جواب کے منتظر !

پیر 16 جنوری 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

کہانی دو سال پہلے شروع ہوتی ہے ،وزیر آباد کے دو نوجوان عدیل اور عثمان شہر کے عین درمیان سے گزرنے والی ریل کی پٹری پر بیٹھ کر یورپ جانے کے سہانے خواب دیکھتے تھے،یہ دونوں پڑھائی میں نکمے اور گلیوں میں گھومنے کے ماہر تھے ، والدین ان کی آوارہ گردی سے تنگ تھے ، ایک دن عثمان نے عدیل سے کہا یا رہم کب تک یہاں گلیوں میں گھومتے اور گھر والوں کی باتیں سنتے رہیں گے ، ہمیں اب روز گار کی فکر کرنی چاہئے اور ہمیں اپنے والدین کی سہارا بننا چاہئے۔

عدیل نے عثمان کی بات سنی اور طویل قہقہے سے اس کی بات کو ہوا میں اڑا دیا۔ تھوڑی دیر بعد عدیل بولا یا رہم یہاں ساری زندگی بھی محنت کرتے رہے تو اپنا گھر نہیں بنا سکیں گے ،اگر تم واقعی اپنے والدین کا سہارا بننا چاہتے ہو تو پھر سوچ لو ہمیں یونان اور یورپ کی طرف نکلنا ہو گا۔

(جاری ہے)

عثمان نے عدیل کے ہاں میں ہاں ملائی اور بات کی ہوگئی۔ عدیل نے یونان میں مقیم اپنے دوست عامر سے رابطہ کیا اور عامر نے انہیں گوجرانوالہ کے ایک ایجنٹ سے ملوا دیا۔

اگلے دن عثمان اور عدیل ایجنٹ سے ملنے گوجرانوالہ پہنچ چکے تھے۔ گوجرانوالہ کا افضال اور اس کا بھائی سہیل ایجنٹی کا کاروبار کرتے تھے، عدیل اور عثمان افضال سے ملے اور ترکی تک پہنچانے کے لئے سوا دو لاکھ میں بات پکی ہو گئی۔دو دن بعد عدیل اور عثمان گوجرانوالہ پہنچ گئے ، وہاں سے انہیں براستہ لاہور، کراچی اور وہاں سے کوئٹہ لیجایا گیا ، کوئٹہ میں اس گروپ میں گوجرانوالہ کے کچھ اور لڑکے شامل ہو گئے اور اس گروپ کی تعداد دس ہو گئی۔

تین دن کوئٹہ رہنے کے بعد انہیں ایرا ن کا بارڈر کراس کرویا گیا ، ایک ہفتہ ایران کے دارلحکومت تہران میں چھپے رہنے کے بعد انہیں اگلی منزل ترکی کی سرحد پر لیجایا گیا ، جیسے ہی یہ گروپ ترکی میں داخل ہوا تمام لڑکوں کا رابطہ ان کے گھر والوں کے سا تھ کروایا گیا ، عدیل اور عثمان نے بھی اپنے گھر بات کی کہ ہم ترکی پہنچ چکے ہیں ایجنٹ کو دو لاکھ روپیہ ادا کر دیا جائے۔

یہاں سے کہانی میں ایک نیا موڑ آتا ہے ، ایک ہفتے بعد عثمان اور عدیل اور گوجرانوالہ کے ذیشان کے گھر ترکی کے نمبر سے کال موصول ہوتی ہے کہ اگر آ پ اپنے بچوں کو زندہ سلامت دیکھنا چاہتے ہیں تو بیس ہزار ڈالر کا اہتمام کر لیں ،بعد میں ان لڑکوں کی بھی اپنے گھروالوں سے بات کروائی جاتی ہے کہ ہمیں اغواء کر لیا گیا ہے اور اغواء کار ہم سے بیس ہزار ڈالر مانگ رہے ہیں ۔

اس کے ساتھ ہی اغواء کاروں نے نوجوانوں پر تشدد کی ویڈیوز بھی ان کے گھر والوں کو وٹس ایپ کر دیں ، لواحقین کے ذریعے سے یہ بات میڈیا اور بعد ازاں حکومت تک پہنچی ، دفتر خارجہ متحرکہ ہوااور ترک حکام کی کوششوں سے ان نوجوانوں کو بازیاب کر وایا گیا۔
آ پ سوچ رہے ہوں گے کہ اس واقعے کا اصل ذمہ دار کون ہے ؟ آپ شاید مجھ سے اتفاق نہ کریں لیکن میں اس سارے واقعے کا ذمہ دارنواز شریف ، شہباز شریف اور حکومت کو سمجھتا ہوں ، کیونکہ یہ تو وہ جونوان ہیں جو غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جا رہے تھے ہماری حکومت تو قانونی طریقوں سے باہرجانے والی انسانی وسائل کو بھی نہیں روک رہی۔

گزشتہ کچھ عرصے سے ملک بھر میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان کے ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ گزشتہ دس برس میں 57 لاکھ 74 ہزار سے زاید ہنرمند اور اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی روزگار کے لیے بیرون ملک گئے ہیں۔ یعنی حکومت پاکستانی نے جن ڈاکٹرز اور انجینئرز پر بیس بیس لاکھ روپے خرچ کیئے تھے یہ ملک ان لاکھوں ڈاکٹرز، انجینئرز اور ہنرمندوں کی خدمات سے محروم ہوگیا ہے۔

گزشتہ دس برس میں 40 ہزار سے زاید انجینئرز، 13ہزار سے زاید ڈاکٹرز، 7 ہزار اساتذہ، ڈھائی لاکھ ٹیکنیشن، 38 ہزار منیجرز اور ڈھائی ہزار فنکار روزگارکے حصول کے لیے ملک چھوڑ چکے ہیں۔ 1لاکھ 8ہزار 634 اعلیٰ تعلیم یافتہ، 1لاکھ 37ہزار 800 انتہائی ہنر مند، جبکہ 23لاکھ 68ہزار دیگر ہنرمندافراد بیرون ملک جا چکے ہیں۔ یہی نہیں 6لاکھ 97ہزار نیم ہنر مند جبکہ 24لاکھ 62ہزارغیر ہنر مند افراد بھی پاکستانی کو چھوڑ کر دوسرے ممالک میں جا آباد ہوئے ہیں۔

صرف دس سال میں فنی مہارت رکھنے والے 57 لاکھ سے زاید پاکستانیوں کا دوسرے ممالک سدھار جانااوربیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کی تعدادکا ایک کروڑ تک پہنچ جانا ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ہماری حکومت اپنے افراد کو روز گار مہیا کرنے میں ناکام رہی ہے ، پچھلے پچیس تیس سالوں میں جس رفتار سے آبادی بڑھی ہے اور خاندانوں کا معاشی بوجھ بڑھا ہے ہماری کسی صوبائی یا مرکزی حکومت نے اس معاشی بوجھ کو بانٹنے کے لیے کوئی پالیسی ترتیب نہیں دی اس کا نتیجہ کیا نکلا ہمارے ستر اسی لاکھ ورکرز اور ہمارے سارے انسانی وسائل بیرون ملک منتقل ہو گئے ہیں، اس وقت دنیا میں جتنے بھی وسائل موجود ہیں ان میں سب سے ذیادہ اہمیت انسانی وسائل کی ہے ، آج اگر چین چین اور جاپان جاپان ہے تو اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں کی حکومتوں نے اپنے انسانی وسائل کو اسکلز اور مہارتیں سکھا کر انہیں روز گار مہیا کر دیا ہے اور اب یہ افراد اپنے گھروں میں مال تیار کر کے پوری دنیا میں مارکیٹ کر رہے ہیں ، ہماری بدقسمتی دیکھیں کہ ہمارا شمار دنیا کے ان دس ممالک میں ہوتا ہے جو سب سے ذیادہ انسانی وسائل رکھتے ہیں لیکن ہم ان وسائل سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔

آپ پنجاب کے گاوں دیہات کا سروے کر لیں آپ کو نظر آ#ئے گا کہ ہر دوسرے گھر کا فرد روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم ہے۔ یہ ہماری حکومتوں اور ہمارے حکمرانوں کی نااہلی ہے اور یہ انہیں تسلیم کرنی چاہیئے۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ اس وقت سب سے ذیادہ پاکستانی گلف کنٹریز میں ہیں اور مقامی افراد اور کمپنیوں کے ظالمانہ رویے برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔

گلف کنٹریز کی ترقی، انفراسٹکچراور سڑکوں کی تعمیر میں سب سے ذیادہ پاکستانی لیبر کا کام ہے۔ اس وقت سعودی عرب میں تقریبا 21 لاکھ ، بحرین میں 11 لاکھ ، کویت میں 11 لاکھ ، یو اے ای میں 13 لاکھ ، قطر میں دس لاکھ ، امریکہ میں 9 لاکھ ، برطانیہ میں 18 لاکھ ، اسپین ، ساوتھ افریقہ اور ملائیشیا میں 1 لاکھ ،اٹلی میں ایک لاکھ دس ہزار ، یونان میں ستر ہزار ، جرمنی اور فرانس میں ایک ایک لاکھ کینیڈا میں دولاکھ ، آسٹریلیا میں ایک لاکھ ،ڈنمارک میں 35 ہزار ، چین میں 15 ہزار اور آسٹریا میں دس ہزار پاکستانی لیبرموجود ہے۔


عدیل ، عثمان اور ذیشان کی خوش قسمتی تھی کہ ان کی بات سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز سے ہوتی ہوئی حکمرانوں تک جا پہنچی اور وہ واپس اپنے گھر آ گئے لیکن ان لاکھوں نوجوانوں کا کیا بنے گا جو ایران ، ترکی اور یونان کی سرحد پر کھلے آسمان تلے یخ ٹھنڈی راتوں میں اپنے بہتر مستقبل کا خواب آنکھوں میں سجائے برف کی تہ میں جمے ہوئے ہیں ،کیا میاں نواز شریف ، شہباز شریف اور حکومت ان نوجوانوں کو بھی واپس اپنے وطن لا کر انہیں کوئی باعزت روزگار مہیا کر سکے گی ، بیرون ملک مقیم ایک کروڑ پاکستانی اور پاکستان میں مقیم ان کے لواحقین حکومت سے اس سوال کے جواب کے منتظر ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :