تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی: لمحہ فکریہ!!

منگل 17 جنوری 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

ہم اس لحاظ سے یقینا بد قسمت قوموں میں شمار ہوتے ہو نگے کہ ہم نے کبھی اپنی نو جوان نسل کے لئے نہیں سوچا، کوئی ایسی پلاننگ نہیں کی جس کی روشنی میں نوجوان، جو ہماری آبادی کاایک کثیرحصہ ہیں کے لئے کوئی مثبت کام کا آغاز ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری طرح ہماری نوجوان نسل بھی افرا تفری اور فرسٹریشن میں مبتلا، آوارہ اور بے یقینی کی سی کیفیت میں زندگی بسر کر نے پر مجبور ہے ۔

ظلم تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں کھیل و تفریح کے میدان یا تو ختم ہوتے جا رہے ہیں اور جو کچھ باقی ہیں ان پر قبضہ مافیا نے اپنے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں ۔جس کے نتیجے میں نواجون تفریح اور کھیل جیسی بنیادی ضروریات سے بھی دور ہوتے جا رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی فرسٹریشن اور ڈپریشن کو دور کر نے کی خاطر غلط راہوں کے مسافر بنتے جا رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

گلی ، محلوں ، تعلیمی اداروں اور بڑی بڑی محفلوں میں چرس، افیون، شیشہ، کوکین ،شراب اور کرسٹل پاؤڈر جیسی لعنتیں ، نوجوانوں کو تیزی سے اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔

جس کے نتیجے میں جہا ں نوجوانوں کا مستقبل خطرے میں پڑ رہا ہے وہاں جرائم میں بھی خاظر خواہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ اپنی فرسٹریشن کو لگام دینے کی خاطر نوجوانوں میں ان لعنتوں کو استعمال کر نے کا فیشن عام ہو چکا ہے اور ان کی دستیابی کے لئے ڈکیتی ، چوری اور ان جیسے جرائم میں ملوث پڑھے لکھے نوجوانوں کی شرح میں اضافہ ایک افسوسناک امر ہے ۔


قارئین کرام !حالیہ دنوں میں ذرائع ابلاغ میں متواتر یہ خبریں شائع ہورہی ہیں کہ یونیورسٹیوں اوور کالجوں کے طالبعلموں میں منشیات کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے ۔کچھ روز قبل لاہور میں ہی اس سے جڑا ایک ایسا افسوس ناک واقعہ رونما ہوا تھا جس میں منشیات کی زیادتی کی وجہ سے ایک نجی یونیورسٹی کا طا لبعلم موت کے منہ میں چلا گیا تھا ۔ تعلیمی اداروں اور ان سے ملحقہ ہاسٹلز میں منشیات فروشی کا دھندہ ایک کاروبار کی شکل اختیار کر تا جا رہا ہے جس میں متعلقہ ادارے کے اساتذہ و ملازمین، محکمہ ایکسائز اور پولیس ملازمین بھی شامل ہوتے ہیں ۔

یہ ایک ایسا گٹھ جوڑ ہے جو اوپر سے نیچے تک کے لوگوں کی جیبیں گرم رکھ کر معصوم نوجوانوں کی زندگیوں کو تباہ کر نے میں مصروف عمل ہیں ۔حالیہ دنوں میں اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی کا دھندہ کرنے والے ایسے گینگ کو گرفتار کیا ہے جو کئی سالوں سے23سے 30سال تک کے بڑے تعلیمی اداروں کے طلبا ء کو منشیات فروخت کر رہا تھا ۔گرفتار ملز م نے اس بات کا بھی انکشاف کیا ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں منشیات سپلائی کا ٹھیکے دار ہے جس کے پاس زیادہ تر نوجوان سٹرپ(اسٹیسی)کا نشہ خریدنے آتے ہیں جس کی ایک سٹرپ کی مالیت دوہزار روپے ہے ۔

اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ شہر اقتدار میں ایسا گھناؤنادھندہ، اقتدار کے مزے لوٹنے والے ارباب اختیار کی مرض کے بغیر ہو سکتا ہے؟ اور اگر ہو رہا ہے تو یہ ان کی گڈ گورننس اور نااہلی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
ظلم تو یہ ہے کہ ان مافیاز کے ہاتھوں زندگی سے شکست کھانے والے افراد کی موت کے بعد جب حکا م بالا کچھ ہوش میں آتے ہیں اور انکوائیری کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں ، جس کی روشنی میں کچھ ذمہ داران کا تعین ہوتا ہے اور اس کے چند ہی روز بعد پھر سے وہی لمبی خاموشی اور بے حسی ہمارا مقدر ٹہرتی ہے ۔

حقیقتِ حال یہ ہے کہ اس گھناؤنے دھندے میں ملوث افراد کو پولیس ،مکمل سیکورٹی فراہم کرتی ہے ۔ جب کوئی ایما ندار افسر، اپنے علاقے میں پورے دھڑلے کے ساتھ ،منشیات فروشی کے دھندے میں ملوث افراد کے ڈیرے پر چھاپہ مارتا ہے تو ،ماہانہ پیسے وصول کرنے والے اور روٹیاں کھانے والے نکے تھانیدار پہلے ہی اسے آگاہ کر دیتے ہیں اور، یوں وہ صاحب بہادر کے غیض و غضب سے بچ کر، ایک دفعہ پھر زور وشور کے ساتھ اپنے کام میں مصروف ہو جا تا ہے ۔

لاہور کے کئی ایسے علاقے ہیں جہاں پورے زورو شور کے ساتھ کھلے عام ،منشیات کا کاروبار عروج پر ہے جبکہ متعلقہ ایس۔ایچ۔او لاکھوں روپے لے کر لمبی تان کر سوئے رہتے ہیں۔
قارئین کرام !اگر ہم حقیقی معنوں میں اپنی نوجوان نسل کی بقا چا ہتے ہیں تو اس کے لئے ہمیں بطور والدین، اساتذہ ، پولیس افسر، ایکسائز افسر اپنے اندر حب الوطنی اور نوجوان نسل کی بقا ء اور اس کی حفاظت کا جذبہ لے کر کام کر نا ہو گا۔

ہر شخص کو اپنی اپنی جگہ ایمانداری کے ساتھ نواجوانوں کو تباہی کی جانب لے جانے والے ان عناصر کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننا ہو گا اور اپنی اپنی جگہ اپنا حصہ ڈالتے ہوئے ایسے لوگوں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کرکے ان کا قلع قمع کر نا ہو گا۔ اگر تو ہم اس میں کامیاب ہو گئے تویقین جانیں کہ پھر ہماری نوجوان نسل کا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا اور اگر خدانخواستہ ہم یونہی حرام خوری کی لت میں مبتلا رہ کر ،ان مافیاز سے اپنے حصہ وصول کر کے ،انہیں کھلی چھوٹ دیتے رہے تو کچھ بعید نہیں کہ کل ،یہ آگ ہمارے گھروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے، جسکے نتیجے میں ہمارے بچوں کے بلند ہوتے قہقہے اور ہنستے بستے گھراس کی زد میں آجائیں اور پھر ہمارے پاس حرا م خوری سے کمائے ہوئے چند ٹکوں کے علاوہ کچھ اور نہ بچے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :