شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان۔۔۔۔۔رونق ِبزمِ جہاں

منگل 17 جنوری 2017

Muhammad Uzair Asim

محمد عزیر عاصم

رات دس بجنے میں پانچ منٹ باقی تھے،سیل فون کی گھنٹی نے برقی پیغام کااشارہ دیا،پیغام دیکھتے ہی چکرا کے رہ گیا،دل اندھیرے میں ڈوب گیا،دسمبر خیریت سے گزرنے پہ شکر ادا کر رہے تھے کہ جنوری نے نئے سال کاتحفہ لینا ضروری سمجھا اور ایک ایسی ہستی لے گیا جس کے جانے سے شہر تو شہر ویرانے تک اداس ہیں۔
حضرت شیخ کے جانے سے ایک اور حادثہ اسلامیانِ پاکستان کا مقدر بنا،فتنوں کے اس دور میں جن کا وجودِ مسعود غنیمت تھا،وہ راہی عدم ہوئے اور امت کے دلوں میں گہرا زخم جاگزیں ہوا،حضرت مدنی  کے شاگردِ خاص شیخ ا لحدیث مولانا سلیم اللہ اکے سانحہ ارتحال نے ایک بہت بڑا خلاپیدا کردیاہے۔

گزشتہ برس ٹھیک یہی دن تھے ،جب وہ حضرو کی سرزمین پہ اپنے معروف شاگرد شیخ الحدیث مولانا عبدالمتین کی وفات پہ تعزیت کے لئے حاضر ہوئے تھے۔

(جاری ہے)

دیکھنے والوں نے تو دیکھ کہ سمجھا ہوگا کہ وہیل چئیر پہ آنے والا یہ شخص ویسے ہی کوئی بابا سا ہے،مگر ان کو کیا معلوم کہ یہ شخص پاکستان کے بیس ہزار سے زائد مدارس کا قائد ہے۔وفاق المدارس ہی نہیں بلکہ اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کا سربراہ بھی ہے۔

جس نے آمریت کے دور میں بھی مدارس کی آزادی اور تحفظ پہ کوئی آنچ نہیں آنے دی۔پچاس سال تک بخاری شریف کا درس دینے والا آج دنیا سے رخصت ہوا تو آسمان نے بھی اشک برسانے میں دیر نہیں لگائی۔آپ کے سانحہ ارتحال پہ ایوان بالا (سینیٹ ) میں آپ کے ایصال ِ ثواب کے لئے فاتحہ خوانی بھی کروائی گئی،دینی و سیاسی راہنماؤں نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔


شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان  جامعہ فاروقیہ کراچی کے مہتمم اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر تھے،گزشتہ پچاس سال سے جامعہ کی مسندِحدیث کی رونق تھے،آپ کی سند ِ حدیث شیخ العرب والعجم حضرت مولانا حسین احمد مدنی تک بلا واسطہ تھی،پاکستان میں غالب گمان کے مطابق آپ  حضرت مدنی کے آخری شاگرد تھے۔آپ نے اپنی چھیانوے برس کی زندگی میں دین اسلام کی تما م شعبوں میں خدمت کی،سیاسی میدان میں اہلِ کراچی کی بیداری آپ کی نوجوانی اور جوانی کی بہترین یادگار ہے۔

ہمارے حضرت شیخ مولانا عبدالمتین  اپنے استاد حضرت شیخ سلیم اللہ خان  کی سیاسی میدان میں متحرک کردار اور الیکشن میں حصہ لینا اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے،گاہے بگاہے اپنے استاد کا ذکر آپ کی زبان سے جاری رہتا تھا۔صحافتی میدان میں جامعہ فاروقیہ کا مجلہ الفاروق کا انگریزی اور عربی ایڈیشن کے ساتھ اردو ایڈیشن بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

آپ کی تدریسی زندگی تو جہد مسلسل کا عملی نمونہ ہے۔
جامعہ فاروقیہ کا وہ ابتدائی دور اسی کی دہائی میں ہم اپنے اساتذہ سے سن چکے ہیں،اس وقت کچی مسجد اور چھوٹا سا مدرسہ تھا،مدرسہ کے وسائل نہ ہونے کے برابر تھے،حضرت خود دن کے اسباق پڑھا کر چندے کے لئے مخیر حضرات کے پاس جاتے تھے اور شام کو واپس آکر پھر مدرسہ میں مصروف ہوجاتے تھے،طلباء کے لنگر کا بھی کوئی معقول انتظام نہیں تھا،مگر حضرت  کے پایہ استقلال میں ذرہ بھی لغزش نہ آئی ،اور آج جامعہ فارقیہ شان و شوکت کے ساتھ دین کی آبیاری میں مصروفِ عمل ہے۔


تدریسی مصروفیات اور مدارس کے تحفظ کے لئے وفاق المدارس کی سربراہی کے بعد آپ ذاتی طور تو سیاسی میدان سے دور ہوگئے مگرآپ کی ہمدردیا ں اور توجہ جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ مستقلاً وابستہ رہیں۔گزشتہ عشرے میں جب جمعیت علمائے اسلام کو تقسیم کیا گیا تو جن اکابر کو اس عمل سے تکلیف پہنچی ،ان میں حضرت شیخ  سر فہرست تھے۔آپ عملاً ،قولاً،فعلاً جمعیت علمائے اسلام کے امیرمولانا فضل الرحمان کے ساتھ تھے ،آپ کو جمعیت کی تقسیم سے دکھ پہنچا تھا،آپ مسلسل کوشش کرتے رہے کہ نظریاتی کے نام سے الگ گروپ بنانے والے احباب کو واپس لایا جائے،اسٹیبلشمنٹ کی سازش کو ختم کیاجائے ،گزشتہ برس فروری میں آپ اپنی کوشش میں کامیاب ہوگئے اور اسلام دشمنوں کے سینے پہ مونگ ملتے ہوئے جمعیت کے دونوں دھڑوں میں اتحاد کروا دیا اور اپنی پیرانہ سالی کے باوجود اس موقع پر کوئٹہ حاضر ہوئے اور خوشی کا اظہار کیا،دو سال قبل جب یہودی ایجنڈے کے توڑ کے لئے جمیعت کے تحت پورے ملک میں اسلام زندہ باد کانفرنسز کا انعقاد کیا گیا تو آپ کراچی کی اسلام زندہ باد کانفرنس میں نہ صرف خود وہیل چئیر پہ بیٹھ کہ حاضر ہوئے بلکہ اپنی جیب سے تین لاکھ روپے چندہ بھی دیا۔


حضرت شیخ   کو اللہ نے کمال کا حافظہ دیا تھا،آپ نے قرآن مجید صرف ستائیس دن میں حفظ کر کے عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔بخاری شریف کی شرح چوبیس جلدوں اور مشکواة کی شرح پانچ جلدوں میں لکھ کر اہل علم کی تشنگی کا سامان بھی کر چکے ہیں۔
آج جب حضرت اس دارِ فانی کو الوداع کہہ چکے ہیں تو ارباب مدارس اور دینی ذہن کے حامل لوگوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ آپ کے مشن کو پورا کریں ،وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام سمیت سب مدارس کے تحفظ اور ترقی کے لئے کمر بستہ ہوجائیں اور وفاق المدارس کے خلاف سازش کرنے والے عناصر کا ہر سطح پہ بائیکاٹ کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :