ایسے تو نہیں چلے گا

جمعہ 10 فروری 2017

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

اسلامی تعلیمات کے مطابق اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی غیر موجودگی میں کوئی ایسی بات کرے جو اُس کو سن کر بُری لگے وہ غیبت ہے بیشک وہ چیز اُس شخص میں پائی بھی جاتی ہو اور غیبت کرنا اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے۔ اگر وہ چیز اُس شخص میں نہ پائی جاتی ہو تو وہ بہتان ہے جو غیبت سے بھی بڑا گناہ ہے۔
غیبت کو اللہ اور اللہ کے رسولﷺ نے سختی سے منع فرمایا۔

دنیا کے ہر فلسفی ، ذی شعور اور شائستہ انسان نے بھی نکتہ چینی کے اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایمٹ فاکس کا کہنا ہے، نکتہ چینی یا دوسروں پر تنقید کرنا بلواستہ اور بلا واستہ اپنی تعریف کرنے کے مترادف ہے جو غلط کام ہے۔ مَرکس سَزیرو کا کہنا ہے، میں عملی کام کے ذریعے تنقید کرتا ہوں نہ کہ لوگوں میں عیب تلاش کرنے سے۔

(جاری ہے)

بینجمن فرینکلن کہتے ہیں، کوئی بیوقوف آدمی ہی کسی پر تنقید یا نکتہ چینی کرسکتا ہے۔


ایک ایسا شخص جو ٹیلی وژن پر بیٹھ کر گھنٹوں صرف اور صرف غیبت اور بہتان تراشی کرتا ہو اور خود کو اسلامی اسکالر بھی کہتا ہو اُس کا تو اللہ ہی حافظ۔ عامر لیاقت گزشتہ کچھ عرصے سے بول ٹیلی وژن پر ایسے تو نہیں چلے گا کے نام سے پروگرام کرتے رہے جس میں انہوں نے کسی کو بُرابھلا کہنے کے بغیر نہیں چھوڑا، کسی کو کیچڑاچھالنے کے بغیر نہیں چھوڑا، کسی کو غیبت اور بہتان تراشی کے بغیر نہیں بخشا۔

عامر لیاقت ہم سے زیادہ اسلام کے بارے میں جانتے ہونگے لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ کسی کی غیبت کرنا، کسی کی بہتان تراشی کرنا ، کسی کی پگڑی اچھالنا، کسی کو ٹیلی وژن پر آکر ذلیل اور رسوا کرنے کی کوشش کرنا اسلام نہ ہی اخلاقیات اجازت دے رہی ہیں۔
عامر لیاقت ٹی وی سکرین پر عزت دار لوگوں کی عزتوں کے ساتھ کھیلتے رہے، لوگوں پر تہمتیں لگاتے رہے، کسی کو شرابی کہا، کسی پر خواتین سے ناجائز تعلقات کا بہتان لگایا، کسی پرشراب کا گلاس سر پر رکھ کر ناچنے کا بہتان لگایا اور کسی کو ملک سے غداری کا سرٹفکیٹ دیا۔

کیا کسی مہذب معاشرے میں ایسے چلتا ہے۔ ایسے تو نہیں چلے گا، کا دعویٰ کرنے والا جو کچھ خودکررہا ہے کیا ایسے چلنا چاہیئے؟ عامر لیاقت کو ٹی وی پر عدالت لگانے کی اجازت کس نے دی؟ لوگوں کی عزتوں اور عصمتوں کو اچھالنے کی اجازت کس نے دی؟ اسلام اور اخلاقیات تو لوگوں کے عیبوں کی پردہ پوشی کی ترغیب دیتے ہیں لیکن عامر لیاقت کو عزت دار لوگوں کو رسوا کرنے کی اجازت کس نے دی؟ کیا ایسا چلنا چاہیے؟
عامر لیاقت کو خود بھی اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیئے۔

لوگ اُن کی لغویات کے بارے میں منظر عام پر آنے والی ویڈیو ابھی تک نہیں بھولے ہیں۔ الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف نفرت آمیز تقریر کی تو عامر لیاقت ہی اُن کا دفاع کرتے رہے اور ایک رات رینجرز کی تحویل میں گزار کر نہ صرف اگلے دن ہی بدل گئے بلکہ سیاست سے ہی کنارہ کشی کرلی۔ لوگ عامر لیاقت کی باتیں بھولے نہیں لیکن انہیں کوئی بُرا بھلا بھی نہیں کہتا۔

کیونکہ سب کا حساب اور احتساب کرنے والی اللہ کی ذات کافی ہے۔ عامر لیاقت جیو ٹیلی وژن میں نوکری کے دوران جن لوگوں کے سامنے تعریفوں کے پُل باندھتے تھے آج وہ بُرے ہوگئے کیونکہ اب عامر لیاقت کے مفادات اُن سے وابستہ نہیں ہیں۔ آج عامر لیاقت کے لئے وہ لوگ اچھے ہیں جن سے اُنکے مفادات وابستہ ہیں۔
عامر لیاقت جو مرضی کریں جیسے مرضی اپنی زندگی گزاریں لیکن بلاوجہ لوگوں کی عزتوں کے ساتھ نہ کھیلیں۔ انسان کو اپنی چھڑی وہاں تک ہی گھمانے کا حق ہے جہاں دوسرے کی ناک کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ اگر اُس نے کسی کا ناک اڑانے کی کوشش کی تو اُس کو بھی کہا جائے گا ایسے تو نہیں چلے گا جناب۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :