوئی تحریک چلانے کی ضرورت نہیں ۔۔؟میں نے کہا۔۔حضرت میں سمجھانہیں ۔۔وہ گویاہوئے۔۔بیٹے تم چھوٹی چھوٹی باتیں کہاں سمجھتے ہو۔

۔جب تک اس ملک میں کوئی ایک سیاستدان بھی زندہ ہے۔۔اس وقت تک سارے عوام کوان کاحق نہیں مل سکتا۔۔کیونکہ یہ سیاستدان جہاں بھی ہوتاہے یہ اپناحصہ۔۔بھتہ یاایزی لوڈضروروصول کرتاہے۔۔نئے صوبوں کے قیام کامقصداپنی زمین پراپنااختیارہے۔۔اپنے وسائل کوخوداوراپنے کاموں کیلئے استعمال کرناہے۔۔آپ کے اس ہزارہ کوقدرت نے ہرنعمت سے نوازاہے۔۔اس مٹی سے سونانکلتاہے۔

۔گلیات۔۔نتھیاگلی۔۔ناران اورکاغان آپ کیلئے جنت سے کم نہیں ۔۔یہ جنت اگرآپ کے ہاتھ میں آتے ہیں توآپ بتائیں ۔۔آپ کے اس ہزارہ کے صدقے جومال اٹک پارپہنچتاہے اورجس سے آپ کے ان سیاستدانوں کومعقول حصہ ملتاہے۔۔پھران کاکیاہوگا۔۔اٹک اورٹیکسلاپاروالے تودورآپ کے یہ اپنے سیاستدان بھی کبھی نہیں چاہیں گے کہ ہزارہ صوبہ بن جائے۔۔وہی بات ہوئی۔

۔گلی ۔۔محلوں۔۔چوکوں ۔۔چوراہوں اورالیکشن مہم میں صوبہ ہزارہ۔۔صوبہ ہزارہ کے نعرے لگانے کے باوجود کئی سال گزرنے کے بعدبھی صوبہ ہزارہ نہ بن سکا۔۔ہزارہ کے سیاستدان اگرچاہتے توپھربھی ہزارہ صوبہ بن جاتامگربات وہی بزرگ والی ہے۔۔حکمرانوں اورسیاستدانوں کازیادہ آبادی اوررقبے والے علاقوں سے رویہ اورسلوک کچھ اچھانہیں ۔۔نہ ہی حکمران اورسیاستدان ایسے علاقوں کے بارے میں کچھ اچھے عزائم رکھتے ہیں ۔

۔جن لوگوں سے ایک ایک شہراورضلع سنبھالانہیں جاتاوہ پچیس اورتیس اضلاع اورشہرکیسے سنبھالیں گے ۔۔ملک کی ترقی اورعوام کی خوشحالی کیلئے ملک میں صوبہ ہزارہ اورصوبہ سرائیکی سمیت دیگرصوبوں اورچھوٹے انتظامی یونٹس کاقیام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔۔حکمران اورسیاستدان صرف اپنامفادنہ دیکھیں ۔۔نہ ہی غریب عوام کے استحصال کے ذریعے اپناالوسیدھاکریں ۔

۔یہ ملک ہم سب کاگھرہے۔۔اس کی ایک ایک دیواراورایک ایک اینٹ کی حفاظت ہم سب کافرض ہے۔۔اس گھرکی اچھی طرح حفاظت تب ہوگی جب اس میں مقیم ہرشخص کواس کاپوراحق ملے گا۔۔اورجب تک نئے صوبے نہیں بنتے اس وقت تک غریب اورپسماندہ علاقوں کے عوام کوان کاحق ملناممکن نہیں ۔۔اس لئے حکمرانوں اورسیاستدانوں کوذاتی مفادات سے بالاترہوکرملک میں نئے صوبوں کے قیام کے لئے اپناکرداراداکرناچاہئے تاکہ ملک ترقی کی راہ پرگامزن ہوسکے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :